Ticker

6/recent/ticker-posts

غزوۂ بدرکی وجوہات | غزوہ بدر کے اسباب واقعات مضمون Ghazwa-e-Badar-History-in-Urdu

غزوۂ بدرکی تاریخ و وجوہات | غزوہ بدر کے اسباب واقعات مضمون | غزوہ بدر کا پس منظر

غزوہ بدر کے واقعہ کے سلسلہ میں معلومات
غزوہ بدر کو تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ اسلام اور اسلام کے دشمنوں کے درمیان یہ پہلی فیصلہ کن جنگ تھی۔ یہ جنگ اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ تعداد میں کافروں کے مقابلے کم ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ان پر فتح حاصل کی تھی۔


غزوہ بدر کے اسباب واقعات

غزوۂ بدر کا واقعہ یہ ہے کہ مدینہ آنے کے بعد مسلمانوں کو کسی قدر آرام وسکون کا موقع ملا تھا۔ لیکن اسلام دشمنوں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ مسلمان کہیں بھی چین و سکون سے رہ سکیں۔ لہذا آۓ دن کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان فتنوں سے اسلام اور اس کے ماننے والوں کو کوئی خاص نقصان نہیں ہو رہا ہے تو لڑائی کرنے کی ٹھانی۔ اور ایک بڑی فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو کچھ مسلمان اور کچھ انصار کو لے کر جن کی تعداد ۳۱۳ تھی مقابلہ کیلئے نکل پڑے. بدر کی پہاڑی پر دونوں کا مقابلہ ہوا۔ تعداد کے اعتبار سے چونکہ مسلمان کافروں کے مقابلے بہت کم تھے لہذا مسلمان پریشان تھے کہ اتنی بڑی تعداد کا وہ بھلا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کے پاس نہ سواری کا پورا انتظام تھا نہ مناسب ہتھیار تھے تاہم ان کے پاس ایمان کا جوش تھا۔ لہذا بے جھجھک میدان میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر سجدہ میں رکھ دیا اور گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ اے پروردگار! آج یہ مٹھی بھر مسلمان اگر اس صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے تو پھر اس روئے زمین پر کوئی تیرا نام لیوا نہ ہوگا۔ اے پروردگار ! تو ان کی مدد فرما۔ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کی۔ چند گھنٹے میں ہی قریش کی پوری فوج کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا اور مسلمانوں کو ان پر فتح حاصل ہوئی۔


غزوہ بدر میں کتنے کفار مارے گئے

غزوۂ بدر کی اس لڑائی میں قریش کے بڑے بڑے نامور سردار کام آۓ۔ ابو جہل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دشمنی میں سب سے بڑھا ہوا تھا، مارا گیا اور ستر کفار مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ یہ سبھی قیدی وہ لوگ تھے جنہوں نے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا۔ اور مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو تاکید کر دی کہ کسی قیدی کو تکلیف نہ ہو۔ پھر کچھ دن انہیں آرام سے رکھنے کے بعد فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ ادھر بدر میں شکست کی خبر جب مکہ میں ہوئی تو گھر گھر ماتم چھا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاک دعاؤں اور جذبہ حق کےایمان سے ستر کافر جنگجو جہنم میں داخل ہوئے اور چودہ صحابہ کرام نے داد شجاعت کی تاریخ رقم کی اور شہادت پائی۔


غزوہ بدر کب پیش آیا

غزوہ بدر کا عظیم تاریخی واقعہ ماہ رمضان کی ۱۷ ویں تاریخ کو سنہ 2 ہجری میں عقلی دلیل ہے۔ تاریخ اسلام کے لئے یہ اہم اور یادگار دن ہے ۔ اسی دن مدانِ بدر میں اسلام اور کفر کے درمیان پہلی جنگ لڑی گئی تھی اور مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود کفار کے لشکر پر فتح عظیم حاصل ہوئی تھی۔


غزوہ بدر کہاں پیش آیا

مقام بدر میں 17 رمضان المبارک کے روز اسلام اور کفر کے بیچ یہ پہلی اور اہم فیصلہ کن جنگ تھی۔ اس جنگ میں کافر قریش کی طاقت کا غرور پوری طرح ختم ہو گیا اورمسلمانوں کو ابدی طاقت اور کامیابی ملی۔ اس واقعہ پر آج بھی مسلمانوں کو فخر ہے۔


غزوہ بدر قرآن کی روشنی میں

غزوہ بدر کو دُوسرے غزوات پر کئی طریقےسے فوقیت بھی حاصل ہے۔ اسے کافر اور مسلمان کی پہلی جنگِ عظیم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ نے بھی غزوہ بدر کے موقع پر خاص طور پر موجود رہے تھے۔ اُنہوں نے بھی اس جنگ کو فیصلہ کن معرکہ قرار دیا ہے اور قرآن مجید نے تو اس واقعہ کو یوم الفرقان سے تعبیر کر کے اس کی اہمیت اور فضیلت کو مجید مستحکم کیا ہے۔

۱۳ سالوں تک مكه کے کافروں نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر ذبردست ظلم وستم کرتے رہے۔ کفار یہ خیال کرتے تھے کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان سر پھرے لوگ بھلا ان کی جنگی طاقت اور اتنی بڑی فوج کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں؟ لیکن وہ پوری طرح سے جہالت کے گمان میں مبتلاء تھے قدرتِ الٰہی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

اللہ کے خاص کی مدد سے اللہ کے یہ خاص ۳۱۳ مسلمانوں بندوں نے اپنے سے تین گنا زیادہ تعدد والی فوج اور لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے رہتے ہوئے بھی شکست دے دی۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے