Ticker

6/recent/ticker-posts

علی گڑھ تحریک کی ادبی خدمات | علی گڑھ تحریک کے مقاصد | سر سید تحریک کا پس منظر

علی گڑھ تحریک کی ادبی خدمات | علی گڑھ تحریک کے مقاصد | سر سید تحریک کا پس منظر

علی گڑھ تحریک : 1857 عیسوی کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے جو کوششیں کی گئیں اسے علی گڑھ تحریک کہتے ہیں۔ چونکہ اس تحریک کے روح رواں سر سید احمد خاں تھے اس لئے اسے سر سید تحریک سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

علی گڑھ تحریک کا واقعہ اس طرح ہے

علی گڑھ تحریک کا واقعہ اس طرح ہے کہ انیسویں صدی کا نصف آخر مسلمانان ہند کی تاریخ کا پرآشوب اور صبر آزما دور تھا۔ مسلم معاشرہ جو عرصہ دراز سے جہل، قدامت پسندی، کورانہ تقلید، لہو ولعب اور دوسرے مہلک مرض میں مبتلا تھا،اب سیاسی اقتدار چھن جانے کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھا۔

v

علی گڑھ تحریک کا مسلمانوں پر اثر کچھ زیادہ ہی تھا

یوں تو غدر کی ناکامی کے مصائب ہندوستانی سماج کے تمام طبقوں کو برداشت کرنا پڑا، مگر مسلمانوں پر اس کا اثر کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بغاوت کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ لہذا انگریزوں نے مسلمانوں کو کچھ زیادہ ہی نقصان پہنچایا، ہزاروں مسلمان جن میں علماء اور شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے، تہہ تیغ کر دیے گئے، مسلم قوم کو شک وشبہ اور حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس طرح مسلم قوم کا مستقبل تاریک ہو گیا اور کہیں سے امید کی ایسی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی جو مسلمانوں کو اس مصیبت کے بھنور سے نکال سکے۔

علی گڑھ تحریک کی ضرورت اور اہمیت

ایسے حالات میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت تھی جو لوگوں میں ہمت، جوش اور خود اعتمادی پیدا کر دے، ساتھ ہی کوئی ایسا رہبر سامنے آئے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھال سکے۔قدرت نے اس عظیم کام کی انجام دہی کے لئے سر سید جیسے آہنی شخص کا انتخاب کیا۔ چونکہ سر سید خود بھی ان آلام و مصائب کے شکار ہوئے تھے اور بہت سے دل دہلا دینے والے مناظر کے شاہد تھے۔ لہذا ایسے نازک حالات میں سر سید نے ایک سچے مصلح اور مفکر کی حیثیت سے قوم کو اس مصیبت کی گھڑی سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔

v

سر سید احمد خاں اور علی گڑھ تحریک کے مقاصد

سر سید احمد خاں نے ایک کار گر لائحہ عمل اور مضبوط ارادے کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک نیا راستہ اپنایا اور وہ راستہ یہ تھا کہ انگریز حکومت کے زیر تسلط مسلم معاشرہ میں بہتری کی صورت پیدا کی جاۓ۔ اسلامی تعلیمات کو جدید علوم، سائنس اور فلسفہ سے ہم آہنگ کیا جائے۔ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم اور مغربی علوم سیکھنے کی ترغیب دی جاۓ۔ جدید علوم اور سائنس کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ لہذا بغاوت کے بعد سر سید احمد خاں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے تئیں انگریزوں کی بدگمانی کو دور کرنے کے کوشش کی۔

سر سید احمد خاں کی کتاب اسباب بغاوت ہند

سر سید احمد خاں نے سب سے پہلا کام اسباب بغاوت ہند لکھ کر انگریزوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ اس بغاوت کے لئے مسلمان ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ خود انگریزوں کی غلط حکمت عملی اس کی ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ سماجی اور مذہبی اصلاحات کے لئے سر سید احمد خاں نے سائنس اور دیگر علوم عقلیہ کو حاصل کرنے کی تائید کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات کی تشریح اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں جدید علوم و فلسفہ کی رعایت رکھی جائے۔ اسلام کے بارے میں سر سید احمد خاں کا کہنا تھا کہ اس میں اتنی وسعت اور ہمہ گیری ہے کہ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔

v

سر سید احمد خاں اور سائنٹفک سوسائٹی، محمڈن اورینٹل کالج اور مڈن ایجو کیشنل کانفرنس

اپنے اصلاحی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے سر سید احمد خاں نے سائنٹفک سوسائٹی، محمڈن اورینٹل کالج اور مڈن ایجو کیشنل کانفرنس جیسے ادارے قائم کئے۔ 1870 عیسوی میں انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ ان کا مقصد ہندوستانی عوام کو سائنس اور جدید علوم کی تعلیم دینا، طلبا کو انگریزی تعلیم سے بہرہ ور کرنا کے علاوہ ان میں اعتدال پسندی پیدا کرنا، انگریزی تعلیم کی اہمیت واضح کرنا، مسلمانوں کی پستی کے اسباب کا جائزہ لینا اور ان کو دور کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرنا تھا۔

اردو زبان و ادب کی ترقی وترویج میں علی گڑھ تحریک کے خدمات

اردو زبان و ادب کی ترقی وترویج کے سلسلے میں بھی علی گڑھ تحریک نے نمایاں خدمات انجام دیئے۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ مختلف اصناف ادب کے معاملے میں بھی ناموران علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے ذیادہ تر رحجانات اور نظریہ خاص توجہ کے لائق ہیں۔ جیسے نیچرل شاعری کی تحریک جس میں کہ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اس تحریک کا ایک اہم حصّہ تھا۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سر سید احمد خاں اور ان کے رفقاء سے ہوتا ہے۔ سوانح نگاری، سیرت نگاری، ناول، اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ علی گڑھ تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ، محسن الملک وغیرہ کی جدت پسندی نے اس تحریک کو ایک نئی سمت عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

علی گڑھ تحریک ایک ہمہ جہت تحریک تھی

مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ علی گڑھ تحریک ایک ہمہ جہت تحریک تھی جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سمو لیا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستانی عوام خصوصاً مسلمانوں کی تعمیر وترقی میں ایک مثبت رول ادا کیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے