Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصان

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصان

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، بابائے تعلیم، الامین تعلیمی تحریک ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین میڈیکل کالج ، بیجا پور، الامین لا کالج اور الامین اسکول بنگلورو کے بانی وقائد ڈاکٹر ممتاز احمد خان تقریبا پچاسی سال اس دنیا میں گزار کر ۲۷؍ مئی ۲۰۲۱ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، انہوں نے زندگی کو پل پل جیا، اور سن شعور کے بعد پوری زندگی مسلمانوں کے اندر تعلیم کو عام کرنے، عصری تعلیم کو فروغ دینے میںلگادی اور الامین کا شہرہ ملک وبیرون میں پھیل گیا ، درازی عمر اور ضعف وناتوانی کی وجہ سے ادھر کچھ دنوں سے وہ الامین کے کاموں میں سر گرم حصہ داری نہیں نبھا رہے تھے، جس کا ان کو انتہائی افسوس تھا، زندگی بھر کام کرنے والا اگر کسی وجہ سے معذورسا ہو گیا ہو تو اس کی گھٹن اور اس کا کرب دیدنی ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی بھی یہی حالت تھی، چند ہفتوں سے ان کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی ، اچ بی ایس اسپتال میں علاج کے بعد دو تین دن قبل ہی وہ گھر لوٹے تھے، لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور قضا وقدر نے اپنا کام کر دیا۔ تدفین ان کی وصیت کے مطابق الامین رہائشی اسکول ہوسکوٹے کے احاطہ میں مسجد ممتاز سے قریب عمل میں آئی، بعد نماز جمعہ مسجد ممتاز سے متصل جنازہ کی نماز ادا کی گئی ۔

ڈاکٹر ممتاز احمد خان ۶؍ ستمبر ۱۹۳۵ء میں پونے مہاراشٹر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام یوسف اسماعیل خان اور ان کی والدہ کا نام سعادت النساء تھا، جنہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی ، والد لایر (وکیل) تھے، ان کی تعلیم بھی علی گڈھ میں ہی ہوئی تھی،انہوں نے پرائمری اسکول کی تعلیم آل سینٹ پرائمری اسکول تروچی راپلی تمل ناڈو اور ہائی اسکول کی تعلیم بشپ ہیبر ہائی اسکول پتورتروچراپلی تمل ناڈو اور پی یو سی کی تعلیم سینٹ جوزف کالج ترچی رابلی سے پائی،انہوں نے اسٹائلی میڈیکل کالج مدراس یونیورسٹی سے ۱۹۶۳ء میں ام بی بی اس اور اسٹائل کالج چنئی سے سر جری میں ام اس کیا تھا، انہوںنے شروع کے دو سال معالج کی حیثیت سے خدمت انجام دی، لیکن جلد ہی تعلیمی کاموں سے اس طرح جڑ گئے کہ ان کے لیے مریضوں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا، چنانچہ پورے طور پر انہوںنے اپنے کو الامین تعلیمی تحریک کے لیے وقف کر دیا ، ۱۹۶۶ء میں جب ان کی عمر صرف اکتیس سال تھی ، جنوبی ہند میں تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کے لیے الامین سوسائٹی قائم کیا، اس تحریک کے تحت ایک سو ستہتر سے زائد تعلیمی ادارے ملک بھر میں چل رہے ہیں، وہ صحافت کے میدان میں بھی انقلاب لانا چاہتے تھے، اس نقطۂ نظر سے انہوں نے سیاست حیدر آباد کو فروغ دیا اور اس کو ملک کے بڑے اخباروں میں لا کھڑا کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔

۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۴ء کو بنگلورکی محترمہ زریں تاج صاحبہ سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے لڑکی اور ایک لڑکا اللہ نے عطا کیا، سب کی اچھی تعلیم وتربیت ڈاکٹر صاحب نے کی اور وہ سب مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
 ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے پوری زندگی ہر سطح پر تعلیم کے فروغ میں لگادی ، وہ جنوبی ہند کے سر سید کہے جاتے تھے، انہیں کئی بار پارلیامنٹ کا ٹکٹ اور راجیہ سبھا کی رکنیت پیش کی گئی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا انہوں نے فرمایا کہ میں پورے ہندوستان میں کا م کرنا چاہتا ہوں، کسی خاص حلقہ میں محدود ہوجانا میرے لیے ممکن نہیں، یہ بڑے دل گردے کی بات تھی، اس کے قبل انہوں نے اچھی خاصی ملازمت سے استعفا دے دیا تھا، وہ تعلیم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے جنون میں مبتلا تھے، اور اس کام کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار تھے، وہ خالص اسلامی ذہن ودماغ رکھتے تھے، صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اور مسجد کے بلند وبالا مینار اور تقدس ان کے دل ودماغ میں اس قدر جا بستے تھے کہ انہوں نے رہائشی اسکول کے احاطہ میں اپنی آفس ایسی جگہ بنائی تھی ، جہاں سے مسجد ان کی نظر کے سامنے ہو، انہوں نے اپنے ذریعہ قائم تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول اور دینیات کی تعلیم کا معقول نظم کیا اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔

وہ ایک تعمیری ذہن کے مالک تھے، فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جب اپنی تلاش میں تھک جاتا ہے تو اللہ کی نصرت ومدد ضرور آتی ہے، اس لیے راستے کے نشیب وفراز کو دیکھنے کے بجائے ہمیشہ منزل پر نظر رکھنی چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کام کون کر رہا ہے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کام کیا ہو رہا ہے ، ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وسائل واسباب کی کمی سے کام نہیں رکتا، کام میں رکاوٹ صرف خلوص کی کمی سے آتی ہے، اس لیے کہ جہاں خلوص ہو وہاں فلوس (پیسہ) آہی جاتا ہے،ا س لیے خدا کے غیبی خزانے پر نگاہ رکھو اپنی جیب کی استطاعت نہ دیکھو ، یہ اور اس قسم کے دوسرے بہت سارے اقوال پر وہ خود بھی عمل کرتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہا کرتے تھے۔

میری ان سے بہت ملاقات اور شنا سائی نہیں تھی، صرف دو ملاقات تھی، جس میںگفتگو کم دیدن زیادہ ہوا تھا، پہلی ملاقات بنگلور ہی میں الامین میں ہوئی تھی ، میرا یہ سفر جامعہ دار السلام عمر آباد میں منعقد ہونے والے فقہی سمینار کے موقع سے تھا، تھوڑا وقت انہوں نے علمائ، فقہاء کے ساتھ گذارنے کی دعوت دی تھی، اور ہم لوگ بصد شوق وہاں حاضر ہو گیے تھے اور ان کے خیالات کو براہ راست سننے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ 

دوسری ملاقات پٹنہ میں ہوئی تھی ، غالبا یہ سفر ان کا تعلیمی کارواں کے ساتھ ہوا تھا، جس میں سید حامد، سلمان صدیقی، امان اللہ خان کے علی گڈھ کے ساتھ وہ بھی تشریف لائے تھے، پروگرام کرشن میموریل ہال میں تھا، اور بہت کامیاب رہا تھا ، اس ملاقات میں میرے لیے صرف مصافحہ کر لینا ممکن ہوا تھا، پھر ان کی تقریر نے دل ودماغ کے دروا زے پر دستک دی، اس دستک کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا تھا۔

ایسی با فیض شخصیت کا دنیا سے چلا جانا بڑا تعلیمی وملی نقصان ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمینیا رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے