مقدمہ شعر و شاعری کی روشنی میں حالی کی تنقید نگاری | جدید اردو تنقید کی تاریخ میں مقدمہ شعر و شاعری کی اہمیت
مقدمہ شعر و شاعری کو جدید اردو تنقید کی تاریخ میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہے ۔ تنقیدی زمین کا نقطہ آغاز مقدمہ شعر و شاعری ہے ۔ اردو میں تنقید کی اولین روایت تذکروں کی شکل میں ملتی ہیں۔ لیکن یہ تنقید کی خام روایتیں تھیں اور صحیح معنوں میں تذکروں کے ذریعہ تنقید کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔ ۱۸۹۳ء میں پہلی مرتبہ کلیات حالی میں ایک ایسا پر مغز مقدمہ شامل اور شائع ہوا جس میں شعر و ادب سے متعلق تنقیدی خیالات تفصیل کے ساتھ پیش کئے گئے۔ حالی کے اس مقدمے کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی کہ کلیات سے الگ کر کے کئی مرتبہ اس کی اشاعت ہوئی اور اسے اردو کے جدید تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔
مقدمہ شعر و شاعر اردو تنقید کی پہلی کتاب ہے
مقدمہ شعر و شاعری گو یا تنقید کی وہ پہلی کتاب ہے جس میں تذکروں کی عام روایتوں سے انحراف کا میلان نمایاں ہے۔ حالی نے مشرق و مغرب کے دانشوروں کے ادبی خیالات و نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے تنقید نگاری کے ارتقاء کی راہیں ہموار کیں۔ آج بھی مقدمہ شعر و شاعری کی تنقیدی روایت جدید تنقید کو روشنی فراہم کرتی ہے جس میں تنقیدی نظریے اور تنقیدی عمل کی ساری مثالیں فراہم کی گئی تھیں۔ حالی نے پہلی مرتبہ شعر و شاعری سے زندگی کے رابطے کا اظہار شعوری طور پر کیا اور مدلل انداز میں اس کی وضاحت کی کہ شاعری اور سماج، شاعری اور اخلاق اور یوں شاعری اور زندگی ایک دوسرے سے گہرارابطہ رکھتی ہے ۔
مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے پہلی مرتبہ اعلی شاعری کی خوبیوں کی نشاندہی کی
مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے پہلی مرتبہ اعلی شاعری کی خوبیوں کی نشاندہی کی اور معیاری شاعری کی شرطوں کو سامنے رکھا۔ حالی نے مروجہ اصناف سخن کی منجمد روایتوں کو پہلی مرتبہ موضوع تنقید بنایا اور اصلاح روایات کی ضرورت محسوس کی۔ پروفیسر عبدالشکور نے تنقیدی سرمایہ میں لکھا ہے :
’’ حالی نے ایک نئے اور نہایت اہم فن یعنی فن تنقید کی بنیاد میں استوار کیں اور ایسی عمارت تعمیر کی جو آج بھی مسرت، اطمینار اور فخر وناز سے دیکھی جاتی ہے‘‘۔
حالی کی تنقیدی تصنیف مقدمہ شعر و شاعری
حالی کی اس تنقیدی تصنیف مقدمہ شعر و شاعری کو پروفیسر عبد القادر سروری نے عہد آفریں کارنامہ قرار دیا ہے تو ڈاکٹر شوکت سبزواری نے انھیں تنقید کا مجہتد قرار دیا ہے ۔ مقدمہ شعر و شاعری کی تنقید دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ پہلے حصہ میں نظریات کا بیان ہے ، شعر و شاعری کے سلسلے میں ور جل، سر والٹر اسکارٹ ، ملٹن، میتھیو آرنلڈ، گولڈ اسمتھ وغیرہ مغربی شاعروں اور دانشوروں کے افکار کی روشنی میں حالی نے اردو زبان کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرنے کی کاوش کی ہے اور اس کی نشاندہی کی ہے کہ شاعری سے شخصی اور معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ شاعری کی جو شر طیں انھوں نے بیان کی ہیں اور شعر کی جن خوبیوں پر انھوں نے زور دیا ہے انھیں حرف آخر تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور موجودہ دور میں شعر و شاعری سے متعلق نظریات ترقیوں کے کئی اور مراحل طے کر چکے ہیں اس کے باوجوداس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالی نے جس دور میں یہ مقدمہ قلم بند کیا اس دور میں نہ تنقید کا کوئی تصور تھا اور نہ شاعری سے زندگی کے رابطے کا کوئی شعور تھا۔ ایک روایتی انداز سخن پر سبھی عمل کر رہے تھے ۔ بقول الطاف حسین حالی :
’’ ہمارے ملک میں فی زمانہ شاعری کی صرف ایک شرط یعنی موزوں طبع ہو نا در کار ہے ۔ جو شخص چند سیدھی سادی متعارف بحروں میں کلام موزوں کر سکتا ہے گویا اس کے شاعر بننے کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں۔ رہتی۔ معمولی مضامین ، معمولی تشبیہوں اور استعاروں کا کسی قدر ذخیر ان کے یہاں موجود ہے جس کو متعدد صدیوں سے لوگ اسے دہراتے چلے آۓ ہیں۔‘‘
گویا اکتا دینے والی یکسانیت اور بے زار کن تکرار بیان نے ہماری شاعری کو بے رنگ اور بے کیف بنار کھا تھا، حالی نے اس عیب کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور دلائل کے ساتھ وضاحت کی ، محض قافیہ پیائی شاعری نہیں بلکہ شاعری وہ اعلی و ارفع بیانیہ قوت ہے جس کے ذریعہ زندگی میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ حالی کی ناقدانہ محنت کا بنیادی طور پر مقصد یہی تھا۔ انھوں نے اس لئے اس بات پر زور دیا ہے کہ شاعری کے کوچے میں اس شخص کو قدم رکھنا چاہئے جس کو قدرت نے یہ صلاحیت بخشی ہے۔انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ شاعری کی فکر میں ایسی نظریاتی اپج ہونی چاہئے جو ایک طائر یا مکٹری کے اندر گھونسلہ بنانے کی ہوتی ہے ۔ نظریاتی شعر کے بیان کے بعد حالی نے غزل، قصیدہ اور مثنوی کو اپنی تجزیاتی تنقید کا موضوع بنایا۔ ان اصناف سخن میں جو کمزوریاں اور خامیاں پیدا ہو رہی تھیں ان کی گرفت کرتے ہوۓ حالی نے ناقدانہ انداز میں ان پر تنقید کی ہے۔ محض ان گھسی پٹی روایتوں کی تخلیق کا نام شاعری نہیں ہے ، یہ محض نقالی ہے ۔ حالی نے اصلاح غزل کے لئے چار اہم مشورے دیئے ہیں اور مجموعی طور پر ان مشوروں کے وسیلے سے داخلی اور خارجی طور پر غزل کے تخلیقی مزاج کے بیان کو بلند ، کار آمد اور حیات آفر یں بنانے پر زور دیا ہے۔
مقدمہ شعر و شاعری کی ادبی اہمیت
مجموعی طور پر مقدمہ شعر و شاعری ہمارے ادب میں وہی اہمیت رکھتی ہے جو ار سطو کی کتاب ’’بوطیقا‘‘ کو مغربی ادب میں حاصل ہے۔ شعر وادب اور تنقید کی روایتوں کے اس دور جدید میں بھی سو سال پہلے لکھی جانے والی تنقیدی تصنیف مقدمہ شعر و شاعری کی اہمیت فراموش نہیں کی جاسکتی۔ حالی کے نظریات کے بعض پہلو کمزور ہو سکتے ہیں لیکن ان کی معنویت اور قدرو قیمت کم نہیں ہوتی۔
مقدمہ شعر و شاعری میں الطاف حسین حالی نے شاعری کے لئے کن شرائط کا ذکر کیا ہے
مقدمہ شعر و شاعری اردو کی ان اہم اور معیاری کتابوں میں ہے جن کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔ اس کو اردو میں تنقید کی پہلی کتاب کہا جاتا ہے۔کیونکہ مقدمہ شعر و شاعری پہلی کتاب ہے جس میں شاعری کے بعض اہم مسائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ہر چند کہ آج اردو میں تنقید کا سرمایہ بہت بڑھ چکا ہے تاہم حالی نے شاعری کے تعلق سے جو باتیں کہیں اس کے بعض پہلو آج بھی فکر انگیز معلوم ہوتے ہیں۔
مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کے لئے تین شرائط کو لازمی
مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کے لئے حالی نے بنیادی طور پر تین شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا کہ شاعری کی یہی تین شرطیں ایک شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہیں۔ یہ تین شرائط اس طرح سےہے۔ پہلا تخیل ، دوسرا کائنات کا مطالعہ اور تیسرا تفحص الفاظ۔ حالی نے شاعری کے لئے تخیل کو سب سے زیادہ مقدم اور ضروری قرار دیا۔ تخیل جس قدر اعلی درجے کی ہوگی شاعری بھی اسی قدر اعلی ہوگی۔ قوت تخیل کے متعلق حالی نے یہ بھی وضاحت کیا ہے کہ اسے اکتساب سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ فطری ہوتا ہے۔ حالی کے نزدیک شاعری کی شرائط میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باقی شرطوں میں کچھ کمی ہے تو اس کا تدارک ایک شاعر اپنے قوت تخیل سے کر سکتا ہے لیکن اگر ایک شاعر کا قوت تخیل ادنی درجے کا ہے یا کمزور ہے تو اس کمی کا تدارک دوسرے شرائط سے نہیں کر سکتا ہے،۔تخیل کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے الطاف حسین حالی نے ی اس بات پر بھی زور دیا ہےکہ تخیل ہی وہ چیز ہے جو ایک شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی و مستقبل کو اس کے لئے حال میں کھینچ کر لاتی ہے اور اس کی بنا پر وہ ہر بات کا ذکر اس طرح کرتا ہے گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔ لہذا عمدہ شاعری کے لئے قوت متخیلہ کا عمدہ ہونا لازمی ہے۔
مقدمہ شعر و شاعری میں دوسری شرط مطالعہ کائنات
مقدمہ شعر و شاعری میں دوسری شرط مطالعہ کائنات ہے۔ یعنی شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے کائنات کا مطالعہ اور خاص طور پر فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور اور باریک بینی سے کیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ زندگی میں انسان کو مختلف حالات سے گزرنا ہوتا ہے اور ان حالات کے نتیجے میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا اثر انسان کے افکار و خیالات پر لازمی طور پر پڑتا ہے۔ شاعر کو انہی کیفیات کا مشاہدہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کیونکہ یہ عام لوگوں کی آنکھوں سے مخفی ہوتی ہیں۔ کائنات کے مطالعے کے بعد شاعری کے لئے ان الفاظ کا مطالعہ یا تفحص ہے جن کے ذریعے سے ایک شاعر اپنے خیالات کو مخاطب کے روبرو پیش کرتا ہے۔ شعر کی ترتیب میں مناسب الفاظ کا استعمال اس طرح کیا جانا چاہیے کہ اشعار کی تفہیم میں کوئی تردد نہ ہو۔ یعنی شاعر کے تخیل کا حسن الفاظ کی ترتیب میں پوشیدہ ہے۔ یعنی تخیل خواہ کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اگر اسے مناسب الفاظ کے ساتھ ترتیب نہیں دیا جاۓ تو وہ مخاطب کو متاثر نہیں کر سکتا ہے،۔لہذا ترتیب شعر کے وقت الفاظ کاتتبع اور تفحص سوچ سمجھ کر اور صبر و استقلال کے ساتھ کرنا لازم ہے۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے