حجاب | Hijab
مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کو مسلمان بہنوں کی جیت بتا کر خوشیاں منانے والے لنڈے کے دانشور ذرا متوجہ ہوں
امریکہ میں تقریباً 70 کی دہائی تک کالے گورے میں بہت زیادہ فرق تھا اتنا فرق کی گورے کالوں کو سکول تک میں آنے کی اجازت نا دیتے تھے پھر اجازت ملی بھی تو کالے لوگ الگ کلاس میں۔ اور گورے الگ کالے لوگوں کو سوال کرنے کی بھی اجازت نہ تھی یہاں تک کہ پانی پینے اور گوروں کے واشروم استعمال نہیں کر سکتے تھے
آپ شاید جانتے ہوں کہ برہمنوں کے یہاں چھوت اچھوت بہت زیادہ ہے وہ اپنے سوا کسی کو پاک نہیں مانتے مدارس ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اسکول میں بچیوں کو الگ کلاس میں جگہ ملی ہے امریکی نسل پرست کالوں کو اس لئے الگ کلاس میں بٹھاتے تھے کیونکہ وہ دوسرے درجے کے شہری تھے، تو کیا آپ ہندوستان میں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں ؟یا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ آزادی سے پہلے دلتوں کو حقیر اچھوت سمجھتے تھے آج وہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھیں آپ کو دوسرے درجے کا شہری بنائیں؟
میری پیاری غیرت مند بہنوں، بھائیوں سے تو کہنا ہی کیا ہے اگر آپ نے آج یہ قبول کر لیا تو دور نہیں کہ پورے ملک کے ہر صوبے ہر شہر ہر کالجوں میں یہ کیا جائے اور آپ کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح برتاؤ کیا جائے یہ ان کی ایک چال ہے وہ اپنی چالوں میں کامیاب ہیں اور کچھ لوگ اس کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں
افسوس کہ مسلمانوں کے نام نہاد قائد اپنوں کو سیکولرزم اور جمہوریت کی باتیں سکھاتے ہیں اور چیخ چیخ کر بتاتیں ہیں کہ اس ملک کی آزادی کی خاطر 61300 سے زائد مسلمانوں نے جان کی قربانی دی جن میں ہزاروں علماء تھے لیکن یہ قائد ایک بار حکومت کے سامنے بیٹھ کر یہ نہیں پوچھ سکتے کہ آخر چاہتے کیا ہو کب تک مسلمانوں کے ساتھ یہ کھیل کھلا جاتا رہے گا آخر ملک کے لیے آزادی کی لڑائ مسلمانوں نے شروع کی تھی اور آخر تک پھندوں پر چڑھتے رہے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو آپ قائد سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے لیے آواز اٹھانے کو بھی تیار نہیں ہیں
0 تبصرے