ایک عہد ساز شخصیت! حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علی : انوار الحق ربانی دھنبادی
ایک عہد ساز شخصیت!
از :انوار الحق ربانی دھنبادی
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جامع کمالات اور متعدد امتیازات کے مالک تھے، وہ بیک وقت ایک دور اندیش ماہر تعلیم، اعلی درجے کے مفکرو مدبر، دقیقہ رس نقاد، زندگی کے حقائق پر مضبوط گرفت رکھنے والے نکتہ سنج ادیب، تجربہ کار و بابصیرت اور خداترس و خدا رسیدہ عالم دین تھے، نرم خو، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو آپ کی شخصیت کی پہچان تھی۔
آپ کی پیدائش
آپ نے 24 نومبر 1914ء کو تکیہ کلاں رائے بریلی میں آنکھیں کھولیں،ابتدائی تعلیم اپنے شہر عزیز رائے بریلی میں حاصل کی اعلی تعلیم کی غرض سے مشہور و معروف علمی و دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا کوچ کیا اور وہاں یگانۂ زمانہ اور نابغہ روزگار شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، 1927ء میں ندوۃ سے عربی ادب میں فضیلت کی تکمیل کی، بعدہ چند سالوں تک اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے، 1934ء میں بحیثیت استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ان کا تقرر ہوا جس کے زیر اثر تشنگان علوم دینیہ اکتساب فیض کرنے کے لیے چہار جانب سے چل پڑے، 1980ء میں خدمت دین کی خاطر آپ کو عالمی ایوارڈ" فیصل ایوارڈ" سے نوازا گیا۔
تدریسی مصروفیات
تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری وساری رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک لائبریری تیار کر دی،آپ کی تحریر جامع، پر مغز، پرکشش ہوتی تھی، آپ کی تصانیف میں زبان و بیان کی پختگی، مطالعہ کی وسعت، موضوع کی جامعیت، مضامین کی ندرت، مواد کی فراوانی، اسلوب کی دلکشی و دلپذیری کے ساتھ ساتھ مکمل وضاحت پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہوتی، آپ کی زیادہ تر تحریروں کا موضوع ہی یہی تھا کہ مسلمانوں کی عزت و عظمت کا روشن چاند شکست و زوال کے بادلوں میں کیسے روپوش ہوگیا ؟اسلامی تہذیب و تمدن کا بیڑہ کیوں کر غرق ہوا؟
روشن و تابناک ستارہ روپوش ہوگیا
بالآخر یہ روشن و تابناک ستارہ اپنی حیات مستعار گزار کر بروز جمعہ 31 دسمبر 1999ء کو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا۔
یہ حالت ہوگئی ہے ایک ساقی کے نہ ہونے سے
کہ خم کے خم بھرے ہیں مے سے اور میخانہ خالی ہے
0 تبصرے