دین و مذہب سے دوری
دین سے دوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کسی حکیم کے پاس ایک ضعیف، کمزور وناتواں انسان مر ض کی تشخیص اور علاج کے لیے گیا، اس نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ بدن میں درد ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے کہا سر چکراتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض نے عرض کیا آنکھوں میں تارے ناچتے ہیں، اور پاؤں ڈگمگاتا ہے، حکیم نے کہا: ضعف کی وجہ سے ہے، مریض کو سخت غصہ آیا، اس نے کہا : تم نے پڑھا کیا ہے، تم کو خالی ضعف ہی یاد رہ گیا ہے، حکیم صاحب نے انتہائی تحمل، بردباری اور سنجیدگی سے کہا : یہ جھنجھلاہٹ بھی ضعف کی وجہ سے ہے۔
مسلم معاشرہ میں برائیاں اور ان کے اسباب وعلل
آج مسلم معاشرہ میں کم وبیش جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے اسباب وعلل پر جتنا غور کیجئے، اور جتنا بھی تجزیہ کیجئے اس کا جواب اس حکیم کی طرح ایک ہی سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے مکمل دین سے دوری اور مذہبی بیزاری، سماج میں کہیں ظلم ہو رہا ہے، دین سے دوری کی وجہ سے، رشوت، سود خواری، ناپ تول میں کمی بیشی، ملاوٹ کیا جارہاے، دین سے دوری کی وجہ سے، جھوٹ، وعدہ خلافی، خیانت، بد دیانتی، غداری، دغا بازی، بہتان، چغل خوری اورآپسی جھگڑے عام ہیں، جو اب ہے دین کی دوری کی وجہ سے،دور خاپن بد گمانی، غیر ضروری مداحی، خوشامد، بخل، حرص وطمع بے ایمانی اور چوری نے سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے، اور لوگ تیزی سے اس طرف بھاگ رہے ہیں، دین سے دوری کی وجہ سے، غیظ وغضب، بعض وکینہ، ظلم، فخر وغرور، ریا، خود پسندی، خود نمائی، فضول خرچی حسد اور فحش گوئی انسانوںکا مزاج بن گیا، جو اب ایک اور صرف ایک ہے۔
دین سے دوری کی وجہ
دین سے دوری کی وجہ سے آج زبان کی سچائی، دل کی سچائی، عمل کی سچائی کا وجود نظر نہیں آتا، عفت وپاکبازی، شرم وحیا، رحم، عدل وانصاف، عہد کی پابندی دیکھنے کو نہیں ملتی، احسان، عفو ودر گذر، حلم وبردباری، انس ولطف، تواضع وخاکساری، خوش کلامی، ایثار، اعتدال، اور میانہ روی، خود داری یا عزت نفس، شجاعت اور بہادری، استقامت اور حق گوئی کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں، عملی زندگی میں یہ قصہ پارینہ بن گئے ہیں، گویا مسلم معاشرہ میں مکارم اخلاق اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے اور یہ متاع بے بہا، نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گیا ہے، اور اس کی جگہ رذائل تیزی سے لیتے جا رہے ہیں، جو لوگ آج بھی فضائل اخلاق کو پکڑے ہوئے ہیں، وہ سماج کی نظر میں دقیانوس، لکیر کے فقیر اور بیوقوف سمجھے جاتے ہیں، اس سوچ نے سماج کو راہ راست پر آنے سے دور کر رکھا ہے، اسلام جو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا تھا، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ حسن اخلاق کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا غلبہ تھا کہ کوئی وارد وصادر بھی بادی النظر میں اسے دیکھ کر محسوس کر سکتا تھا، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ذرؓ نے اسلام لانے سے قبل جب اپنے بھائی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کی تحقیق اور دریافت حال کے لیے بھیجا تو ان کے بھائی نے آکر جو رپورٹ پیش کی اس کا ایک جملہ تھا ’’میں نے ان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے، جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوا۔ ’’تم میںسب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے۔’’ جب نامۂ اعمال تولے جائیں گے تو ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی، اس لیے کہ حسن خلق والا اپنے حسن خلق کی بدولت ہمیشہ کے روزہ دار اور نمازی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔
ہم جب دین سے دور ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے تو اس کے نتیجے میں سارا معاشرہ فساد وبگاڑ، اخلاقی انارکی اور رذائل کی آماجگاہ بن گیا، اس لیے مسلم معامشرہ میں پھیلی برائیوں کو اگر دور کرنا ہے تو اس کا ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے دین کے ہر ہر جز پر عمل کے لیے اپنے کو آمادہ اور تیار کرنا، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ جس کے بنیادی مقاصد میں تنفیذ شریعت علی منہاج النبوۃ، یعنی شریعت کا نفاذ نبوی طریقۂ کار کے مطابق ہے، وہ مسلسل اس میدان میں کام کر رہی ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اس مہم کا حصہ بنیں، علامتی نہیں، حقیقی، یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ایمان کا تقاضہ بھی۔
0 تبصرے