Ticker

6/recent/ticker-posts

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ Sar Par Rahe Aye Betiyon Har Aan Dupatta

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ

شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آج کل اسلام دشمن قوتوں نے عجیب پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس سے مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی مستورات خواتین اور بچیاں غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ یہ سمجتی ہیں کہ شاید ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے حالانکہ بات ہرگز ایسی نہیں ہے سب سے پہلی بات تو یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرتی ہے تو یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ عورت پردہ میں رہے تو اس کا فائدہ عورت کو بھی ہے مرد کو بھی۔


کتاب اللہ کے بعد اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ یقین کریں کہ پردہ کے بارے میں اس قدر احادیث ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کیسے حضور صلی اللہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں اور بے پردگی بھی کرتے ہیں عشق کے دعوے بھی کرتے ہیں اور زمانہ سازی کے لئے بہو بیٹیوں کو عریانیت کی اجازت بھی دیتے ہیں بلکہ بعض تو نماز بھی پڑھتے ہیں حج بھی کرتے ہیں صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں لیکن محض قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے طعنوں سے بچنے کے لیے بے غیرتی بھی کرتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا دستور تھا کہ دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانک کر باقی دوپٹہ کمر پر ڈال لیتی تھیں مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ اپنے دوپٹوں سے سر بھی ڈھانکیں اور گلے اور سینے پر ڈالے رہا کریں چونکہ صحابیات کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی نہ تھی کہ وہ نئے دوپٹے خریدتیں اس لیے انہوں نے اس حکم کو سن کر موٹی موٹی چادروں کے دوپٹے بنالیے اور ان سے اپنے گلوں اور سینوں کو بھی ڈھکنے لگی


حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قال المرأ ۃ عورۃ) عورت سر تا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے یعنی سر سے پاؤں تک عورت ستر ہے تو سر بھی ستر ہوا پس عورتیں ننگے سر نہ پھرا کریں کہ بے پردگی ہے (ترمذی)

کئی پردہ دار عورتیں برقع کے ساتھ باہر جاتی ہیں استانیہ اسکول جاتی ہیں جب گھر آتی ہیں تو ننگے سر گھر کا کام کاج کرتی ہیں اور ننگے سر پھرتی رہتی ہیں یہ حرام ہے سر چھپانے کی چیز ہے ستر ہے اسے مستور رکھا کریں گھر میں بھی ننگے سر نہ پھرا کریں یہ بات اکثر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے سخت کوفت کا موجب ہے بڑی جانکاہ ہے جگر خراش ہے اور اس سے ان پر اتنا بوجھ ہوگا کہ گویا ان کے دل پر ایک پہاڑ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں اسلام اسی بات کا نام ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کر دیا جائے اپنی خواہشات اور چاہت کو اسلام کے حکم کے آگے دبا دیا جائے نفس پر اسلام کے قانون اور حکم کا خنجر پھیر دیا جائے پھر مسلمان ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے سر نہ پھریں تو عورتوں کو خدا تعالی کا یہ حکم مان لینا چاہیے اللہ کے حکم کے آگے باتیں نہیں بنانا چاہیے اور نہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ احکام الہی سے منہ پھیر یں یا بے اعتنائی برتیں اور پھر یہ عاجز انسان جو ہر وقت اس کے رحم و کرم پر زندہ ہے چلتا پھرتا ہے اور سانس لیتا ہے خدا تعالی کے آگے دم مارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے بولتے ہیں خدا کے احکام کا نور پھیلاتے ہیں ہر عورت مرد کو اس نور میں گام فرسا رہنا چاہیے

حجاب اور پردے کا مقصد

حجاب اور پردے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر بےپردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ۔ حجاب کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور حضور صلی اللہ وسلم نے احادیث میں اس کی تفصیل بیان فرمائی اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب اہل مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کر دیا ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنادیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟ یاد رکھیں جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتقاد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے کوئی طعنے دیتا ہے تو دیا کرے یہ طعنے تو مسلمان کے گلے کا زیور ہیں انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا میں تشریف لائے کیا انہوں نے کچھ کم طعنے سہے؟ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیئے گئے کہ یہ تو پسماندہ لوگ ہیں یہ قیانوس اور رجعت پسند ہیں یہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں یہ سارے طعنے انبیاء کو دیے گئے اور ہم آپ جب مومن ہیں تو انبیاء کے وارث ہیں جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی یہ طعنے بھی ملیں گے کیا ان طعنوں سے گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان ہے تو پھر ان طعنوں کو سننے کے لیے کمر کو مضبوط کر کے بیٹھنا ہوگا (اصلاحی خطبات)


ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اور میمونہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم ( نابینا) سامنے سے آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے پاس آنے لگے چونکہ عبداللہ نابینا تھے اس لئے ہم دونوں نے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو تو وہ دیکھ نہیں رہے ہیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو دیکھ نہیں رہی ہو ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہوسکے مردوں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے حضرت عبداللہ نابینا تھے پاکباز صحابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویاں نہایت پاک دامن تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے دونوں بیویوں کو حکم فرمایا کہ عبداللہ سے پردہ کریں یعنی ان پر نظر نہ ڈالیں اسلام میں مرد و زن کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں تاک جھانک نہ کریں نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ مرد اسے دیکھ ہی نہ سکے اگر عورتیں بے پردہ رہیں گی تو وہ صورتحال پیش آۓ گی جسے کسی دل جلے شاعر نے بیان کیا ہے

Sar Par Rahe Aye Betiyon Har Aan Dupatta

سبھی مجھ کو کہتے ہیں نظریں نیچی رکھ اپنی
کوئی ان کو نہیں کہتا نہ نکلیں یوں بے حجاب ہوکر


آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستورہ ہے سارا جسم اس کا ستر ہے جسے ڈھانکنا ضروری ہے اب تو کئی عورتیں کہہ دیں گی کہ یہ پردہ تو پنجرہ ہے جس میں ہم کو قید کر دیا گیا ہے یاد رکھیں کہ اللہ تعالی عورتوں کا خالق ہے وہ ان کی طبیعت مزاج اور جبلت کو خوب جانتا ہے اس نے اپنے علم اور حکمت سے عورتوں کے لیے یہ پردہ کا حکم نازل فرمایا ہے جو قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے بسر و چشم قبول کیا اور دین اور دنیا کی خوبیاں اور بھلائیاں سمیٹ کر لے گئیں تاریخ ان کی روحوں پر تحسین اور آفرین کے پھول برساتی ہیں آج اگر عورتیں اپنی خواہش نفس اور ماحول کی کشش اور رواج اور فیشن کی نیلم پری کو خدا تعالی کے حکم کی چھری سے ذبح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پردے کو اپنا لیں تو ان کے اولیاء اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیطان مایوس ہو گیا تھا کہ اس کی پرستش کی جائے وحی کے نزول کے سامنے اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی لیکن آج ابلیس مع اپنی ذریت کے ننگا ناچ رہا ہے تمام دنیا فسق و فجور اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہے آج اگر عورتیں شرم و حیا کازلال پی کر پردہ قبول کرلیں تو فرشتے ان پر رحمتوں کے پھول برسائیں اور حوروں کی عفت انہیں سلام کرے اور یہ اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے پائیں۔

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
ہے خانہ نشینوں کی حسیں شان دوپٹہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے