رباعی کیا ہے؟ رباعی کی تعریف رباعی کی مثال
رباعی کیا ہے؟
رباعی چار مصروں والی نظم کو کہتے ہیں۔رباعی کو دو بیتی بھی کہتے ہیں اس لئے کہ اس میں دو بیت یا دو شعر ر ملے ہوئے ہوتے ہیں۔اردو میں بیت کے لغوی معنی شعر ہے اس طرح دوبیتی سے مراد دو شعروں والی مختصر نظم ہے جس میں کسی ایک خیال کو پیش کیا جائے۔
رباعی کس زبان کا لفظ ہے؟
رباعی لفظ عربی زبان سے بنا ہے ۔عربی میں ربع کے معنی چار ہوتے ہیں ۔چونکہ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں اس لیے اس نظم کا نام رباعی ہو گیا۔
رباعی اور قطع میں فرق
رباعی اور قطع میں فرق ہوتا ہے۔ قطعے کے لحاظ سے رباعی مختلف ہوتی ہے۔ قطعے میں مختلف شعروں کی تعداد دو سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے مگر رباعی میں ایسا ممکن نہیں رباعی میں صرف دو شعر یا چار مصرعو ں ہیں کی گنجائش رہتی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ رباعی کے پہلے ، دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ و ہم ردیف ہونے ہی چاہیے یہ رباعی کی اہم شرائط ہیں۔
رباعی کی خاص پہچان
رباعی کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس کہ لیے ایک خاص بحر بھی مقرر کیا گیا ہے جب کہ قطعے کے لیے ایسی کوئی خاص بندش نہیں ہوتی ۔رباعی کے متعلق کچھ اور اہم باتیں جان لینا ضروری ہے۔رباعی میں جو بھی مضمون یا جس کسی خیال کو پیش کیا جائے وہ بالکل اچھوتا ہو اور اس میں بلند خیالی بائی جائے۔اس کا انداز بیان دلکش اور پرکشش ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ رباعی کا چوتھا یا آخری مصرع باقی مصروں سے زیادہ پر زور ہو اور ایسا محسوس ہو کہ رباعی کا پورا مضمون اور مطلب اس میں سمٹ آیا ہے۔
رباعی کی ابتداء
اردو شاعری کی دوسری اصناف کی طرح رباعیاں بھی شروع ہی سے کہی جانے لگی تھیں ۔١٧٠٠ ء میں ایک دکنی شاعر میر عبدلقادر نے اردو کی پہلی رباعی کہی ۔شعراء دہلی نے بھی اس طرف توجہ کی ۔چنانچہ میرؔ ، دردؔ ، سوداؔ، میر حسنؔ ، مصحفیؔ، جراتؔ ، انشاءؔ، مومنؔ ، غالبؔ وغیرہ تقریباً تمام شعراء نے شاندار،دلکش اور پرکشش عمدہ رباعیاں کہیں۔
رباعی کی مقبولیت
انیسؔ و دبیرؔ نے اس طرف خاص توجہ دی ۔یہ دونوں مرثیہ نگار مجلس میں مرثیہ پیش کرنے سے قبل سامعین کو متوجہ کرنے کے لیے پہلے چند رباعیاں پیش کرتے تھے ۔اس سے رباعی کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا اور روایت کو مقبولیت بھی ملی۔ ابھی تک رباعی میں بالعموم حسن و عشق کا مضمون ہوتا تھا اب اخلاق اور پند و نصیحت نے رباعی میں جگہ پائی ۔ان بزرگوں نے خصوصیت کے ساتھ اہل بیت کی مدح اور شان میں رباعیاں کہیں سانحہ کربلا پر اظہارِ غم کیا پھر اخلاق و نصیحت کے مضامین پیش کیے ۔
رباعی کے فروغ اور ترقی
رباعی کے فروغ اور ترقی میں خاص طور پر میر انیسؔ کی کوششوں کابڑا دخل ہے ۔ان کے مرثیوں کی طرح ان کے روبا عیاں بھی بہت بلند پایا کی ہیں ۔انیسؔ کے بعد ان کی پیروی میں متعدد شعراء نے رباعیاں کہیں ۔پیارے صاحب رشید نے روبا عی کی طرف خاص طور پر دھیان دیا ۔ مغرب کے اثر سے شاعری میں مقصدیت پر زور دیا جانے لگا تو حالیؔ اور اکبرؔ نے رباعی کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا اور اس سے درس اخلاق کا کام لیا ۔حالیؔ کی اخلاقی روبا عیاں بہت مقبول ہوئیں ۔اکبرؔ طنز نگار تھے اور طنز نگاری سے سماج کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔
طنزیہ روباعیاں
اکبر نے اصلاح کے نقطہ نظر سے طنزیہ روباعیاں کہ کر اس صنف کو مزید وسعت دی ۔اسی دور میں جگت موہن لال رواںؔ انّا وی کی رباعیوں نے قدر شناسوں سے خراج تحسین وصول کیا ۔اقبال نے بھی رباعی کے ذریعے اپنے مخصوص پیغام کو قارئین تک پہنچایا ۔
رباعی ایک مفید اور دلکش صنفِ سخن ہے
دورِ حاضر کے شعراء اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ رباعی ایک مفید اور دلکش صنفِ سخن ہے اور اختصار اس کی سب سے بڑی خوبی ہےچنا نچہ ہمارے عہد کے شعراء نے اس صنفِ سخن کو بھی وسیلہ اظہار بنایا ہے ۔ان میں یگانہ چنگیزی ،جوش ملیحآبادی ،امجد حیدرآبادی ،آسیؔ سکندر پوری ،شفیق جو نپوری اور فراق گورکھ پوری قابل ذکر ہیں ،رباعی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خوں نا بہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ مہلتِ کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے