Ticker

6/recent/ticker-posts

ترقی پسند تحریک کا آغاز و ادبی خدمات | ترقی پسند تحریک کی تعریف | ترقی پسند تحریک پر مضمون

ترقی پسند تحریک کا آغاز و ادبی خدمات | ترقی پسند تحریک کی تعریف | ترقی پسند تحریک پر مضمون

ترقی پسند تحریک سے اپنی واقفیت کا اظہار
ترقی پسند تحریک: انگریزی حکومت کے خلاف1857 کے انقلاب کی ناکامی کے بعد جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل طور پر قبضہ ہو گیا تو اس کے نتیجے میں تہذیبی سماجی اور سیاسی زندگی بہت متاثر ہوئی۔ چونکہ فنون لطیفہ بھی زندگی کے آئینہ ہوتے ہیں۔ لہذا نئی حکومت اور اس کی نئی پالیسیوں کے سبب فنون لطیفہ میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگی۔ نتیجتاً اردو شعر وادب جو اب تک گل و بلبل اور حسن و عشق کی وادیوں میں سیر کر رہا تھا رفتہ رفتہ انگریزی خیالات سے منہدم ہونے لگا اور اردو شعر وادب پر انگریزی رحجانات کے اثرات مرتب ہونے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کی تباہی نے بھی پوری دنیا میں اتھل پتھل مچا دی۔ لہذا کشمکش کے دور میں بہت سی تحریکیں اٹھیں جن میں سب سے اہم تحریک ترقی پسند تحریک تھی۔

ترقی پسند تحریک کا مقصد | ترقی پسند تحریک کے مقاصد

بنیادی طور پر ترقی پسند تحریک کا مقصد قومی اور سابی اصلاح کے رجحان کو فروغ دینا تھا۔ ابتدا میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر ملک راج آنند، ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر انیس سنہا وغیرہ نے ترقی پسند تحریک کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جب یہ تحریک مستحکم ہو گئی تو دوسرے شاعر و ادیب بھی اس میں شامل ہونے لگے اور اپنے فن کے ذریعہ انہیں افکار و خیالات کا اظہار کیا جن کا تقاضہ یہ تحریک کر رہی تھی، چونکہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ لوگوں میں شاعر اور افسانہ نگار زیادہ تھے اس لئے شاعری اور افسانے میں ترقی پسند تحریک کے رجحان و میلان زیادہ ملتے ہیں۔

ترقی پسند تحریک کا آغاز کہاں سے ہوا

اس تحریک کے زیر اثر افسانوی مجموعه انگارے شائع ہوا تو اس نے تہلکہ مچا دیا۔ کیونکہ اس افسانوی مجموعے میں جو افسانے شامل ہیں ان کا موضوع حقیقی زندگی کا بیباکی کے ساتھ اظہار ہے ۔اس میں مذہب، سیاست، تہذیب، رسم ورواج سب شامل ہیں۔ انگارے کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گی کہ روایت پرستی، مصنوعی اخلاق، تصنع اور تکلف نے معاشرہ کو ترقی کی راہ دکھانے، کے بجاۓ کھن لگا دیا ہے۔ لہذا سماج کی فلاح اور بقا کا دارومدار اس رجعت پسندی کے خلاف بغاوت اور بغاوت کے بے باکانہ اظہار پر منحصر ہے۔ افسانوی ادب کے فنکاروں نے بھی اس تحریک کا اثر قبول کیا اور ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں لکھیں۔ پریم چند، علی عباس حسینی، حیات الله انصاری ، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر ، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی ، سعادت حسین منٹو وغیرہ نے ترقی پسند تحریک کو مقبول ترین تحریک بنا دیا۔ اسی طرح شاعری میں، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، سلام مچھلی شہری، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، معین حسن جذبی وغیره نے فکر اور فن دونوں اعتبار سے اس تحریک کو مستحکم کیا۔ ان شاعروں اور ادیبوں نے سماجی مسائل پر سوچنے کی طرف لوگوں کا ذہن مبذول کرایا ساتھ ہی انقلاب کے نغمے گا کر موجودہ نسل کو انقلاب سے آگاہ کیا۔ اتنا ہی نہیں مستقبل میں جو خطرات سامنے تھے اس کی طرف بھی توجہ دلائی بلاشبہ علی گڑھ تحریک کے بعد اردو میں یہ دوسری بڑی تحریک تھی جو شعر وادب کے رجحان میں ایک انقلابی تبدیلی کا باعث بنی۔ اردو ادب میں حقیقت بیانی کے رحجان کو فروغ دینے میں اس تحریک نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ اردو شعر وادب کے لیے بیش بہا خدمت ہے۔

ترقی پسند تحریک کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالئے

اردو شعر وادب کی تاریخ میں اصلاحی تحریک یا علی گڑھ تحریک کے بعد دوسری سب سے اہم تحریک ترقی پسند تحریک کی شکل میں سامنے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب پر چھا گئی۔ جس نے ایک مختصر سی مدت میں شعر وادب کے میلانات ورجحانات اور اصناف و اسالیب پر گہرے اثرات مرسم کئے اور ساجی زندگی سے شعر وادب کے رابطوں کو مضبوط و محکم کیا۔ ادبی تخلیقات میں سابی زندگی کی گہری اور متنوع بصیرت ترقی پسند تحریک ہی کے زیر اثر نمایاں ہوئی۔ اس تحریک کا اردو ادب میں آغاز 1935ء میں ہوا۔ اس کے لکھنے والے مارکسی نظریات سے متاثر تھے۔

ترقی پسند تحریک کے روح رواں : سجاد ظہیر

سجاد ظہیر جو اس تحریک کے روح رواں تھے ان دنوں لندن میں تھے اور وہاں فاشزم کے خلاف غم و غصہ کی جو لہر دور رہی تھی ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ اور ان کے ہم خیال ملک راج آنند، ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے ان سبھی نے مل کر ہندوستانی ادیبوں کی ایک انجمن بنائی اور اس کا نام ہندوستانی ترقی پسند انجمن رکھا۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک زور پکڑی اور لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔


ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کل ہند کانفرنس کب اور کہاں ہوئی

ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کل ہند کانفرنس 18 اپریل 1936ء میں لکھنؤ کے رفاہ عام ہال میں منعقد ہوئی۔ پریم چند نے ان کی صدارت کی۔ اس کا نفر نس کی دو چیز میں اردو ادب کی تاریخ میں یادگار رہیں گی۔ایک تو وہ ’’اعلان نامہ‘‘ یا ’’Manifesto‘‘ جو ہندوستان کے ترقی پسند ادیبوں نے اپنی پہلی کل ہند کا نفرنس میں پیش کیا۔ دوسرے پریم چند کا معرکتہ الآرا خطبہ صدارت۔

ترقی پسند ادیبوں کے پہلے مینی فسٹو (manifesto)

ترقی پسند ادیبوں کے پہلے مینی فسٹو (manifesto) میں یہ بات صاف طور پر کہہ دی گئی تھی کہ 

” ہندوستانی ادیوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں ہونے والے تغیرات کو الفاظ اور ہیئت کالباس دیں اور ملک کو تعمیر و ترقی کے راستے پر لگانے میں ممد و معاون ہوں‘‘۔

اس کا نفرنس کی دوسری اہم اور یاد گار چیز پریم چند کا معرکتہ الآر اخطبہ صدارت جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا

ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہو گا۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پر ورانہ تھا۔ ہمارا آرٹسٹ امراء
کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا۔ انھی کی قدردانی پر اس کی ہستی قائم تھی اور انھی کی خوشیوں اور رنجوں، حسرتوں اور تمناؤں، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا۔ ہمارا آرٹ شبابیات کا شیدائی ہے اور نہیں جانتا کہ شباب سینے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھنے اور صنف نازک کی کج ادائیوں کے شکوے کرنے یا اس کی خود پسندیوں اور چو نچلوں پر سر دھننے میں نہیں ہے شباب نام ہے آئیڈیل کا، ہمت کا، مشکل پسندی کا، قربانی کا۔‘‘

پریم چند نے اپنا خطبہ ان یاد گار جملوں پر ختم کیا

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذ بہ ہو، حسن کا جو ہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلاۓ نہیں کیوں کہ اب زیادہ سوناموت کی علامت ہو گی۔‘‘

ترقی پسند تحریک نے اردو زبان کے تمام اصناف کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ شعر وادب کے ذرایعه براہِ ر است عوامی زندگی کے معاملات و مسائل پیش کئے جانے لگے جس نے فطری طور پر شعر و ادب کی فرسود ہ اور منجمد روایتوں کو توڑ دیا۔
taraqqi-pasand-tehreek-aghaz-o-adbi-khidmat-in-urdu


اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے