Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا اردو ہندی دونوں ایک ہی زبان ہے ؟ مولانا شبلی نعمانی کا مضمون اردو ہندی کا جائزہ

مولانا شبلی نعمانی کا مضمون، اردو ہندی کا جائزہ مقالات شبلی حصہ دوم سے

کیا اردو ہندی دونوں ایک ہی زبان ہے ؟ اس کے علیحدہ وجود کی ضرورت نہیں ؟ اس نظریہ کی وضاحت مولانا شبلی نعمانی کے مضمون کی روشنی میں فرمائیں ۔

مولانا شبلی نعمانی نے علم وادب کی دنیا میں غیرمعمولی شہرت حاصل کی ہے ۔ علم کلام ، تاریخ ، تنقید میں آپ کا رتبہ بہت بلند ہے۔ ان کی طرزِ تحریر میں غضب کی شگفتگی، روانی اور زور بیان پائی جاتی ہے ۔ مذکور مضمون اردو ہندی مقالات شبلی حصہ دوم سے ماخوذ ہے ۔ یہ مقالہ مسٹربرن کی اس تجویز کے جواب میں تحریر کی گئی ہے جس واقعات ۴۰۳ کے حوالہ سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اردو زبان اور ہندی زبان دراصل ایک ہی زبانیں ہیں کیونکہ ان کے گرامر متحد ہے اور جن دو زبانوں کی گرامر متحد ہوتی ہے۔ وہ زبانیں دراصل ایک ہی ہوتی ہیں ۔ اس بنا پر ورنیکولر کورس ایسی مشترک زبان میں بننا چا ہیئے کہ صرف رسم خط کے فرق سے وہ اردو ہندی دونوں بن جاۓ ؟ اس تجویز کو عملی صورت میں پیش آنے والی دشواریوں اور اس کے نقصانات پر بحث کرتے ہوئے مولانا شبلی نعمانی نے چند باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں ۔

مضمون اردو ہندی میں مولانا شبلی نعمانی نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان سے اپنی واقفیت کا اظہار کریں

ہندی جو ملک کی دیہی علاقوں میں بولی اورسمجھی جاتی ہے ۔ اس میں علاقوں کی بنیاد پر یکسانیت نہیں ہے ۔ اس لئے ہندی زبان کو کورس میں داخل کرنا مناسب نہ ہو گا۔ کیونکہ جو زبان داخل نصاب کی جاتی ہیں ۔ اس میں علمی ذخیرہ کا ہونالازی ہے ۔ اور وہ زبان ابتدائی درجہ سے لے کر اعلی درجات تک۔ تعلیمی ضرورت کی تکمیل کی صلاحیت بھی رکھتی ہو ۔

مولانا شبلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو اور ہندی دونوں ایک زبان نہیں

مولانا شبلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو اور ہندی دونوں ایک زبان نہیں ہیں بلکہ یہ دو علیحدہ زبان ہیں۔ گرامر کی یکسانیت کے باوجود زبان میں فرق ہوتا ہے ۔ اس لئے دونوں زبان کے لئے نصابی کورس بالکل الگ ہونی چاہیئے۔ اور دونوں زبان کو مساوی طور پر ترقی کا موقع ملنا چاہیے ۔

مسٹر برن کی تجویز کومسترد کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات ثابت کیا ہے کہ محض گرامر کی یکسانیت کی بنیاد پرکسی دو زبان کو ایک قرار دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ دو زبانوں کی گرامر کی یکسانیت صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دونوں زبان ایک ہی خاندان سے نکلی ہیں ۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیروت میں عبری اور عربی دونوں زبان کی گرامر ایک ہے لیکن دونوں الگ الگ زبان ہیں۔ان کے لئے علیحدہ کورس ہے ۔

کیا رامائن اور تلسی داس کو کورس میں داخل ہونی چاہیئے

مسٹر بران صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہندی زبان کے نظم کی گرامرنثر سے مختلف ہے اس لئے ہندی نظم کی گرامر کی واقفیت اور مہارت کے لئے رامائن اور تلسی داس کو کورس میں داخل ہونی چاہیئے۔ ہندوؤں کے لئے وہ لازمی کر دینی چاہیئے ۔ اور مسلمانوں کے لئے اس کا پڑھنا مناسب ہو گا ۔ یہ تجویز بھی غیر فطری ہے ۔ چار سو سال قبل کی رامائن آج کی ہندی زبان سے بہت مختلف ہے ۔ اس لئے گرامر کا اختلاف بھی اپنی جگہ درست ہے ۔ لیکن کورس میں داخل کرنے کا جواز واقفیت کو بنیاد قرار دے کر درست نہیں ہے۔ بلکہ کسی زبان کی وسیع واقفیت کے لئے اس کی ابتدائی حالت سے عہد بہ عہد کی تبدیوں کو جاننے کی غرض سے داخل نصاب ہونا چاہیئے ۔

قدیم زبان کی کوئی قابل قدر کتاب بی۔ اے کی بعد داخل نصاب اس لئے کی جاتی ہے تاکہ زبان کے مسئلہ سے متعلق ضروری گوشے متعلم کی جانکاری میں آسکے ۔

مولانا موصوف نے مسٹر برن کی تجویز کو کلی طور پر ناقابل عمل قرا دیتے ہوئے یہ مشورہ دیا ہے کہ ہندی اور اردو کی لسانی خوبی بالکل جداگانہ ہے، صرف رسم الخط کے اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مزاج اور تہذی ور شہ کا بھی فرق ہے اردو میں عربی اور فارسی کے ذخائر سے جو سرما یہ حاصل ہوا ہے ۔ اس کی نفسیات اور قدر میں بالکل جدا گانہ ہیں ۔ اسی طرح سنسکرت اور برج بھاشا سے ماخوذق قدروں کی بنیا د پر ہندی زبان بھی اردو سے مختلف ہے۔ لہذا اردو ہندی کی تعلیم کے لئے کوئی مشترک کورس ناقابل عمل ہوگا۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے