Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک نظم سانحۂ سیالکوٹ بنامِ مذہب : حسیں عقائد کے شنگ چہروں پہ داغ ملنے

ایک نظم سانحۂ سیالکوٹ بنامِ مذہب : حسیں عقائد کے شنگ چہروں پہ داغ ملنے

ایک نظم
سانحۂ سیالکوٹ
بنامِ مذہب
حسیں عقائد کے شنگ چہروں پہ داغ ملنے
کا وجد طاری ہے کلمہ گو پر
فروغِ امن و اماں کا پرچم
اٹھانے والوں نے بربریت کی تلخیوں سے
فضا کو مسموم کر دیا ہے
وجودِ انساں کی پاکبازی کو بے تحاشہ لہو بہا کر
لہو سے معدوم کر دیا ہے
ہمیں سکھایا گیا تھا اسلام آشتی کا پیام بر ہے
سلامتی کے صبیح وعدوں کی اک سحر ہے
ہمیں بتایا گیا تھا اسلام آدمیت کو آدمی کا کمال گردانتا ہے لیکن !
میں دیکھتا ہوں
بنامِ اسلام آشتی کا لباس اوڑھے ہوئے مسلماں
سلامتی کا شعور پامال کر رہے ہیں
کبھی گراتے ہیں گھر کسی کا
کبھی جلاتے ہیں در کسی کا
کبھی رسن سے کسی گلے کو نڈھال کر کے
نظامِ بیعت سنبھالتے ہیں
تعصبانہ غلیظ الفاظ سے کسی پر
قبیح فتوے اچھالتے ہیں
کبھی کسی قبر کو کدالوں سے روندنے کا ہنر سکھاتے ہیں آدمی کو
کبھی کسی مقبرے کو مٹی کا ڈھیر کر کے
خراج دیتے ہیں بندگی کو
کہیں پہ پردیس کاٹتے بے وطن کی سانسوں کو روکنے کا چلن عجب ہے
کسی مسافر سے زندگی چھین کر بے ملال پھرنے کا فن عجب ہے
میں سوچتا ہوں مرے پیمبرؐ !
یہ تیری ناموس کے سپاہی
یہ تیری حرمت کے سب محافظ
ترے بتائے ہوئے سلیقوں سے اجنبی ہیں
یہ تیرے پیغام کو تماشا بنا رہے ہیں
یہ تیرے اسلام کا تقدس گنوا رہے ہیں
مجھے یقیں مرے پیمبرؐ !
کہ تیرا پیغام معتبر ہے
کہ تیرا اسلام معتبر ہے
حیدر عباس
saniha-e-siyalkot-urdu-poetry-nazam


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے