Ticker

6/recent/ticker-posts

دیپاولی یعنی دیوالی پر شاعری خاص سوغاتی منظوم تخلیق | جدید، منفرد، طرفہ، عمدہ، دلکش غزل

جدید، منفرد، طرفہ، عمدہ، دلکش غزل/ دیپاولی یعنی دیوالی پر خاص سوغاتی منظوم تخلیق

دیکھ کر، جلتے ہوۓ دیپک، گلابی لڑکیاں !!
کر رہی ہیں یاد ، دیوالی کی شب کی مستیاں !!

خوب صورت ہے کرشنا، خوب صورت ہے سماں !!
خوب صورت ہیں بہت، بے شک !، گلابی گوپیاں !!

بھا رہے ہیں دوستوں کو حسن اور رعنائیاں !!
حضرتِ موہن کرشنا کانھا کی گوپیاں !!

دوستو ! ، اب دہر/ شہر میں ہرگز نہیں بربادیاں !!
شادماں ہی تو دکھائی دیتی ہیں آبادیاں !!

نام ہے ہندوستاں اس کا، یہ ہے جنت نشاں !!
یارو ! ، ہیں قربان اس پر اب سبھی کے جسم و جاں !!

خوب تر ہیں اب بھی اس کی لہلہا تی کھیتیاں !!
آج بھی موجود ہیں سونا اگا تی کھیتیاں !!

خوب صورت بن، یہ سندر کھیت، تازہ کھیتیاں !!
دلربا، رنگیں شفق، اور خوب صورت آسماں !!

خوب صورت ہے کرشنا، ھیں حسیں یہ گوپیاں !!
یہ/ سب سناتے ہیں محبت اور وفا کی داستاں !!

ماتمی صورت بنایا مت کرو ، " اسلامیو " !!
درد و غم ہرگز نہیں، چاروں طرف ہیں شادیاں !!

deepawali-poetry-on-diwali-modern-unique-excellent-charming-ghazal
رام داس راجکمار جانی دلیپ کپور پریمی انسان پریم نگری،
حضرت جاوید اشرف قیس فیض اکبر آبادی منزل، خدیجہنرسنگ ہوم 'رانچی ہل سا ئڈ، امام با ڑہ روڈ، رانچی - 834001 ، جھارکھنڈ، انڈیا - ایشیا-

دیوالی / دیپاولی کے موقعے پر جدید، منفرد، طرفہ و عمدہ غزل 

یارو ! ، " دیوالی " میں روشن ہو گۓ دل کے چراغ !!
" رام بھکتوں " کی محبت ہو گئ ہے باغ باغ !!

دہر/ دنیا میں " دیپا ولی " پھر آگئ، اے رام جی ! !
یوں منور ہو گۓ پھر سے دماغوں کے چراغ !!

کس طرح دی جاۓ قربانی، بتاتے ہیں چراغ ؟!
آپ/ خود ہی جلتے ہیں، ہمیں رستہ دکھاتے ہیں چراغ !!

رام !، درد و غم کے صحرا میں لگاؤ ایک باغ !!
دل بھی لگ جاۓگا، اے ہمدم !، لگاؤ تم دماغ !!

ساری دنیا میں کوئ ڈھونڈے اگر لے کر چراغ !!
تیرا ثانی ہی نھیں، تو، بزمِ حق کا ہے چراغ !!

روشنی دیتے رہے راتوں کو میرے دل کے داغ !!
اے سخن ور/ رام موہن !، چاہتا کیسے میں بھی ان سے فراغ !؟!
چل رہے ہیں مے کدے میں، مے کشو !، دورِ ایاغ !!
بادہء عشق ووفا / مہر و وفا سے دھل رہے ہیں دل کے داغ !!

دیوالی کے موقعے پر خصوصی غزل

ا
اپنی دنیا میں اندھیرے کا سبب ہے بے عمل !!
فکر کے انوار سے ہوتے ہیں روشن دل، دماغ !!

کس طرح دی جاۓ قربانی، بتاتے ہیں چراغ ؟!
جلتے رہتے ہیں، ہمیں رستہ دکھاتے ہیں چراغ !!

اپنی راہوں میں کوئ جگنو، کوئ تارا نہیں !!
ہاتھوں میں لے کر چلیں ہم اپنی ہمت کے چراغ !!

یوں جلا کرتے ہیں، لیکن بھی دیا کرتے ہیں نور !!
کس طرح دی جاۓ قربانی؟!، بتاتے ہیں چراغ !!

دوستو !، میرے اسی گھر سے اجالا پھیلے گا !!
ہاں !، اگر تم پھونک دو گھر کا مرے،تنہا چراغ !!

دیو ڑھیوں پر شام کے منظر بنیں گے بس دھواں !!
جل کے بجھ جاءیں گے، راما!، منتظر دل کے چراغ !!

زندگی کے درد و غم کی، ختم ہوں گی، ظلمتیں !!
جب جلیں گے گھر میں " قرآں " کی " تلاوت" کے چراغ !!
آرزوؤں کے چمکتے دشت میں جا، ہاں، مگر !
پہلے رکھ طاقِ جگر پر عشق و الفت کے چراغ !!

آمدِ خورشید کے بعد اور شب کے ڈھلنے کے بعد !!
اب بتاءیں کیا !؟، میاں !،ہم نے جلاۓ کیوں چراغ !؟!

دیکھئے، اب اس کا بھی انجام کیا ہوتا ہے، رام !؟!
میں نے تو قندیل/ خورشید کے آگے جلایا اک چراغ !!

خود جلا کرتے ہیں لیکن ہم کو دیتے ہیں پرکاش !!
کس طرح دی جاۓ قربانی؟!، بتاتے ہیں چراغ !!

پھیلتی جاتی ہے چاروں سمت من کی روشنی !!
میں جلاتا ہوں شبِ تاریک میں/ اندھیری رات کو ، دل کے چراغ !!

تیرگی کا راز مخفی ہے سحر میں ویسے ہی !!
اپنے آنچل میں کوئ جیسے چھپاۓ ہے چراغ !!

اب ! اسے عزت ملے ہے جو وطن سے نکلے ہے !!
ہیں ولایت کے سفر پر اپنے دل، ذہن و دماغ !!!

"رام" کا " دیپک" مثالی دیپ ہے، جاوید جی/ انسان جی/ اے داس جی !
بجھ نہیں سکتا کبھی بھی " رام صاحب" کا چراغ !!

آندھیاں تو خود بخود رک جایا کرتی ہیں، میاں !!
بجھ نہیں سکتا کبھی، " عثمان ہاروں " کا چراغ !!

" رام جی" ، پھیلی ہوئی ہیں ظلمتیں چاروں طرف !!
اس لۓ دنیا میں ہم دل کے جلاتے ہیں چراغ !!

حضرتِ جاوید کا دیپک " علی اکبر مومن" !!
بجھ نہیں سکتا کبھی بھی " جاوید اشرف " کا چراغ !!

دیپاولی یعنی دیوالی کے موقعے پر ایک منفرد اور مخصوص غزل

پھیل جاتی ہے ہر اک جانب جگر کی روشنی !!
میں جلاتا ہوں اندھیری رات کو دل/ من کے چراغ !!

شمعِ علم و آگہی کی لو کہاں مدھم پڑی !؟!
جل نہیں سکتا کبھی تا دیر جاہل کا چراغ !!

مجھ کو حاصل ہوتا ہے قربِ الاٰہی، رام جی !!
دل کو جب کرتا ہے روشن، پیرِ کامل کا چراغ !!

آۓگا عصرِ/ دور۔/ وقت۔ امان و امن بھی سنسار میں !!
یارو !، جل اٹھے گا امن و آشتی کا اک چراغ !!

ایک دن سنسار میں " رام !" آۓگا پھر " رام راج" !!
جل اٹھیں گے شانتی کے، امن کے سارے چراغ !!

اس جہالت کے جہاں میں تو جلا دے " شمع۔ علم " !!
جس سے جل اٹھیں گے علم وآگہی کے سب چراغ !!

دو جہاں کے درمیاں رکھ دوں " چراغ۔ آگہی" !!
اس " چراغِ آگہی" سے جل اٹھیں گے سب چراغ !!

جاہلوں کے سامنے رکھ دوں " چراغ۔ آگہی " !!
دیکھتے رہ جائیں گے منھ جاہلوں کے سب چراغ !!

اپنے اپنے کام میں ہر چیز ہے مصروف/ مشغول، رام ! !
" دل" تمنا کرتا ہے ! ، اندیشہ کرتا ہے " دماغ " !!

چل دئے ہم سب،" فنا" کے راستے پر، " رام جی" !!
یوں پڑے ہی رہ گۓ کیوں خواہشوں کے سارے باغ !؟!

آپ نے بھی کر دکھائے ہیں کچھ ایسے کام، یار/ شیخ/ سیٹھ !!
آپ کے کردار کو/ پر بھی لگ گۓ دو چار داغ !!؟

یوں بجاۓ " ہندی" کے، ہم " فارسی/ عربی" جو/ جب پڑھ گۓ !!
" رام بھائ" !، ہر "پیالہ" کیوں لگا ہم کو " ایاغ " !؟!

جاری ہے پروردگار۔ دو جہاں کی جستجو !!
وید، گیتا، بائبل، قرآں میں ہے اس کا سرا غ !!

رام جی، انسان،سائیں، صابری/ وارثی/ غالبی/قادری/ جاوید، قیس/ فیض / داس !
ان کی نظموں / غزلوں/ دوھوں/ قطعوں(وغیرہ) میں ہے " اللاہ و محمد" کا سراغ !!

" رام جی" کا  کام ہے کھو ئے ہوؤں کی جستجو !!
ویدوں میں ہے اہلیانِ دین و ایماں کا سراغ !!

دل / من کے ساغر/ ساگر میں سوا " خو،ں " کے بھرا ھی کیا تھا، "رام" !؟!
غم/ دکھ نہیں احساس کا، مسکن جو ٹھہرا ہے دماغ !!

تیرگی چھٹتى/ مٹتی گئی ہے دہر/ دنیا میں، اے رام جی !!
ہر شبِ تاریک میں ہم نے جلائے ہیں چراغ !!

" جہل" کی ظلمت مٹائی، دور اندیشی سے، ہاں !!
جگ میں ہم نے علم و عرفاں کے جلاۓ چراغ !!

ہر اندھیرا چھٹ گیا ہے اور اجالا پھیلا ہے !!
ہر اندھیری رات میں ہم نے جلائے ہیں چراغ !!

اب جہاں تک یہ ستم کی رات/ راہ چلتی جائے ہے !!
میں " ستونِ دار" پر رکھتا چلوں سر کے چراغ !!

آپ کو بھی رب اگر توفیق دے تو ، " رام جی" !!
آپ کے " نقشِ قدم" بن جائیں، منزل کے چراغ !!

آپ کو ، اے رام ! ، دورانِ تگ و دو میں ملا / ملے !!
رب کے پیغمبر کے علموں/ قدموں کے نشانوں کا سراغ/ قدموں کے نشانوں کے چراغ !!

دیوالی کے موقعے پر ایک نفیس و جدید و منفرد غیر مردف غزل

ساری دنیا کے اندھیروں کو مٹانے کے لۓ !!
" رام" !، ہم نے اپنے ہاتھوں سے جلاۓ ہیں چراغ !!

اس جہاں/ دشمنی/ زندگی کے گھپ اندھیرے میں اجالا ہے وفا/ ولا/ غزل !!
جس سے پاتا ہے کوئی گم گشتہ/ گم راہ، منزل کا سراغ !!

اب جہاں تک یہ ستم کی رات/ راہ چلتی جائے ہے !!
ہم، ستونِ دار پر رکھتے چلیں سر کے چراغ !!

" رام"/ " داس"/ " قیس" /" فیض" / " میر" جیسے" شاعرِفطرت"/شاعرِالفت" کے گھر میں، دیکھئے !!
حسن، چاہت، پھول، خوشبو،روشنی، غزلیں/ نظمیں/ دوہے، چراغ !!!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے