مضمون : لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں !
جبیں نازاں
اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی کانگریس کی جانب سے پرینکا گاندھی نے نعرہ دیا تھا " لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں " جو کافی مقبول ہوا اس نعرہ کی گونج اتر پردیش سے نکل کر کرناٹک تک پہنچ گئی اور بی بی مسکان خان اس نعرہ کی پوسٹر گرل بن گئی۔۔۔
جسے نیا بھارت کی پہچان بھی کہا جاسکتا ہے ۔ پوری دنیا اس نئے بھارت کو دیکھ کر حیران سے زیادہ پریشان ہے ۔ اور پریشان کیوں نہ ہو'کثرت میں وحدت' کا تصور ختم کیے جانے کی انتھک کوششیں مسلسل جاری ہیں ۔ حکمراں جماعت تو روز اول سے تکثیریت ختم کرنے کی جد وجہد کررہی ہے ہر ممکن، ناممکن بھی کہہ سکتے ہیں اقدام اٹھا رہی ہے۔لیکن وزیر اعظم کے اس نعرے کو ہم کس زاویےنظر سے دیکھیں ؟؟
"لڑکی بچاؤ لڑکی پڑھاؤ! "
لڑکیوں کو زعفرانی پٹے والے ٹولے سے بچانے کی بات کررہے تھے وزیر اعظم؟ لڑکیاں ان ٹولے سے محفوظ رہ سکیں گی تبھی تو پڑھ پائیں گی؟؟
وزیر اعظم جی! آپ تو" سب کا ساتھ سب کا وکاس" اور اب "سب کا وشواش "بھی شامل کرچکے ہیں ؟ مسکان اور مسکان جیسی ہزاروں نہتی لڑکیوں کا' وشواس' حاصل کرنے میں کتنا کامیاب ہیں یا ناکام یہ آپ کی مقبولیت کا گرتا ہوا گراف بتا رہا ہے ۔
ہم کچھ نہیں کہتے جو کہنا اور کرنا ہے وہ آپ 'کہہ' اور کر رہے ہیں جسے سب دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ مجھے ان مواقع پہ ایک محاورہ اکثر یاد آتا ہے ۔ ہاتھی کے دانت دیکھانے کھانے کے اور ہوتے ہیں ۔ یا پھر قول و فعل کا تضاد ۔ اسی تضاد پہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نیو رکھی ہے ۔
زمینی حقیقت سے ہم یا آپ آنکھیں کہاں تک اور کب تک چرا سکتے ہیں ؟دنیا تو یہ کہہ رہی کہ آپ مخصوص لوگوں کا ساتھ وکاس اور وشواس کرتے رہے ہیں۔ امریکہ نے پچھلے دنوں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں تمام ممالک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت کا سروے کا اندراج کیا گیا تھا ہندستان بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی نچلے درجے پہ پہنچ چکا ہے ۔
بہرحال ! اب ذرا نہتی مسکان خان کی دلیری کے تناظر میں سوشل سائٹ پہ لڑی جانے والی جذباتی اور لفظی جنگ کے تناظر میں اپنے حالات کا مشاہدہ کریں ۔ کالج کیمپس سے لے کر سوشل سائیٹ تک اس لڑکی اور اس کے حمایتی حلقے کو جس طرح ٹرول کیا جارہا ہے ۔ یہ اس قضیے کے معمولات کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے ۔ آئے دن کسی نہ کسی اس نوعیت کے واقعات پر پچھلے 6/ 7 برسوں سے یہی ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔رفتہ رفتہ ہم اس فضاؤں کے عادی بھی بن چکے ہیں کسی حد تک۔
سب کو خبر کہ یہ موضوع چند روز تک گرم رہے گا یا گرم رکھا جائے گا انتخاب میں فائدے کے حصول کی خاطر۔۔۔ تعجب نہیں کہ 7 مارچ تک اس موضوع کو زندہ رکھا جائے۔
ایسا نہیں کہ بی بی مسکان کی حمایت میں صرف مسلمان آگے آئے ہیں ۔ غیر مسلم کا ایک بڑا طبقہ مسکان کے ساتھ کھڑا ہے۔
بی بی مسکان پر جس طرح 40، 50 لڑکوں کا ہجوم امڈ پڑا تھا ۔ مسکان کی حمایت میں صرف ایک استاد محافظ بن کر آگے آئے۔ واقعی استاد والد کا کردار ادا کررہے تھے ۔ یوں ہی نہیں استاد کو بلند درجہ عطا کیا گیا ہے ۔والدین کے بعد سب سے بڑا رتبہ کسی کو حاصل ہے تو وہ استاد جیسی ہستی کو حاصل ہے ۔ اس کا حقیقی ادراک اس وقت ہوا مجھے۔ دیگر لوگوں نے اس منظر کو دیکھ کر نہ جانے کیا محسوس کیا؟ لیکن میری نظروں کے سامنے بی بی مسکان نہیں افغانستان کی ملالہ یوسف زئی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ لال دوپٹہ۔ کلاشنکوف جیسا محسوس ہورہا تھا۔۔ 'جے شری رام ' کی ہزار صداؤں پہ ایک " اللہ اکبر " کی صدا ماند پڑگئی۔
اب ذرا دیکھیں حجاب کے متعلق مسائل اور دلائل۔۔۔ سب کے اپنے دلائل ہیں ۔ ان دلائل سے قطع نظر ہمیں یہ فکر لاحق کہ لڑکی /یا خاتون کیا پہنیں ؟کیا کھائیں کہاں رہیں۔۔ کس دنیا میں جائیں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
کبھی شارٹ لباس پہ تبصرہ ہوتا ہے۔ تو کبھی پھٹی جینس پہ بی جے پی کے ایک رہنما نے ماضی قریب میں زنا بالجبر کے واقعات کے تناظر میں ایک بات کہی تھی۔ لڑکیاں جب پھٹی جینس پہنیں گی تو چھیڑخوانی اور زنا بالجبر کے ہی واقعات رونما ہوں گے ۔
پھٹی جینس اور شارٹ لباس مسئلہ نہیں، مسئلہ آپ جیسے 'پرش پردھان سماج " کے چند افراد کی' پھٹی ذہنیت، اور شارٹ دماغ کا ہے ۔ تین سالہ بچی، آٹھ سالہ بچی کون سا لباس پہنے ؟؟ جو اس معاشرے میں محفوظ رہ سکے۔۔۔
ان کے اس بیان پہ اسمرتی ایرانی بھی 'مون دھارن 'کر لیتی ہیں ایک لفظ بولنا گوارا نہیں کرتی۔۔ اب لڑکی حجاب پہنے اپنا جسم ڈھکے تو حجاب/ نقاب اتارنے کے لیے طرح طرح کے سوانگ رچے جا رہے ہیں ۔ اسمرتی ایرانی یہاں بھی خاموش ہی ہیں اور امید کہ آئندہ بھی اس مسئلے پہ خاموش ہی رہیں گی۔ جس طرح لڑکوں کا ٹولہ ایک نہتی لڑکی پہ ٹوٹ پڑا یہ ایک لڑکی کی 'ہنن ' کا معاملہ نہیں ہے شاید ؟ ان کی نظر میں بی بی مسکان لڑکی نہیں ہے ؟ پہلے وہ لڑکی ہے بعد میں مسلم یہ بات آپ کو سمجھ آتی ہے اسمرتی ایرانی جی! لیکن سیاسی نظریے نے آپ کی زباں بند کردی ہے ۔ اور آپ کی ہی نہیں وزیر اعظم کی بھی جو اس ملک کے ہر شہری کے وزیر اعظم ہیں کسی ایک مذہب یا کسی ایک طبقے کے نہیں۔۔۔ وزیر اعظم کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آئے جہاں انھوں نے چپی سادھ لی ۔ خواہ وہ انو راگ ٹھاکر کی دھمکی کا موقع ہو "ملک کے غداروں کو۔۔ " یا پھر کٹھوعہ ریپ کا معاملہ یا پھر ہاتھرس سانحہ، لکھیم پوری کا واقعہ، وغیرہ وغیرہ۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم نے کہا کہ" کچھ لوگ ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔"
پوری دنیا نے ان کچھ لوگ کو مفلر لہراتے ایک لڑکی پہ دیکھا۔۔ اس سے ملک کا نام روشن ہوا، یا بدنام یہ ہم نہیں وزیر اعظم ہی بتائیں گے۔ ملک کی شبیہ کون خراب کررہا ہے یہ ہم نہیں ایمنٹر نیشنل تنظیم بتائے گی ؟ ہم بتانے لگیں تو پہلے آپ برافروختہ ہوں گے ۔ اور پھر ماننے سے انکار کردیں گے ۔
اب دیکھیں! نام نہاد مسلم مارڈن اسکالروں کے دلائل
قرآن میں پردے کا حکم آیا ہے پردے کا یہ تصور نہیں کہ خواتین کو ایک خول میں لپیٹ دیا جائے ۔ یہ حجاب یا برقع تہذیبی لباس ہے۔ شرعی نہیں، وغیرہ وغیرہ" اس قسم کے ان گنت دلائل اور مباحث شروع ہوچکے ہیں ۔ اور نہ جانے کتنے دنوں تک بحث ومباحثوں کا سلسلہ چلتا رہے گا ۔
میرا ان مرد حضرات سے صرف ایک سوال ہے وہ یہ کہ " پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے" کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ اپنے گھر کی خواتین پر شریعت نافذ کردی جائے اور ہم مرد ہیں۔ اپنی مرضی کے مالک۔ جو چاہیں کریں !
ان مردوں سے دوسرا سوال سابقہ سوال کی توسیع ہے وہ یہ کہ کیا آپ شرعی لباس پہنتے ہیں ؟؟ آپ بھی تہذیبی ہی لباس زیب تن کرتے ہیں ؟ شریعت نے لباس کی تراش خراش ہیئت کا تعین نہیں کیا ۔
آپ کو چاہئے تھا کہ سنّت پہ عمل کرتے۔۔ محمد صل اللہ علیہ وسلم کو جو لباس سب سے زیادہ پسند تھا ۔ سب سے زیادہ انھوں نے جس نوعیت کا لباس اپنی حیات مبارکہ میں زیب تن کیا ۔ آپ ذوق وشوق سے ویسا ہی لباس اپنے لیے بنواتے اور فخریہ پہنتے ۔
آپ نے سنّت صل اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی سعادت حاصل کی؟؟
نہیں' تو پھر خواتین کے لیے شرعی لباس کا انتخاب کرنے آپ کیوں بیٹھیں ہیں ؟؟
جہاں تک عدالت کے فیصلے کی بات ہے ۔ عدالت نے فیصلہ نہ آنے تک بغیر حجاب اسکول یا کالجز میں آنے کا حکم صادر کیا ہے ۔ حجاب مخالف کی باچھیں کھل اٹھی ہیں ہمارے لیے عدالت کا حکم ماننے کی ہدایت اور وکالت کی جارہی ہے میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں ' سبر مالامندر 'کے متعلق عدالت نے فیصلہ دیا تھا ۔ اسے قبول کیا گیا ؟
_________________________
Jabeennazan2015@gmail.com
1 تبصرے
موزوں سوال اٹھائے آپ نے۔ حالیہ واقع پر جہاں ہر کوئی بحث پر ہے وہاں اس قدر مدلل تحریر کم ملتی پڑھنے کو۔
جواب دیںحذف کریںسرکار چاہے اہلِ ہند کی ہو یا پاکستان کی دونوں نے عوام کو الو ہی بنایا ہے اور نا انصافی برتی۔