Ticker

6/recent/ticker-posts

یوم جمہوریہ : پس منظر اور موجودہ فاشزم

یوم جمہوریہ : پس منظر اور موجودہ فاشزم

مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک 15اگست جسمیں ملک انگریزوں کے جنگل سے آزاد ہوا۔ دوسرا 26 جنوری جسمیں ملک جمہوری ہوا۔ یعنی ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون نافذ ہوا۔ اپنا قانون بنانے کیلئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29اگست 1947کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کو ملک کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں دو سال 11مہینہ 18دن لگے، دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نۓ دستور کی ہر شق پر کھل کر بحث ہوئی، پھر 26نومبر 1949کو قبول کر لیا گیا، اور 26جنوری 1950 کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نۓ دستور پر دستخط کیا، البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستور کے ڈرافٹ پر ایک مختصر نوٹ لکھا کہ۔ یہ دستور برطانوی دستور ہی کا اجراء و توسیع ہے، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ بہر حال 26جنوری 1950 کو اس نۓ قانون کو نافذ کردیا گیا، اور پہلا یوم جمہوریہ منایا گیا، اس طرح ہر سال 26 جنوری " جشن جمہوریت۔ یوم جمہوریت کے عنوان سے منایا جانے لگا، 15 اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کا قومی اور یاد گار دن بن گئ، یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس روز جشن کیوں مناتے ہیں؟ تو سمجھ لینا چاہیے کہ بہار اور جشن کا یہ دن ایک دو انگلی کٹا کر نہیں ملا، ایک دو سال احتجاج کرکے نہیں ملا، اگر 1852 کی بغاوت سے تاریخ کا حساب کریں تب بھی 1947تک نوے سال بنتے ہیں۔


یہ سچ ہے کہ 18ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں کو عروج ملا، مگر انگریزوں کا پہلا جہاز دور جہانگیری میں ہی آچکا تھا، اس حساب سے ہندوستان جنت نشان سے انگریزوں کا انخلا 47میں 346 سال بعد ہوا اس دوران ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی جس کا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لت پت ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب کی بقا کیلئے بے خطر آتش افرنگ میں کودنے والوں میں مسلمان ہی صف اول میں تھے، آزادی میں مسلمانوں کی قربانی الگ کردیں تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوگا اور تاریخ ہند کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

ملک کا دستور کیسا ہو؟ مذہبی ہو یا لا مذہبی؟

آزادی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹھا کہ ملک کا دستور کیسا ہو؟ مذہبی ہو یا لا مذہبی؟ اقلیت و اکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کۓ جائیں؟

جمہوری نظام نافذ کرنے میں جمعیت علماء کا کردار بھی نا قابل فراموش ہے

آزادی کے بعد ملک میں جمہوری نظام نافذ کرنے میں جمعیت علماء کا کردار بھی نا قابل فراموش ہے، جمعیت علماء کے ناظم مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی اقلیتوں کو مراعات دلانے میں نمایاں حصہ لیا، چنانچہ آئین کے ابتدائی حصہ میں صاف صاف یہ لکھا گیا کہ
ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جسمیں تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادی عقیدہ و مذہب و عبادات انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائیگا، اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔

ہندوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے

ہندوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و نظریات، تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں، اوریہی تنوع و رنگا رنگی یہاں کی پہچان ہے، 26 جنوری کو آسی مساوی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذہب کے باوجود باہمی یک جہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کیلئے جشن جمہوریت و یوم جمہوریت منا کر شہداء ملک اور آئین کے مرتبیں کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے، لیکن جشن جمہوریت کی یہ بہار یونہی نہیں آئی ہندوستان میں جمہوری نظام لانے اور انگریزی تسلط ختم کرنے کی جد وجہد بڑی طویل ہے، آزادی کا یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا جس کا احاطہ یہاں ممکن نہیں، المختصر وطن عزیز کو آزاد کرنے میں زبردست قربانیاں پیش کی گئی اور ظلم و بر بریت کی ایک داستان لکھی گئی، جس کا ہر صفحہ ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے خون سے لت پت ہے۔

ہمارے ملک پر فاشزم کا حملہ ہو گیا ہے

لیکن اس وقت ہمارے ملک پر فاشزم کا حملہ ہو گیا ہے، جس سے ملک کا پورا نظام تہس نہس ہو گیا ہے، ہر طرف بد آمنی پھیلتی جارہی ہے، اس فاشزم طاقت کو یہاں کا میل جول ہندو مسلم اتحاد بالکل پسند نہیں چند فرقہ پرست عناصر ہیں جنہیں ملک کی یکتائی اور اس کا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں، وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے یا ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے بے تاب ہے، بڑے تعجب کی بات ہے کہ جس کا جنگ آزادی میں کوی رول نہیں ملک کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں بلکہ ان کے سروں پر گاندھی کا خون ہے، جس کی پیشانی پر مذہبی تقدس کو پامال کرنے کا کلنک ہو اور جس کے سروں پر ہزاروں فسادات لاکھوں کا قتل اور اربوں کھربوں تباہی کا قومی گناہ ہو اس کے نظریات کی تائید کیسے کی جاسکتی؟ اور کیا ایسے لوگوں کو اقتدار ہاتھ میں دیکر ملک کی خوبصورت جمہوریت کی بقاء کی توقع کی جا سکتی ہے، ؟ اس وقت ملک ایک تلخ تجزیہ سے گزر رہا ہے، ملک بھر میں حتی کہ مدرسوں میں میں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ جشن جمہوریہ منایا جاۓگا۔

اے کاش آئین کے تحفظ و بقا کی قسمیں کھائ جاتی نفرت بھرے ماحول کو امن میں تبدیل کرنے کی بات کی جاتی، مساویات کو یقینی بنایا جاتا، ملک کو دشمن عناصر اور فکر کو پابند سلاسل کیا جاتا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے