Ticker

6/recent/ticker-posts

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی خصوصیات | نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی خصوصیات | نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی خصوصیات

نظیر اکبر آبادی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے شاعری کے جملہ محاسن کو پورے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسان اور اس کی معاشرت کو ہر رنگ میں اور ہر پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔کسی بھی دور کی شاعری ہو وہ معاشرے کے رسوم و روایات اور جذبات و خیالات کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نظیر اکبر آبادی کی شاعری اور خود نظیر نےبھی ہر قسم کے حرکات و سکنات سے بخوبی واقف ہو کر اس دنیا کے جملہ نشیب و فراز سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

نظیر اکبر آبادی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں

نظیر اکبر آبادی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔نظموں کی بنیاد پر ہی ان کو ہندوستانی، عوامی شاعر اور عوامیت اور جمہوریت کا آئینہ دار کہا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی نظموں کا موضوع ہندوستانی عوام اور اس کی معاشرت ہے۔ اگر نظیر کے متعلق یہ کہا جائے کہ پہلی مرتبہ انہوں نے ایسی شاعری کی بنیاد ڈالی جس میں اپنے ملک کے تصورات و مفروضات، اپنی روایات، اپنے اصول واسالیب غرضیکہ تمام معیار واقدار کو خالص ہندوستانی شکل و صورت میں پیش کیا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ امراء کی طرز رہائش، ان کی دلچسپیوں اور تفریحوں کے اسباب، متوسط طبقے کی طرز معاشرت، غربا کی عادات و اطوار، ہندوؤں اور مسلمانوں کے تہوار، خواتین کے رسم و رواج، خانگی زندگی کی کیفیت، میلوں ٹھیلوں کی رونقیں غرض معاشرت کے جتنے کوائف ہیں سب کا کچھ نہ کچھ ذکر ان کے یہاں موجود ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا موضوع

نظیر اکبر آبادی نے اپنا وائرہ موضوع کسی خاص فرقہ کی زندگی تک محدود نہیں رکھا ہے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی قدیم معاشرت کا ذکر کیا ہے بلکہ ہندوؤں کی معاشرت کا ذکر بھی یکساں طور پر بالکل ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ کیا ہے۔ ہندوؤں، مسلمانوں کے تہوار اور میلوں ٹھیلوں کی رونقیں انہوں نے جس بے ساختگی سے بیان کی ہیں اس کی مثال دوسرے شعراء کے یہاں نہیں ملتی۔ دیوالی، ہولی، بلدیو جی کا میلہ ،راکھی، عید، شب برات وغیرہ وغیرہ ان کی ایسی نظمیں ہیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے پورے رسم و روایات کی ہو بہو عکاسی کی گئی ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے رجحانات

’’معمور میں خوباں سے گلی کوچہ و بازار
اڑتا ہے عبیر اور کہیں پچکاری کی ہے مار‘‘

’’ چھایا ہے گلابوں کا ہر ایک جا پہ دھواں دھار
پڑتی ہے جدھر دیکھو ادھر رنگ کی بوچھاڑ‘‘

’’ہے رنگ چھڑکنے سے ہر ایک رنگ زمین پر
ہولی نے مچایا ہے عجیب رنگ زمین پر‘‘

نظیر اکبر آبادی شب برات کا نقشہ یوں بیان کرتے ہیں۔

’’ کیوں کر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چاپلک، چپاتی، حلوے سے ہے بھاری شب برات‘‘

’’ زندوں کی ہے زباں کی مزے داری شب برات
مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات
لگتی ہے سب کے دل کو غرض پیاری شب برات‘‘

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی اہمیت

نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں سب سے زیادہ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے کہیں ایسی صورت رونما نہیں ہونے دی جہاں عوام اور خواص میں ٹکراو یا کشمکش پیدا ہوتی ہو۔ ان کے اخلاق کا سب سے زیادہ روشن پہلو یہی ہے۔ اگر وہ اسلامی معاشرت کے کسی گوشے پر روشنی ڈالتے ہیں تو دوسری جانب ہندو معاشرت کے کسی صیغہ کا ذکر بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نظیر نے اپنی شاعری میں ہندو مسلم جذبات کا ایسا توازن قائم رکھا ہے جس کے متعلق کوئی بھی حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لا سکتا ہے۔

نظیر اکبر آبادی ایک مرقعہ نگار تھے

نظیر اکبر آبادی ایک مرقعہ نگار تھے اور ان کے مرقعے ان کی نظموں کی شکل میں کہیں تاج گنج اور آ گرے کی تیراکی کی سیر کراتے ہیں۔ کہیں طفلی، جوانی، بڑھاپا اور مفلسی کے نقوش ابھارتے ہیں۔ کہیں کلک دنیا دھوکے کی مٹی اور بے ثباتی دنیا جیسی نظموں میں اقدار حیات کو ہو بہو پیش کر کے اکثر نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کلجگ کا یہ بند :

’’ نیکی کا بدلہ نیک ہے بد کر بدی کا ساتھ لے
کانٹا لگا کانٹا پھلیں، پھل پات ہو پھل پات ملے‘‘
’’ کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘‘


مفلسی کا بیان وہ اس انداز میں کرتے ہیں

’’جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں
مفلس ہوۓ تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں‘‘

’’ پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں‘‘
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے ۔ مفلسی

نظیر اکبر آبادی کی شاعری واقعیت کی دنیا

نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظموں میں تخیل کی دنیا آباد کرنے کے بجاۓ واقعیت سے کام لیا ہے اور گرد و پیش کے ماحول سے موضوعات حاصل کئے ہیں۔ ان کی یہی خصوصیت ہمیں دنیا کی بالکل چھوٹی اور معمولی چیزوں سے بھی لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ گویا نظیر پورے طور پر زندگی کے شاعر ہیں اور ہر چیز کی معاشرتی اہمیت انہیں خاص طور پر متاثر کرتی ہے۔


نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی زبان

نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں جو زبان استعمال کی ہے۔ وہ اکبر آباد کی خالص قدیم زبان ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کی زبان کو اس قدر وسیع کر لیا تھا کہ انہیں الفاظ کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں تین قسم کی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ادبی زبان میں انہوں نے زیادہ تر عربی، فارسی کے مانوس الفاظ استعمال گئے ہیں، جبکہ روزمرہ میں انہوں نے ہندی کے الفاظ دل کھول کر استعمال کئے ہیں، بازاری قسم کی زبان انہوں نے میلے ٹھیلے کے بیان میں استعمال کی ہے جو حقیقتاً عوام ایسے موقع پر بولتے ہیں۔

یقینا نظیر اکبر آبادی کی شاعری موضوع، اسلوب، زبان اور ہر لحاظ سے جمہوری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شاعری کو عوام کی زندگی کی چیز سمجھتے تھے۔ نظیر اکبر آبادی نے اردو شاعری کو ایک نیا مزاج اور نیا معیار دیا ہے وہ اردو شاعری کے لیے بیش بہا سرمایہ ہے۔


نظیر اکبر آبادی کی شاعرانہ خصوصیات

نظیر اکبر آبادی کا شمار شاعرانہ خصوصیات کے لحاظ سے مشہور و معروف شاعروں میں کیا جاتا ہے ۔ ان کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کی عام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں کامیاب و کامران بھی ہوے۔ اردو شاعری میں نظیر پہلے شاعر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے نظمیں لکھیں۔ مناظر فطرت اور سماجی زندگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کر کے اپنی نظموں میں پیش کیا ۔ شب برات، ہولی، دیوالی، برسات، طفلی، جوانی، بڑھاپا اور اس عہد کے جملہ تفریحات مثلا پتنگ بازی، کبوتر بازی، کبڈی، شطر نج وغیرہ کھیل تماشوں سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے انہوں نے عام موضوعات پر عام زبان میں شعر کہا اور اسکا فائدہ نسبتا کم پڑھے لکھے لوگوں کو پہنچایا۔ اس میں سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت پیدا کی ۔ نظیر نے اپنی نظموں کے ذریعے خیالات، الفاظ اور اسالیب کا منفرد انداز پیش کیا اور سادگی کی بے مثال روایت قائم کی۔

نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری

نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ زندگی کے ہر رخ کو نہایت صداقت کے ساتھ اور واقعیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مفلسی، برسات کی بہار میں، دیوالی، آدمی نامه، بنجاره نامه وغیرہ نظموں میں نظیر اکبر آبادی کی حقیقت نگاری اور واقعیت کے بہت ہی کامیاب نمونے ملتے ہیں۔

’’خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
دنیامیں لے کے شاہ سے اے یار تا فقیر‘‘

’’اسراف تو بناتی ہے اک آن میں حقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیر‘‘
’’وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی‘‘

نظیر کا سب سے زیادہ رچا ہوارنگ ان کے قلندرانہ طرز اظہار میں نظر آتا ہے۔ ان کی نظمیں بے خبری کا عالم، کوڑی نہ رکھ کفن کو اور ہر حال میں خوش ان کی اصلی شخصیت کو نمایاں کرتی ہیں۔ پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں نظیر اکبر آبادی کا فن ادب اور زندگی ہم آہنگ ہے، انہوں نے اپنی نظموں میں سماجی، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کا بھر پور احاطہ کیا ہے۔ ان کی شاعری میں ہندی، ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حد درجہ نمایاں ہیں اور ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاؤ نے انہیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا اور اسی بنا پر کلیم الدین احمد نے ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ " نظیر اکبر آبادی آسمان شاعری کا درخشندہ ستارہ ہیں۔


نظیر اکبر آبادی کی شاعری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے