Ticker

6/recent/ticker-posts

آج سیاست کا معیار اور مریادہ کتنا گر چکا ہے

آج سیاست کا معیار اور مریادہ کتنا گر چکا ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

بھارت (ہندوستان) دنیا کا سب سے عظیم جمہوری ملک ہے، یہاں کی جمہوریت، سیکولرزم اور ڈیموکریسی کی دنیا میں مثال دی جاتی ہے، یہاں کے لوگوں کی آپسی بھائی چارہ، میل میلاپ، رواداری، وسعت ظرفی، وسعت قلبی اور فراخ دلی کی دنیا میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں، یہاں کی مذہبی رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی لوگ مثالیں دیتے ہیں۔لیکن آج ہندوستان بہت بدل چکا ہے، یہاں کی پرمپرہ، روایات، اور تہذیبی وراثت ختم ہوتی ہوتی جا رہی ہے، اور یہاں کی جمہوریت اب برائے نام جمہوریت رہ گئی ہے، عزت، احترام، شرافت، مروت، انسانیت، مانوتا، اعلی اخلاق و کردار اور وسعت ظرفی و فراخ دلی کی جگہ نے بے مروتی، تنگ نظری، مفاد پرستی، بے غیرتی اور خود غرضی نے لے لی ہے، اعلی اخلاق و کردار، عدل و انصاف، صبر و تحمل، اعلی ظرفی، انسانیت و شرافت، ایثار و خوداری ان اعلی اوصاف کا تو جنازہ نکل چکا ہے۔ کچھ دنوں پہلے مدھیہ پردیش کے ڈرامہ نے سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی خود غرضی مفاد پرستی حرص و طمع اور عہدہ پر فائز رہنے اور کسی طرح بھی اقتدار ملے کی خواہش نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب یہ ملک اپنی پستی، گراوٹ اور زوال کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اس وقت مدھیہ پردیش کے گھٹنہ اور ہندوستان کی بدلتی جمہوریت پر بڑا اچھا تجزیہ کیا تھا۔ کہ ہندوستانی جمہوریت کی حقیقت مدھیہ پردیش میں اچھی طرح دیکھی جاسکتی ہے۔ جس طرح مرغیاں پنجرے میں رکھی جاتی ہیں اسی طرح عوامی نمائندے ایم ایل اے قید میں رکھے گئے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے ذریعہ منتخب لوگوں کی نیلامی کی بولیاں لگ رہی ہیں، جو پارٹی زیادہ قیمت اور عہدے دے سکے گی وہ آئی پی ایل کی کھلاڑیوں کی طرح بدھایکوں کو خرید کر سرکار بنا سکے گی۔

آج سیاست اور سیاست دانوں کا معیار اور کوالٹی اتنی گر چکی ہے

ہمارے لیڈران اور نیتا گن سیاسی وفاداریاں کرسی، عہدے اور پیسے کے لالچ اور حرص میں اس طرح بدل رہے ہیں کہ گرگٹ کو بھی اپنی حرکت پر شرم آنے لگے، پھر دوسری پارٹی جوائن کرنے کے بعد پچھلی پارٹی کے، اور اس کے نیتا گن اور پارٹی کے بارے میں جو لہجہ اور زبان استعمال کرتے ہیں اور جس پارٹی کو اس نے خیر آباد کہا ہے اس کے نیتا گن وفاداری بدلنے والے کے لئے جو بھاشا اور شبد استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی پست ذھنی، گھٹیا پن سطحیت اور نیچتا کی مثال ہوتی ہے۔ اس ہندوستان میں بعض سیاست داں کو تو وفا داری بدلنے کی یہ حرکت وراثت میں ملی ہے۔ جب کے بعض نیتا ہندوستان میں اتنے شاطر مفاد پرست، ابن الوقت، خود غرض اور عہدے کے اتنے حریص ہیں کہ بس ان کو اقتدار عہدہ، وزارت، منصب، اور کرسی ملے چاہے ضمیر کا سودا کرنا پڑے، چاہے عزت و وقار اور مروت و شرافت اور غیرت و خوداری کو بھینٹ چڑھانا پڑے۔ آج بہت سے لیڈر اور نیتا اس ہندوستان میں ہیں کوئی بھی وزیراعظم بنے، کسی پارٹی کی حکومت ہو وہ اس سے قربت بنا لیتے ہیں، راہ و رسم اور تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور کرسی و عہدہ و منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ لوگوں کی نظر میں آج بے حیثیت اور بے وقعت ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کمال عیاری اور دوسری مضبوط پاڑی کی پناہ اور آڑ لے کر وہ ہمیشہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر جن کی اکثریت ہوتی ہے، اس سے چپک جاتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ڈکشنری اور لغت میں غیرت، حمیت، عزت، خودی، خوداری، مروت، مریادہ اور شرافت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ آج سیاست اور سیاست دانوں کا معیار اور کوالٹی اتنی گر چکی ہے، کہ اس کی مثال ماضی میں بہت کم ملتی ہے۔ پہلے بھی سیاست میں لیڈروں اور نیتاوں نے وفاداریاں بدلیں ہیں، لیکن ان کے یہاں اصول اور فکر و نظریات کی بنیاد پر یہ تبدیلیاں ہوئیں، آپس میں محبت خلوص وفاداری اور پیار تعلق قائم رہتا تھا، قومی مسئلہ اور ملکی مفاد میں سب متحد ہوجاتے، ذاتی تعلقات قائم رہتے ایک دوسرے کی عزت و احترام اور قدر و منزلت باقی رہتی، اصولوں پر بہت کم آنچ آنے دیتے، خارجہ پالیسی میں یکسانیت ہوتی، ملکی مفاد کو اس میں دیکھا جاتا، مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی کوشش کی جاتی، اسی ملک میں آج سے بیس سالے پہلے فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کی جاتی تھی اور اسرائیل کے ظلم و بربریت پر سفارتی سطح پر تنقید کی جاتی تھی، آج اسرائیل کا یہ ملک بہت بڑا حمایتی اور پشت پناہ ہے۔

پہلے کے سیاسی لیڈران میں جو خوبیاں اور اچھائیاں تھیں

پہلے کے سیاسی لیڈران میں جو خوبیاں اور اچھائیاں تھیں، اب کے لیڈروں اور نیتاوں میں یہ چیزیں عنقا ہو رہی ہیں۔ 
 ہم یہاں ہندوستان کے ایک سابق وزیراعظم مانیہ چند شیکھر جی اور محترمہ سچیتا کرپلانی جی سابق وزیر اعلیٰ اتر پردیش کا ایک واقعہ پیش کرتے ہیں، جس کو بہت دنوں پہلے میں نے پڑھا تھا، کہ جب چندر شیکھر جی نے بعض اصولوں اور سدھانتوں کی وجہ سے کانگریس کو چھوڑا، تو اس وقت یوپی کی وزیر اعلی سچیتا کرپلانی تھیں، جو یوپی کی پہلی خاتون وزیر اعلی تھیں۔ اس موقع پر نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے اور آگے کی رڑ نیتی اور لائحہ عمل طے کرنے کے لئے اپنے ہم خیال لوگوں کو لیکر، جس میں بہت سے کانگریس سے کٹ کر آئے نیتا گن تھے، لکھنئو میں ایک بہت بڑی ریلی کا آیوجن کیا، اس کی تاریخ طے کی، جگہ کے لئے بیگم حضرت محل پارک کا انتخاب کیا اور یوپی اور پڑوسی ریاستوں سے ہزاروں لوگوں کے آنے کے لیے محنت کی، متعینہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا دوسرے دن کامیاب ریلی ہوئی، ہزاروں کا مجمع تھا، چار بجے جب ریلی ختم ہوئی تو لوگوں کی بھوک سے بری حالت تھی، دکانیں بھی نہیں تھیں جو کچھ ساتھ لائے تھے وہ ختم ہو چکا تھا۔ کرپلانی جی کو پہلے ہی سے اس کا احساس و خیال تھا، ریلی کے اختتام پر کرپلانی جی نے چندر شیکھر جی کو اس کامیاب ریلی اور بھیڑ کے اکھٹا کرنے پر مبارک باد دی، اور یہ پوچھا کہ چندر شیکھر جی! کانگریس چھوڑ کر آپ نے اتنی بڑی ریلی کرلی اور اس قدر لوگوں کو اکھٹا کر لیا، لیکن کیا آپ نے ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا ہے؟۔ چندر شیکھر جی نے کہا ہم لوگ تو مہمان ہیں آپ میزبان ہیں، یہ ذمہ داری تو آپ کی بنتی ہے۔ کرپلانی جی نے کہا بیشک۔ ہم نے کل ہی سے اس کا انتظام سوچ لیا تھا، آپ اعلان کرا دیں کہ سارے لوگ رکے رہیں اور جل پان کرکے ہی جائیں، ہم نے پوری سبزی کے پیکٹ ہزاروں کی تعداد میں بنوا دئے ہیں بس یہ پیکٹس پہنچنے ہی والے ہیں۔ یہ ہے ہندوستان کی سچی تہذیب و روایت، جمہوریت اور سیکولرزم کی اعلی مثال اور فراخ دلی اور کشادہ قلبی اور انسانیت اور مانوتا کی بہترین آئڈیل۔ ہندوستان کے آج کے نیتاوں اور لیڈران کو اپنے پیش رووں کو اپنا نمونہ بنانا چاہیے اور ان کی زندگیوں کو اپنے لئے آئیڈیل سمجھنا چاہیے۔ ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے