Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو غزل اردو شاعری : ہم نے عادت پرانی بُری چھوڑ دی ۔ کلام عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری : ہم نے عادت پرانی بُری چھوڑ دی ۔ کلام عجیب ساجد

ہم نے عادت پرانی بُری چھوڑ دی
ہم نے کل رات بوتل بھری چھوڑ دی

آج سے میکدے ہم نہیں جائیں گے
آج سے ہم نے بھی مے کشی چھوڑ دی

ایک غم تھا مِرے پاس جینے کا حل
اُس کی خاطر وہ حل وہ خوشی چھوڑ دی

دوستوں کے بچھڑنے پہ غمگیں تھا جو
ایک دن اُس نے بھی دوستی چھوڑ دی

اُس کی زلُفوں کا سایہ میسر نہ تھا
اِس لیے میں نے بھی شاعری چھوڑ دی

اُس نے مجھ کو کہا زندگی ایک دن
ایک دن اُس نے پھر زندگی چھوڑ دی

یاد کرنا اُسے میری عادت میں تھا
پھر ستم دیکھ عادت جو تھی چھوڑ دی

اُس نے آنکھوں سے ایسا اشارہ کیا
سامنے مے لپکتی ہوئی چھوڑ دی

وہ ملا تو اُداسی سے رشتہ گیا
اُنسیت اُس سے اچھی بھلی چھوڑ دی

شیخ نے مجھ سے پوچھا کہ پی ہے شراب؟
میں نے سچ سچ کہا ہے ابھی چھوڑ دی

وہ گیا جب تو جینے سے یوں دل بھرا
زندگی سامنے تھی پڑی چھوڑ دی

چائے پر جب بلایا ہے اُس نے ہمیں
ہم نے سگریٹ بھی جلتی ہوئی چھوڑ دی

عقل چلتی بنی عشق جب ہو چکا
آج سے دل لگی وِل لگی چھوڑ دی
کلام عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری : کبھی اپنے برابر دیکھتی ھے

کبھی اپنے برابر دیکھتی ھے
کبھی اپنے سے کمتر دیکھتی ھے

قدر ہوتی نہیں حاصل کی اُس کو
بہت چیزیں گنوا کر دیکھتی ھے

مجھے وہ چھوڑ کر اب ہر جگہ پہ
مرے جیسا وہ اکثر دیکھتی ھے

کہیں میری کمی اُس کو ستائے
تو وہ پھولوں کو ہنس کر دیکھتی ھے

کسی کی منتظر رہتی ہے وہ بھی
گلی میں اب بھی جاکر دیکھتی ہے

کہیں میں چین سے سویا نہ ہوں اب
مرے خوابوں میں آکر دیکھتی ہے

کہیں میں اس کے دل میں رہ نہ جاوں
مجھے اکثر بھلا کر دیکھتی ہے

محبت وہ نہیں کرتی کسی سے
سُنا ہے دل لگا کر دیکھتی ہے
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :حسن، دولت، شباب مانگے گی

حسن، دولت، شباب مانگے گی
زندگی جب حساب مانگے گی

آنکھ پہلے نکال لے گی پھر
بعد اِس کے وہ خواب مانگے گی

جو خزاؤں کی خیر چاہتی ہے
مجھ سے تازہ گلاب مانگے گی

بات چھیڑے گی چند بوندوں سے
پھر وہ جہلم چناب مانگے گی

مجھکو اب پھول رکھ ہی دینا ہے
جب وہ مجھ سے کتاب مانگے گی

تلخیاں وہ جہان کی دے کر
مجھ سے اِنکے جواب مانگے گی

پھول تو پھول ہیں وہ خار عجیب!
مجھ سے واپس جناب مانگے گی
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری : درد سے کب نجات ہوتی ہے

درد سے کب نجات ہوتی ہے
کتنی مشکل حیات ہوتی ہے

لوگ پھر پُر سکون سوتے ہیں
جب بھی گاوں میں رات ہوتی ہے

اب شجر میرا غم! سمجھتے ہیں
بات سُنتے ہیں بات ہوتی ہے

عشق ہی اوڑھنا بچھونا ہے
عشق ہی اپنی ذات ہوتی ہے

کوئی بھی خود سے لکھ نہیں سکتا
وہ جو چاہیں تو نعت ہوتی ہے
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :میں جانتا ہوں کہ اب ضرورت پڑی ہے تجھ کو

میں جانتا ہوں کہ اب ضرورت پڑی ہے تجھ کو
اِسی لیے تو یہ پھر محبت ہوئی ہے تجھ کو

سنوارنے والے تیری زلفیں بتا رہے تھے
بتا رہے تھے ستائے کوئی کمی ہے تجھ کو

مجھے بتاتے تھے لوگ آ کر جو تیرے بارے
کہ اب مکمل وہ بھول شاید گئی ہے تجھ کو

سُنا ہے تو نے یہ سرد راتیں گزار لی ہیں
سُنا ہے پھر بھی مرِی کمی تو رہی ہے تجھ کو

وفا کہ تیری سرشت میں جب لکھی نہیں ہے
سو مسئلہ مجھکو لگ رہا ہے وہی ہے تجھ کو

مِری طرح کا وہ تیری سانسوں میں چل رہا ہے
نئی محبت بتانا کیسی لگی ہے تجھ کو

تو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے عجیب ساجد
بتا اگر کوئی بات میں نے کہی ہے تجھ کو
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری : تو دِھیرے دِھیرے دل سے اب اُترتا جا رہا ہے

تو دِھیرے دِھیرے دل سے اب اُترتا جا رہا ہے
جدائی کا تِری اب زخم بھرتا جا رہا ہے

کوئی امید تیرے لوٹ آنے کی نہیں ہے
دسمبر کا مہینہ بھی گزرتا جارہا ہے

میں شاید دو قدم آگے ہی تیرے ساتھ جاؤں
تو وعدوں اور قسموں سے مکرتا جا رہا ہے

یوں لگتا ہے تِری قربت کا سارا کھیل ہے یہ
تِری زلفوں کے جیسا دل سنورتا جا رہا ہے

بنا مطلب کے کوئی بات جو کرتا نہیں ہے
مجھے لگتا ہے اب تو بھی سدھرتا جا رہا ہے

اُسے غم راس آۓ ہیں مکمل ہو گیا ہے
بچھڑ کے تجھ سے اب کوئی نکھرتا جا رہا ہے

سمیٹو آ کے بانہوں میں جو باقی رہ گیا ہے
تِرا ساجد تِرا شاعر بکھرتا جا رہا ہے
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری : تم سے ملنے کی بھی تدبیر نہیں ہوتی ہے

تم سے ملنے کی بھی تدبیر نہیں ہوتی ہے
ہم سے اب اور بھی تاخیر نہیں ہوتی ہے

چاک دامن میں ہی کٹ جاتی ہیں عمریں ان کی
عشق والوں کی تو جاگیر نہیں ہوتی ہے

وہ فقط آنکھ سے ہی زیر کیا کرتا ہے
اُس کے ہاتھوں میں تو شمشیر نہیں ہوتی ہے

کیسے اپنا میں تمہیں حال بتاوں خط میں
دل کی حالت کبھی تحریر نہیں ہوتی ہے

اس کی باتیں تو بھلی اب بھی ہوں شاید لیکن
اِن میں پہلے سی وہ تاثیر نہیں ہوتی ہے

عمر کی قید تو کٹ جاتی ہے اک وعدے پر
پیار میں کوئی بھی زنجیر نہیں ہوتی ہے

دیکھ سکتا ہوں تجھے بات نہیں کر سکتا
تیرے جیسی تری تصویر نہیں ہوتی ہے

کیسے بدلا ہے حکومت میں وہ جا کر حاکم
اُس کی پہلے سی وہ تقریر نہیں ہوتی ہے

عشق والوں سے الجھتی ہے یوں دنیا جیسے
ان کی تو کوئی بھی توقیر نہیں ہوتی ہے

ہم نے دنیا میں عجیب ایسے بہت دیکھے ہیں
جن کے ہاتھوں میں بھی تقدیر نہیں ہوتی ہے
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :نہ اسکے ساتھ وقتِ صبح سے، شب تک چلا جائے

نہ اسکے ساتھ وقتِ صبح سے، شب تک چلا جائے
لٹیرا ہو اگر حاکم تو پھر، کب تک چلا جائے

اٹھا کے ہاتھ پر سورج روایت کو بدل ڈالیں
کریں پیچھا اندھیروں کا چلیں جب تک چلا جائے

سرور و کیف و مستی زندگی کا نام ہے پیارے
صراحی ہاتھ میں ساغر ہے اور، لب تک چلا جاۓ

کبھی تم روٹھ جاتی ہو کبھی پھر خود مناتی ہو
بتا دو اب تمھارے ساتھ یوں، کب تک چلا جاۓ

کسی کو ایک دے گالی تو یہ بھی عین مکمن ہے
جواباً پھر وہ غصہ میں ترے، سب تک چلا جاۓ

ابھی میں تھک چکا ہوں سانس لینے دے ذرا مجھ کو
مسلسل ساتھ تیرے زندگی، کب تک چلا جائے

ستائیں سوچ کر مفلس کو ہر اک ظلم سے پہلے
کہیں فریاد لیکر یوں نہ ہو، رب تک چلا جائے
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری : وہ کرے گا کچھ نیا میں نہیں یہ مانتا

وہ کرے گا کچھ نیا میں نہیں یہ مانتا
یعنی کہ تجھ سے وفا میں نہیں یہ مانتا

جو مجھے دیکھے نہیں جو مجھے سُن پاے نا
ہو مرا ایسا خدا میں نہیں یہ مانتا

وقتِ مشکل چھوڑ دے، عمر بھر کا ہمسفر
پھر کہے میں ہوں ترا میں نہیں یہ مانتا

ہر کسی کو کچھ نہ کچھ رہن میں درکار ہے
کون کرتا ہے بھلا میں نہیں یہ مانتا

تجھ کو دل میں دوں جگہ کس لیے، کس واسطے
جا کہیں تو اور جا، میں نہیں یہ مانتا

چیز وہ ہوتی نہیں، جو بتائیں دوسرے
رخ سے اب پردہ ہٹا میں نہیں یہ مانتا

میں یہ کیسے مان لوں میرے بن وہ خوش رہے
وہ جو میرا مان تھا، میں نہیں یہ مانتا
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :عشق بارِ دِگر نہیں ہوتا

عشق بارِ دِگر نہیں ہوتا
کیونکہ یہ سوچ کر نہیں ہوتا

عشق کر کے مجھے یوں لگتا ہے
ہو رہا ہے مگر نہیں ہوتا

خود زمانے کے ظلم سہتا ہے
باپ ہوتا تو ڈر نہیں ہوتا

👈اُس کی باتیں بھلی تو لگتی ہیں
اِن میں اب وہ اثر نہیں ہوتا

عشق چاہا ہے میں نے ہو جائے
کہہ تو دیتا ہوں پر نہیں ہوتا

👈عشق میں ایک چیز بچتی ہے
نام ہوتا ہے سر نہیں ہوتا

لوگ اُس کو مکان کہتے ہیں
ماں نہ ہو جس میں گھر نہیں ہوتا

👈ظلم سے جس کے لوگ ڈرتے ہوں
وہ کبھی معتبر نہیں ہوتا

کل محبت بُلا رہی تھی مجھے
کہہ دیا وہ اِدھر نہیں ہوتا

اب تو راتیں عجیب لگتی ہیں
چھت پہ میری قمر نہیں ہوتا
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :ہر اک کو آس دلائے گا چھوڑ جائے گا

ہر اک کو آس دلائے گا چھوڑ جائے گا
وہ سبز باغ دکھائے گا چھوڑ جائے گا

کرے گا سب کو ہی قائل وہ میٹھی باتوں سے
جو تارے توڑ کے لائے گا چھوڑ جائے گا

کوئی رہے نہ رہے اس کو فرق پڑنا نہیں
نیا وہ دوست بنائے گا چھوڑ جائے گا

وہ چال باز تجھے اپنی یوں ہتھیلی پر
جما کے سرسوں دکھائے گا چھوڑ جائے گا

تجھے کرے گا محبت میں مبتلا اور پھر
وہ انگلیوں پہ نچائے گاچھوڑ جائے گا

اُسے نہیں ہے کوئی ڈر تری حکومت کا
وہ کاروبار اُٹھائے گا چھوڑ جائے گا

عجیب اُس کی محبت پہ مت یقین کرو
تمہیں گلے تو لگائے گا چھوڑ جائے گا
عجیب ساجد

اردو غزل : روٹی کے بھاؤ مہنگی تو جنت نہ تھی عزیز

روٹی کے بھاؤ مہنگی تو جنت نہ تھی عزیز
سودا یہ کیوں عجیب ملنگ سے نہیں کیا

کرنے لگے جو عشق تو سر بھی نہ دے سکے
تُم نے تو کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا

ہم کو عزیز تر ہے وہ مٹی جہان سے
لگتا ہے عشق تم نے بھی جھنگ سے نہیں کیا
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری : میں جی لوں اس کے بن مجھ سے یہ ہمت بھی نہیں ہوتی ۔ شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

بزمِ سخن کے میزبان انتہائی پیارے دوست بھائی ریڈیو ایکسل لندن کے معروف آر جے جناب عاطف مسعود صاحب سے ایک یادگار ملاقات لاہور پی سی ہوٹل میں ہوئی جس کا حصہ اول پیش کیا جا چکا اب حصہ دوئم پیشِ خدمت ہے
”تعجب“ حصہ دوئم
میں جی لوں اس کے بن مجھ سے یہ ہمت بھی نہیں ہوتی
مجھے تو اب کسی اپنے کی عادت بھی نہیں ہوتی

ہے سوچا بارہا اُس کو بتا دوں پیار کا اپنے
مگر جب سامنے ہو وہ تو جرات بھی نہیں ہوتی

تعجب ہے کہ اب وہ جان دینے کا نہیں کہتا
تعجب ہے کہ اُس کو یہ ضرورت بھی نہیں ہوتی

نہیں آتا دریچے میں ستمگر جان کا دشمن
سو میری اب تو مدت سے عبادت بھی نہیں ہوتی

پراۓ دیس میں جب سے گیا وہ بات کچھ یوں ہے
مری آنکھوں کی برسوں سے تراوت بھی نہیں ہوتی
عجیب ساجد

اردو غزل اردو شاعری :ہم سے اب دل کی حمایت بھی نہیں ہوتی ہے ۔شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

غزل
ہم سے اب دل کی حمایت بھی نہیں ہوتی ہے
اِس محبت سے بغاوت بھی نہیں ہوتی ہے

اب تو وہ میرے بنا بھی سدا خوش رہتا ہے
اب اُسے میری ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے

جس کے دو چار جہاں بھر میں نہ دشمن ہوں میاں
ایسے لوگوں کی تو عزت بھی نہیں ہوتی ہے

پہلے کرتے تھے کبھی اُن سے شکایت ہم بھی
اب تو ہم سے یہ جسارت بھی نہیں ہوتی ہے

لوگ رکھتے ہیں ضرورت کے مطابق رشتے
بے وفاوں کو ندامت بھی نہیں ہوتی ہے

کون کرتا ہے یوں بے لوث وفائیں اب کے
اب کسی شخص میں ہمت بھی نہیں ہوتی ہے

اب تو نفرت کا بھی یہ لوگ صلہ مانگتے ہیں
اور یک طرفہ محبت بھی نہیں ہوتی ہے
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری : وہ زندگی تھی اُس سے گلہ، ھی نہیں مجھے ۔ شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

غزل
وہ زندگی تھی اُس سے گلہ، ھی نہیں مجھے
اک درد دل میں تھا جو رہا، ھی نہیں مجھے

اک بار اُس نے مجھ کو پکارا تھا کہہ کے جاں
پھر ہوش اسکے بعد سے تھا، ھی نہیں مجھے

مانگی تھی اُس نےجان،سو ہنس ہنس کے پیش کی
پھر اِس کے بعد اُس نےکہا، ھی نہیں مجھے

کرتا ہے پیار اب وہ کسی اور سے مگر
اس سے کڑی تو اور سزا، ھی نہیں مجھے

پہلا وہ عشق تھا جو مجھے اُس سے ہو گیا
پھر اِس کے بعد تو یہ ہَوا، ھی نہیں مجھے

ملتے رہے ہیں لوگ بچھڑ کر یہاں پہ بھی
بچھڑا وہ اس طرح کہ ملا، ھی نہیں مجھے

کہنے میں جس سے داستاں دل کی گیا عجیب
حیرت ہوئی جب اُس نے سُنا، ھی نہیں مجھے
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری :پانی سمجھ کے جس کا کیا انتخاب تھا ۔شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

غزل
پانی سمجھ کے جس کا کیا انتخاب تھا
دریا نہیں تھا وہ تو مکمل سَراب تھا
 
دینا نہیں تھا مجھ کو سو خاموش ہی رہا
ورنہ ہر اک سوال کا فر فر جواب تھا

دیکھو نا ہوگئی ہے محبت کہا نہ تھا
تم نے تو لاکھ اِس سے کیا اجتناب تھا

جس نے بنا کے بند بچایا تھا شہر کو
خود اِس کا گاوں بھی تو کہیں زیر آب تھا

مجھ کو بنا کے ٹوٹی سی کشتی بھی دی گئی
قسمت میں میری لکھا ہوا سیل آب تھا

کہتے ہیں شہر سارا ہی اُس کا عزیز ہے
پہلے جو شخص مجھ کو ہی بس دستیاب تھا

وہ مل گیا ہے گویا سکوں مل گیا مجھے
دل میں عجیب میرے عجب اضطراب تھا
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری : وہ جس سے دل بھی لگاتا ہے چھوڑ جاتا ہے ۔ شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

حصہ سوئم
وہ جس سے دل بھی لگاتا ہے چھوڑ جاتا ہے
جسے بھی دوست بناتا ہے چھوڑ جاتا ہے

وفا نبھانے کی اُس سے کبھی جو بات کرو
وہ ہاں میں ہاں تو ملاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

وفا کا عہد وہ ہر بار کر کے بھولتا ہے
وہ لاکھ قسمیں بھی کھاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

لیے رقیب گزرتا ہے میری گلیوں سے
وہ رشتہ خوب نبھاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

وہ چال باز کبھی جب بھی ہو مصیبت میں
وہ میرے پاوں دباتا ہے چھوڑ جاتا ہے

ستم ظریف محبت کا یوں بھی ماہر ہے
وہ انگلیوں پہ نچاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

سرور و مستی نگاہوں میں اُس کے اتنی ہے
دلوں کو خوب لبھاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

وہ شام ڈوبتے منظر میں سامنے آ کر
جو رنگ اپنا جماتا ہے چھوڑ جاتا ہے

اُسے بھی خوب جدائی ستائے ہے میری
وہ خوب روتا،رلاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

وہ قہقہے وخوشی بانٹتا ہے دنیا میں
جو سب کو خوب ہنساتا ہے چھوڑ جاتا ہے

بجھی بجھی سی جو محفل میں دفعتاً آکر
وہ چار چاند لگاتا ہے چھوڑ جاتا ہے

یقیں پرانی محبت پہ اُس کو بھی ہے عجیب
وہ داستان سناتا ہے چھوڑ جاتا ہے
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری : خلق کے دل سے جب اتر جائیں ۔شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب

خلق کے دل سے جب اتر جائیں
اِس سے بہتر ہے یہ، کہ مر جائیں

رک بھی سکتے ہیں دیکھ کر تجھ کو
یہ بھی مکمن ہے وہ گزر جائیں

مانگ اُس سے جو دینے والا ہے
اشک تیرے نہ بے اثر جائیں

بعد مرنے کے رہ سکیں زندہ
کام ایسا ہی کوئی کر جائیں

قبل اس کے ہی چھوڑ دیں مجلس
لوگ اُٹھیں کہیں کہ گھر جائیں

اُس کے دربار کون جائے گا
ظلم سے جس کےلوگ ڈر جائیں

تیرے دل کے جو مسئلے ہیں عجیب!
دیکھ لیتے ہیں گر ٹھہر جائیں
کلام عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
مجھ کواب تنگ پیاس کرتی ہے
وہ بھی دریا کے پاس کرتی ہے

روز ملتا ہوں زندگی سے میں
روز مجھ کو اداس کرتی ہے

یہ محبت بھی تیرے جیسی ہے
جانے پھر کس کو داس کرتی ہے

پھول جیسا بدن ہے اُس کا وہ
خوشبووں کو لباس کرتی ہے
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
روز مجھ کو فریب دیتا ہے
دوست ہےاُسکو زیب دیتا ہے

ریل پٹڑی ہےحل مسائل کا
مشورہ یہ شکیب دیتا ہے

تم بلندی کو بھول جاؤ گے
جو مزہ پھر نشیب دیتا ہے

اس کے پاؤں کو کاٹ دیتا ہے
جس کو پازیب، زیب دیتا ہے

ایک ہے دوست میرا جموں میں
فون پر مجھ کو سیب دیتا ہے
عجیب ساجد


اردو غزل اردو شاعری :جسم کو جیسے خوں ضروری ہے ۔شعری مجموعہ تعجب سے انتخاب  
غزل
👈جسم کو جیسے خوں ضروری ہے
Lتیرا ہونا بھی یوں ضروری ہے

👈پوچھتے ہو وہ شخص مجھکو اب
کہہ دیا نا ! کہ ھوں ضروری ہے

👈اک محبت تو کرنا پڑتی ہے
زندگی میں سکوں ضروری ہے

👈سوچتا ہوں کبھی میں اِیسے ہی
ویسے تو مجھ کو کیوں ضروری ہے

👈ہر کسی کے کہاں نصیبوں میں
عشق میں تو جنوں ضروری ہے

👈زندہ رہنے کو سانس کی جیسے
یہ سمجھ لو وہ یوں ضروری ہے

👈چہرے پڑھنا پُرانا قصہ ہے
اب تو سوزِ دروں ضروری ہے
 
👈بات آنکھوں سے کرنا پڑ جائے
تو نظر کا فسوں ضروری ہے

کلام عجیب ساجد
انتخاب
تعجب
دوست بھی کچھ ببول ہوتے ہیں
جیسے کانٹوں میں پھول ہوتے ہیں

روند دیتی ہے اُن کو پھر دینا
جو بھی پیروں کی دھول ہوتے ہیں

جس کو چھوڑا ہے پھر نہیں سوچا
اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں

اُن کے در پر پڑے ہوۓ ہیں ہم
دیکھیے کب قبول ہوتے ہیں

زخم گہرے اُنہی سے ملتے ہیں
جن کے ہاتھوں میں پھول ہوتے ہیں

جو بھی نفرت کی بات کرتے ہیں
مان لیجے فضول ہوتے ہیں
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
جو دنیا کے مزے شامل رہیں گے
وہ اِس کے بعد لاحاصل رہیں گے

میں اُس کی آنکھیں پڑھ کے آ رہا ہوں
وہ تیرے ساتھ اب مشکل رہیں گے

ابھی یہ جان دینے پر تُلے ہیں
جو مشکل ہو توسب غافل رہیں گے

مرے رستے کے سب یہ کیل کانٹے
بھلا کب تک یونہی حائل رہیں گے

اُٹھیں اور چھین لیں حق ظالموں سے
نہیں اب بن کے ہم بزدل رہیں گے

صحیفے تیری یادوں کےیوں دل پر
بتا دے کب تلک نازل رہیں گے

جدھر رہزن چلاۓ چل رہے ہیں
بنے کب تک یونہی جاہل رہیں گے

تجھے جو دیکھتے ہی پھیر لے منہ
اُسی پر کب تلک مائل رہیں گے

انہیں خیرات سے مطلب نہ ہوگا
ترے در پر جو بھی سائل رہیں گے
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
ہر اک کو آس دلاۓ گا چھوڑ جاۓ گا
وہ سبز باغ دکھاۓ گا چھوڑ جاۓ گا

کرے گا سب کو ہی قائل وہ میٹھی باتوں سے
جو تارے توڑ کے لائے گا چھوڑ جاۓ گا

کوئی رہے نہ رہے اس کو فرق پڑنا نہیں
نیا وہ دوست بناۓ گا چھوڑ جائے گا

وہ چال باز تجھے اپنی یوں ہتھیلی پر
جما کے سرسوں دکھاۓ گا چھوڑ جائے گا

تجھے کرے گا محبت میں مبتلا اور پھر
وہ انگلیوں پہ نچائے گاچھوڑ جاۓ گا

اُسے نہیں ہے کوئی ڈر تری حکومت کا
وہ کاروبار اُٹھاۓ گا چھوڑ جائے گا

عجیب اُس کی محبت پہ مت یقین کرو
تمہیں گلے تو لگاۓ گا چھوڑ جائے گا
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
قطعہ
کوئی خواہش ہوئی نہ پوری تھی
پیار میں صرف جی حضوری تھی

رنگ تتلی سے مانگ لایا ہوں
تیری تصویر جو ادھوری تھی
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
اشک پلکوں پہ ٹہرا کب ہے
تیری یادوں پہ پہرہ کب ہے

آہ مفلس کی اپنا حاکم
سن ہی لیتا ہے بہرہ کب ہے

کب جوانی و حسن رہتے ہیں
موت پر اپنا پہرہ کب ہے

وہ پہچانے کہ بھول جائے
اپنا بدلا یہ چہرہ کب ہے

بادشاہ بھی گدا ہوئے ہیں
اک جگہ وقت ٹہرا کب ہے

اس سے بچھڑے سنبھل گئے ہیں
زخم تازہ ہے گہرہ کب ہے
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
وہ بھی اچھا، بھلا سمجھتے ہیں
درد کو جو دوا سمجھتے ہیں

ہم جنہیں کچھ نہیں سمجھتے تھے
وہ بھی خود کو بلا سمجھتے ہیں

پھر اُنہیں وہ سزا ہی لگتا ہے
پیار کو جو سزا سمجھتے ہیں

وہ جو کہتے ہیں کچھ نہیں ہوں میں
کیا وہ خود کو خدا سمجھتے ہیں

احتراماً میں چپ جو رہتا ہوں
وہ اِسے کیا سے کیا سمجھتےہیں

دل مرا کام چھوڑ دیتا ہے
خود کو جب وہ جدا سمجھتے ہیں

وہ بھی تھوڑی سی چکھ کے دیکھیں تو
جو بھی مے کو بُرا سمجھتے ہیں

بات کرتے نہیں غریبوں سے
جانے خود کو وہ کیا سمجھتے ہیں

عاشقوں کی عجیب عادت ہے
جو عدو دلربا سمجھتے ہیں
عجیب ساجد

انتخاب
تعجب
ظلم کی حد کہاں پہ ہوتی ہے
میں بتاوں جہاں پہ ہوتی ہے

آ وفا کا پتہ میں دیتا ہوں
وہ جہاں ہے وہاں پہ ہوتی ہے

اپنے غم تم سیمٹ لو بھائی
کس کو فرصت یہاں پہ ہوتی ہے

تم محبت کا پوچھتے ہو نا
یہ زمیں آسماں پہ ہوتی ہے

ُاُس کی آنکھیں حوالہ دیتا ہوں
بات جب داستاں پہ ہوتی ہے

پیٹ اُس کا بھرے گا پھر کیسے
آنکھ جس کی جہاں پہ ہوتی ہے

وہ نشانہ خطا نہیں کرتا
چیز جو بھی نشاں پہ ہوتی ہے
عجیب ساجد

سماج کی برائیوں پر غزل

بُرے سماجوں کے لوگ سارے بھلائی کا درس دے رہے ہیں
وہ جن کے اپنے خدا بہت ہیں خدائی کا درس دے رہے ہیں

جو تجھ سے کہتے ہیں روز ملنے سے چاہتوں کا زوال ہو گا
نہ اُن کی باتوں پہ کان دھرنا جدائی کا درس دے رہے ہیں

فضول تر ہے فسانہ الفت جو مجھ کو کل تک بتا رہے تھے
اسیر جو اُن کے رہ چکے ہیں رہائی کا درس دے رہے ہیں

جو ہاتھ پھیلائے کل کھڑے تھے ہمارے ٹکڑوں پہ پل رہے تھے
جو ہاتھ آئے ہیں چار پیسےکمائی کا درس دے رہے ہیں

جو ووٹ لینے سے پہلے کشکول توڑ دینے کا بولتے تھے
وہ آج ساجد ہمارے حاکم گدائی کا درس دے رہے ہیں
عجیب ساجد
Ajeeb Sajid
عجیب ساجد


اُردوشاعری نظم : کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں

’’کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں!‘‘

وہ جِس کو تم نے یوں رِہ گزر پہ ہی
چلتے چلتے جدا کیا تھا
مِری محبت مِری وفاوں کا کتنا
اچھا صلہ دیا تھا
وہ غم کےسانچے میں ڈھل چکا ہے
تمھارے بن اب وہ جی رہا ہے
نہ مر رہا ہے!

کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں!

وہ اپنے وعدوں کا کیا ہوا ہے؟
محبتوں میں تمھارے پختہ
جو تھے اِرادوں کا کیا ہوا ہے؟
پُرانی رسموں کا کیا بنا ہے؟
تمھاری قسموں کا کیا بنا ہے؟

کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں!

میں تم کو یکسر بُھلا چُکا ہوں
میں کتنے ساون بِتا چُکا ہوں
میں دل سے چاہت مِٹا چُکا ہوں
تمہاری دنیا سے جا چکا ہوں

کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں!

یہ جھوٹ بولا کہ جی رہا ہوں
میں چاکِ ہستی کو سِی رہا ہوں
ہے جسم زندہ پہ جاں نہیں ہے!
تمہارے بِن اب
کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے!!

کبھی ملو گے، تو میں بتاؤں!
عجیب ساجد

اردوشاعری نظم : محبت اب نہیں کرنی
”محبت اب نہیں کرنی“
یہ ہم میں حوصلہ کب هے!
دوبارہ لوٹ جانے کا۔
زخم اب اور کهانے کا۔
یونہی دل کو جلانے کا!!!!
ہمارا حوصلہ کب ہے ؟؟
نہ دل میں کوئی چاہت ہے!
نہ من میں کوئی حسرت ہے!!
کسی کو پھر سے!!
چاہنے کی!
گلے سے اب !!!!
لگانے کی۔
کسی کیساتھ چلنے !!
روٹھنےکی!!
اور منانے کی!
..نہ دل میں کوئی خواہش ہے !!!
کہیں راتیں بِیتاتے کی !
کسی کو دکھ سُنانے کی!!
نہ اب دل کو جلانے کی۔۔۔
نہیں ہے اب کوئی خواہش۔
سو !!
اِسمیں ہم نے سوچا ہے۔
کبھی چاہت نہیں کرنی ،،
محبت اب نہیں کرنی!
محبت اب نہیں کرنی!!!!
یہ ہم میں حوصلہ کب ہے!!!!!!!!!
عجیب ساجد
25۔12۔2021

اُردوشاعری نظم : بھِیگتے دِسمبر میں

”بھِیگتے دِسمبر میں “
بارشوں کے موسم میں
ضبط کیِسے کرتے ہیں
ہم تمہیں بتائیں گے۔۔۔۔۔
درد کیِسے سہتے ہیں
آنسو کیَسے پِیتے ہیں
ہم تمہیں سکھائیں گے ۔۔۔
اب کے بار لگتا ہے!!
تم جو لوٹ آؤ گے!
ٹوٹتے ہوۓ سپنے
آنکھ میں بھر جاو گے!!
پر اگر نہ ہو ایسا !
اس برس دِسمبر میں
تم اگر نہیں آۓ !!!!
سپنے بھی نہ سج پاۓ
ہم بھی روٹھ جائیں گے
اور
یاد رکھنا تم

مٹی کے یہ کوزے پھر ٹوٹ پھوٹ جائیں گے !
کوزہ گر کے آنے سے
چاک کو گھمانے سے مُورتی نہیں بنتی!
جب تلک کسِی کے پاس۔۔
ہونے کا یقیِں نہ ہو !
ایسا کم ہی ہوتا ہے
اس برس کلِینڈر میں
بھِیگتے دِسمبر میں
ہم نے سوچ رکھا ہے
ہم تجھے منائیں گے !!

ضبط بھی دکھائیں گے
آنسو کیِسے پیِتے ہیں
یہ بھی اب سکھائیں گے
بارشوں کے موسم میں !!! !!!
کلام عجیب ساجد

سجناں نال بکھیڑے کاہدے

سجناں نال بکھیڑے کاہدے
سُنجے ہون تاں ویڑھے کاہدے

جو مجبوریاں تے نہ اپڑن
دور ہوون یا نیڑے کاہدے

جے توں سانجھ مکا چھوڑی اے
فر تکرار تے جھیڑے کاہدے

جس تو ہیر وی خوش نہ ہووے
اوہ رنگ پور دے کھیڑے کاہدے

جے دریا اِچ وڑنا ای نہیں
چھتری، لنگر، بیڑے کاہدے

جس نوں ماں دے ہتھ نہ لگن
اوہ مکھن دے پیڑے کاہدے

جے سک سدھر دل وچ ہووے
سجن فیر پریڑے کاہدے
عجیب ساجد

ہویئاں اِنج پرائیاں اکھاں

ہویئاں اِنج پرائیاں اکھاں
جو سن اِچ کے لائیاں اکھاں

میں دنیا تے دوش کیہ دیواں
تُوں وی تاں پرتائیاں اکھاں

اوہنے آن دا کوئی نہ دسیا
سِک موٸیاں سدھرائیاں اکھاں

مینوں گل فر مننی پے گئی
جد اوہنےچھلکائیاں اکھاں

پہلے ورگی شوخی نہیں سی
لگیاں اج گھبرائیاں اکھاں

شُکر ادا میں رب دا کیتا
شہر مرے جد آئیاں اکھاں

چار چفیرے نظریں آون
دل اچ انج سمائیاں اکھاں
عجیب ساجد

جو تینوں پل پل دا دکھ اے

جو تینوں پل پل دا دکھ اے
دس کھاں کیہڑی گل دا دکھ اے

لنگھیا اے دن سولی اتے
آون والے کل دا دکھ اے

جو میں اندروں سڑدا رہناں
مینوں تیرے ول دا دکھ اے

سسی دا تاں خان سی اوتھے
تینوں کہڑے تھل دا دکھ اے

اُس بے قدرے سجن اگے
اکھ چوں نکلی چھل دا دکھ اے

جھڑکاں تیریاں سہہ لیندا میں
پر متھے تے بل دا دکھ اے

طوطے کھاون باغ نہیں مکدے
مینوں ڈِگدے پھل دا دکھ اے
عجیب ساجد


پنجابی شاعری اردو میں

غم دے بدل چھٹدِے وِیکھِین
یار یاراں توں ہٹدے ویِکھِین

ہرکاسےِ وچ خیر نیِں ہوندی
خالی شاہ پلٹدے ویِکھِین

قصہ گو آنکھیاں دے آگے
قصہ سب سِمٹدِے ویِکھِین

تِرے دم دِی خِیر ہو سنجڑاں
پر میں تخت اُلٹدے ویکِھینِ

بخت ڈھلے دی گل اے ساری
شیر تے گِدھ جھپٹدِے ویِکھِین

جددن تعلق ٹُٹ جاوین تے
تحفہ تک میں ہٹدے ویِکھیِن

کلام عجیب ساجد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے