Ticker

6/recent/ticker-posts

ملت ساز جلسوں کو کس نے آفت انگیز بنایا | لاک ڈاون کے بعد یہ جلسہ مارکٹ ایک بار پھر سے چالو

ملت ساز جلسوں کو کس نے آفت انگیز بنایا؟

مشتاق نوری
دارالعوام حلیمیہ، ڈانگی بستی ،کشن گنج،بہار
رابطہ نمبر۔6202613656
آج کل جلسے جلوس کی محفل گرم کرنے کے لیے پیر حضرات اپنی ٹولی و ڈولی لے کر، نعت خواں حضرات تان سین والے ساز باز لے کر، مقررین خطابی گھنگرج کے شمع خراش طنبورے لے کر نکل پڑے ہیں۔ان لوگوں کی کمائی کا سیزن اوپن ہوچکا ہے۔لاک ڈاون کے بعد یہ جلسہ مارکٹ ایک بار پھر سے چالو ہوچکا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ائمہ و مدرسین کی تنخواہ مہینہ پر تو کجا، ڈیڑھ دو مہینے کے بعد ملنے کا محض بھروسہ جتایا جاتا ہے مگر پیر صاحب یا کسی مشہور بازاری خطیب کے لیے پہلے سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ مختص کر کے ان کی تاریخ کا انتظار کیا جاتا ہے۔اس قوم کی تباہی کے لیے اتنی سوچ ہی کافی ہے۔

بر سبیل تذکرہ! اسی۲۰ نومبر کو میرے گانوں سے۱۳؍کیلو میٹر دوری پر ایک بڑا جلسہ ہے۔جس میں ایک مشہور خطیب صاحب تشریف لا رہے ہیں۔اتفاق اسی تاریخ میں میری پہل پر میری بستی کے لڑکوں نے بھی جلسہ ٹھان لیا ہے۔اسی مذکورہ خطیب سے میں نے رابطہ کیا۔تو کہنے لگے ٹھیک ہے پہلی تقریر وہاں ہوگی۔آپ گاڑی لے کر پہنچ جائیں پھر دوسری تقریر آپ کے جلسے میں۔میں خوش گمان تھا کہ حضرت ایک ہی رات میں دو جلسے میں خطاب کریں گے تو مجھے کم نذرانہ چکانا پڑے گا۔مگر یہ گمان بس گمان ہی تھا۔میں نے سہمے لہجے میں نذرانہ پوچھ لیا تو ۲۲ ہزار سے شروع ہو کر اٹھارہ ہزار پہ گرہ لگا دیئے۔اتنے مول بھاؤ تو شاید سبزی کی دکان پر بھی نہیں ہوتے۔کہنے لگے کم نذرانے پہ پروگرام کرنے سے مارکٹ خراب ہوتا ہے۔پھر میں نے فون ڈسکنیکٹ کر دیا۔کیوں کہ ان کا نذرانہ میرے بجٹ سے بہت آگے کا تھا۔میں نے ان سے اپنے جلسے کی کریٹیکل سچوئیشن شیئر کی کہ حضرت گانوں کے لڑکے کرکٹ میچ کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے۔میری خاص ترغیب و توشیق پر جلسہ کے لیے تیار ہوۓ ہیں۔ورنہ وہ لوگ بھی یہی کہ رہے تھے کہ شاعر مقرر کی بڑی بڑی ڈیمانڈ ہم لوگ پوری نہیں کر پائیں گے۔میں نے یقین دلایا کہ کم سے کم نذرانے میں خطبا شعرا کو بلوا دیتا ہوں تب جاکر کرکٹ کو جلسے میں تبدیل کیا گیا ہے۔اتنی رودادِ درد و آزار سنانے کے باوجود شیخ جی نہ مانے۔اپنی متعینہ فیس پر اٹل رہے۔

مشتاق نوری  دارالعوام حلیمیہ، ڈانگی بستی ،کشن گنج،بہار

ابھی ایک صاحب ثروت کے ہاں ایک مہنگے پیر صاحب اپنی ٹولی و ڈولی کے ساتھ تشریف فرما تھے۔(یہ لوگ غریب مریدوں کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کے گھر بھی کبھی جایا جاۓ)کہا گیا کہ حضرت تریپورہ کے مسلمانوں کے لیے دعا فرما دیں۔عجب یہ کہ نہ انہیں تریپورہ کے سلگتے حالات کا علم تھا اور نہ ہی ان مسائل سے کوئی دلچسپی دکھی۔ دعا میں تریپورہ والوں کے لیے کوئی لفظ تک نہیں آیا۔پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ تم پیروں کے مخالف ہو۔تم فلاں پیر کے باغی ہو۔تم دشمن شیخ ہو۔تم یہ ہو تم وہ ہو۔ارے صاحبان! بتا تو دیں کہ کس بنیاد پر پیروں کے قصیدے پڑھوں؟کس اینگل سے ان کے ہاتھ کو غوث اعظم کا ہاتھ مانوں؟ کس اختصاص پر ان کے دامن کو نجات اخروی کا ضامن سمجھوں؟نیک، مخلص و باعمل شیوخ کی آج اشد ضرورت ہے۔ان کی قدر ان کا اکرام ملحوظ ہے۔اس پر کوئی حرف نہیں آ سکتا۔جو لوگ قوم و ملت کا درد رکھ کر ملی اصلاح کا کام کرتے ہیں، بندگان خدا کے قلوب و اذہان کے اندر روحانیت ڈالنے کے لیے واقعۃ حریص و محرض ہیں انہیں شیخ ہونا ہی چاہیے۔ان کی توقیر سدا سلامت رہے گی۔کوئی بھی ناقد ان کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ان کی پگڑی کے اقبال کے لیے زندہ باد و مبارک باد خاص رہے گا۔مگر قوم کے بھولے پن کا فائدہ اٹھانے والے جاہ طلب و زر اندوز لوگ بخشے بھی نہیں جائیں گے۔؀

ایک دو زخم نہیں، جسم ہے ساراچھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے