رباعی کی بحر
تحریر: شہزاد احمد شاذ
رباعی کے بارے میں بات کرتے ہوئے عام طور پر عنوان باندھا جاتا ہے؛- "رباعی کے چوبیس اوزان"
پھر موضوع پر بات شروع کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ "رباعی کے مخصوص چوبیس اوزان ہیں۔ رباعی کے چار مصرعوں میں سے کوئی مصرع اگر ان چوبیس اوزان سے باہر ہو گا تو وہ رباعی نہیں کہلائے گی۔"
اگرچہ یہ حقیقت ہے۔ لیکن اس اسلوب سے نئے شاعر کے ذہن میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ شاید رباعی کہنے کے لیے ان چوبیس اوزان کا یاد کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ رباعی کہنے کے لئے ایک وزن کا علم ہونا بھی کافی ہے۔ میں نے جب پہلی بار رباعی سے متعلق تفصیلات پڑھی تھیں تو میرے ذہن میں بھی یہی خیال آیا تھا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ میرے جیسا سہل پسند شخص تو کبھی رباعی نہیں کہے گا۔
میرا خیال ہے رباعی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رباعی کی ایک بحر بتائی جاتی اور پھر اس میں موجود احتمالات کا تذکرہ کیا جاتا کہ فلاں رکن کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ کسی بحر میں احتمالات کا موجود ہونا اس کے مشکل ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ آسان ہونے کی دلیل ہے۔ کسی بحر پر مشق کرتے ہوئے کلام میں زیادہ اوزان کے جمع کرنے کا جواز، شاعر کو خیال پیش کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔
بہرحال اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ عروضی مباحث سے قطع نظر ہم رباعی کے اوزان کو "فعلن" کی بنیاد پر سمجھتے ہیں اور عروضی اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے محض تین سطروں میں بحر میں موجود گنجائشیں بھی سمجھتے ہیں۔ اگر آپ اسے ذہن نشین کر لیں تو بڑی آسانی سے رباعی کہہ سکیں گے اور آپ کا کوئی مصرع رباعی کے اوزان سے(جنھیں رباعی کے چوبیس اوزان کہا جاتا ہے۔) باہر بھی نہیں جائے گا۔
رباعی کی بحر ہے:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
یعنی پانچ بار فعلن۔
ان میں سے پہلے اور چوتھے فعلن میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جا سکتا۔
(1) دوسرے اور پانچویں فعلن کو فَعِلن کر سکتے ہیں۔ یعنی دد سے ااد
(2) تیسرے فعلن کو فعلُنُ یا فعول کر سکتے ہیں۔ یعنی دد سے داا یا پھر ادا
(3) کسی بھی مصرعے کے آخر میں ایک حرف ساکن کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
نوٹ: عروض میں فعلُنُ کوئی رکن نہیں ہے۔ یہ رکن میر کی ہندی بحر کی آسان تفہیم کے لیے وضع کیا تھا جو یہاں بھی کام آ گیا۔
مندرجہ بالا بحر اور اس میں موجود اختیارات کو یاد رکھنا مشکل تو نہیں لیکن پھر بھی حسب روایت ایک رباعی بھی لکھ دی ہے۔
اوزان رباعی کے سمجھ، مت ہو ملول
بالفرض جو بحر پانچ فعلن ہو قبول
جائز ہے کہ دوم اور پنجم فَعِلن
اور سوم کو تُو فعلُنُ کر لے یا فعول
مندرجہ بالا تین اختیارات کو مختلف طریقوں سے برتیں تو جو اوزان حاصل ہوتے ہیں ان کی تعداد چوبیس بنتی ہے۔ آپ مذکورہ بالا تین اختیارات میں سے جس کو چاہیں استعمال کریں جس کو چاہیں استعمال نہ کریں آپ کے مصرعے چوبیس اوزان سے باہر نہیں جائیں گے۔
رباعی کی ایک اور بحر
کیا آپ نے "بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف" میں مشق کر رکھی ہے؟ نام کو چھوڑیں بحر کے افاعیل پر غور کریں افاعیل ہیں "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" اگر اس بحر پر ابھی تک کچھ نہیں لکھا تو اس شعر کو پڑھتے ہوئے ردھم کو سمجھ سکتے ہیں۔
وہ دشمنِ جاں جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں؟ کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
(احمد فراز)
اب اگر "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" کے آخر سے لُن کو ہٹا دیں یعنی بحر سے ایک ہجا کم کر دیں تو باقی رہ جانے والا وزن رباعی کے ایک وزن کے بالکل برابر ہے۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو
فعلن فَعِلن فعلُنُ فعلن فَعِلن
احمد فراز کے مذکورہ بالا شعر میں اگر ہم "بھی" کو نکال دیں اور "تھا" کو اس کی جگہ لے آئیں تو یوں ایک ہجا کم ہونے سے شعر رباعی کے وزن میں آ جائے گا۔
وہ دشمنِ جاں جان سے پیارا تھا کبھی
اب کس سے کہیں؟ کوئی ہمارا تھا کبھی
آپ اسی وزن کو رباعی کی بحر مان کر ہزاروں رباعیاں اسی ایک وزن میں کہہ سکتے ہیں۔ میری ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
کہنی ہے رباعی، سو پریشان ہے تُو
مشکل تو نہیں، کیوں تُو جلاتا ہے لہو
اک وزن رباعی کا مگر یاد رہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو
اور اگر اسی بحر کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں موجود گنجائش کو استعمال کرنا چاہیں تو اسے سمجھنے کے لیے بحر اور اس کا علامتی اظہار ملاحظہ فرمائیں۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو
د۔۔۔د۔ا،۔ا۔د۔۔د۔۔ا،۔ا۔د۔د۔۔ا،۔ا۔د
اب بحر کے علامتی وزن پر غور کریں تو تین جگہ دو دو ہجائے کوتاہ جمع ہو رہے ہیں یعنی "اا" دو ہجائے کوتاہ کے مجموعے کو سببِ ثقیل اور ایک ہجائے بلند کو سببِ خفیف کہتے ہیں۔
پہلا اختیار
بحر میں موجود پہلے، دوسرے، تیسرے میں سے کسی ایک، یا کوئی سے دو، یا تینوں سببِ ثقیل کو سبب خفیف سے بدل سکتے ہیں یعنی کسی بھی "اا" کو "د" سے۔
دوسرا اختیار
درمیان والے سببِ ثقیل میں اس سے پہلا سببِ خفیف شامل کر کے فعول بنا سکتے ہیں یعنی داا سے ادا۔ اس صورت میں بحر کا علامتی اظہار یوں ہو گا۔
د۔د۔ا،۔۔ا۔د۔ا۔۔د۔ا۔د۔د۔۔ا،۔ا۔د
مفعول مفاعلن مفاعیل فعو
یعنی اس اختیار کے استعمال سے دوسرا رکن مفاعیل سے مفاعلن بن جائے گا۔
تیسرا اختیار
کسی بھی مصرعے کے آخر میں ایک حرف ساکن کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا دو بحروں میں سے کسی ایک کو ذہن نشین کر لیں اور اس میں موجود اختیارات کو دو تین بار پڑھ کر اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر "رباعی شہزاد احمد کھرل" لکھ کر وڈیو لیکچر تلاش کر سکتے ہیں جس میں رباعی کے اوزان کو انگلیوں کے پوروں پر پرکھنے کا بھائی ارشد عزیز صاحب کا وضع کردہ طریقہ سمجھایا گیا ہے۔
رباعی سے متعلق مزید کچھ باتیں
رباعی ربع سے ہے جس کا معنی چار ہے۔ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں۔ اور ان چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ہوتا ہے۔ رباعی میں موضوع کی کوئی قید نہیں۔ تقریباً ہر موضوع پر رباعی کہی گئی ہے۔ کسی بھی موضوع پر مشق کی جا سکتی ہے۔
رباعی کے پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیے کی پابندی کی جائے گی اور اگر ردیف کا انتخاب کیا گیا ہے تو ظاہر ہے ردیف بھی لائی جائے گی۔ تیسرے مصرعے سے متعلق شاعر کو اختیار ہے کہ اس میں بھی قافیہ ردیف لانا چاہے تو لا سکتا ہے۔
رباعی کے چار مصرعوں میں ایک ہی مضمون ہونا چاہیے۔ اور مضمون پیش کرتے ہوئے پہلے دو مصرعوں میں تمہیدی حصہ لانا چاہیے اور تیسرے اور چوتھے مصرعے میں مضمون پوری طرح کھل جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر پہلے مصرعوں میں مضمون کھل جائے گا تو آخری مصرعے بے لطف ہو جائیں گے اور غیر ضروری محسوس ہوں گے۔
رباعی اور قطعہ میں فرق
چار مصرعوں کے قطعے بھی کہے جاتے ہیں۔ انہیں رباعی سے الگ کس طرح پہچان سکتے ہیں اس کے لیے چند باتیں ذہن نشین کر لیں۔
سب سے پہلا اور بنیادی فرق اوزان کا ہے۔ رباعی مذکورہ بالا خاص اوزان میں کہی جاتی ہے جب کہ قطعہ کسی بھی وزن میں کہا جا سکتا ہے۔
رباعی میں چار مصرعے(دو اشعار) ہوتے ہیں قطعے میں کم سے کم دو اشعار ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں۔
رباعی میں پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے کا مقفیٰ ہونا ضروری ہے جب کہ قطعے میں پہلے مصرعے کا مقفیٰ ہونا ضروری نہیں۔
اب آپ رباعی کہنے کے لیے تیار ہیں۔ سب سے پہلے ایک موضوع کا انتخاب کریں۔ اس موضوع پر کیا کہنا چاہتے ہیں اس مضمون کو ذہن میں ترتیب دیں۔ پورے مضمون کا نچوڑ ایک مصرعے میں لکھیں۔ یہ رباعی کا چوتھا مصرع ہو گا اسی مصرعے کی بنیاد پر قافیے اور ردیف کا انتخاب کریں اور رباعی مکمل کریں۔
شہزاد احمد شاذ
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے