" نگاہِ عشق و مستی میں وہی (ﷺ) اول وہی آخر "
کہیں عمر رسول ﷺ کی عمر مبارک سے زیادہ نہ ہو جائے
محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
9506600725
شاعر مشرق علامہ اقبال رح کے گھر اکثر حاضری دینے والے حکیم احمد شجاع، ایک دن ان کے یہاں گئے تو دیکھا کہ علامہ اقبال بے حد غمزدہ، افسردہ اور پریشان ہیں۔ حکیم صاحب نے پوچھا، ,,آج آپ خلاف معمول اس درجہ پریشان کیوں ہیں؟,, علامہ کی آنکھیں بھر آئیں اور آواز بھرا گئی۔ انتہائی غمزدہ اور افسردہ لہجے میں کہا، ، احمد شجاع! اکثر یہ سوچ کر مضطرب بے چین اور پریشان ہوجاتا ہوں کہ کہیں عمر حضورﷺ کی عمر سے زیادہ نہ ہوجائے، ،۔ ۲۱/اپریل۱۹۳۸ء کو آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر اکسٹھ برس سے کچھ کم تھی۔ حضور ﷺ سے ایسی محبت و عقیدت اسی شاخ دل پر اپنا آشیانہ بناتی ہے، جس کے مقدر میں یہ سعادت ازل سے لکھ دی گئی ہو۔ کس عالم سرشاری میں اقبال کہتے ہیں:
اے زمیں از بارگاہت ارجمند
آسماں از بوسہ بامت بلند
شش جہت روشن زتاب روئے تو
ترک و تاجیک و عرب بندوئے تو
ترجمہ /آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں کہ اس زمین نے آپ کی بارگاہِ ناز سے ہی سے خوش بختی حاصل کی ہے۔
آسمان آپ کی بارگاہ کے بام و در کو بوسہ دے کر ان بلندیوں کو پہنچا۔
کائنات کا گوشہ گوشہ آپ ہی کے رخ انور کی تابانی سے روشن ہیں۔
ترک ہوں یا تاجک یا عرب سب آپ کے در کے غلام ہیں۔ (وحدت جدید، جنوری، تا مارچ شمارہ ۲۰۱۱ء)
ڈاکٹر محمد اقبال کی پوری زندگی عشق رسول محبت نبی کریمﷺ اور یاد مدینہ سے معمور تھی، ان کا زندہ جاوید کلام، ان چیزوں کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے،۔۔ ان کے نزدیک محمد ﷺ سے وفاداری اور ان سے محبت میں استواری شرط ایمان ہے وہ کہتے ہیں۔
کی محمدﷺ سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
ایک دوسری جگہ اپنی محبت نبی اور عشق رسول ﷺ کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یسیں وہی طہ
نقوش اقبال میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک موقع پر نواب بھوپال کی دعوت پر آپ بھوپال تشریف لائے تھے، نواب صاحب نے ان کے قیام و طعام کا بہت مناسب اور شاہانہ اندازا میں انتظام کیا تھا اور بڑی خاطر مدارت کی تھی، مہمان خانہ میں قیام تھا، نرم گداز بستر اور گدے اور تکیے کا انتظام تھا، ایک رات اندھیرے میں نواب صاحب مہمان خانہ آئے تاکہ جائزہ لیں کہ مہمان مکرم آرام سے ہیں یا نہیں، کہیں کوئی دقت تو نہیں ہے؟ تودیکھا کہ اقبال مرحوم پلنگ اور دیوان کے بجائے نیچے فرش پر سوئے ہوئے ہیں، دوسرے دن نواب صاحب سے خیریت معلوم کی، تو بتایا کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی، پلنگ اور گدے پر ہی آرام کر رہا تھا کہ اچانک پیارے آقاﷺ کی یاد آگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر سوتے تھے اور آپ کے جسم اطہر پر اس چٹائی کے نشانات پڑ جاتے تھے، بس اس تذکرے سے نیند اڑ گئی اورگدے سے نیچے زمین پر آگیا۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اقبال مرحوم کے عشق رسول کے حوالے سے لکھتے ہیں :
اقبال مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں یہ پیمانہ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینہ کا نام آتے ہی اشک محبت بے ساختہ جاری ہوجاتے، وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ یقینا مدینہ الرسول میں حاضر نہ ہوسکے، لیکن اپنے مشاق اور بے تاب دل، نیز اپنی قوت تخیل اور زور کلام کے ساتھ انہوں نے حجاز کی وجد انگیز فضاءوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائر فکر ہمیشہ اسی آشیانہ یا آستانہ پر منڈلاتا رہا، انہوں نے رسول ﷺ کے حضور میں اپنے دل، اپنی محبت، اپنے اخلاص اور اپنی وفا کی نذر پیش کی اورآپ ﷺ کو مخاطب کرکے اپنے جذبات و احساسات، اپنی ملت اور اپنے معاشرے کی دلگداز تصویر کھینچ کر رکھ دی، ایسے مواقع پر ان کے جوہر شاعری خوب کھلتے تھے، اور معانی کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے، وہ حقائق جن کی زمام مضبوطی سے انہوں نے گرفت میں رکھی تھی، اس وقت بے حجاب و بے نقاب ہوکر سامنے آتے اور اپنا خوب رنگ دکھاتے۔
بحر فے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از شوق حضوری طول دادم داستانے را
اس موضوع پر ان کا کلام سب سے زیادہ جاندار، طاقتور، موثر، انکے جذبات کی صحیح ترجمانی، ان کے تجربات کا نچوڑ، ان کے عہد کی تصویر اور ان کے نازک ترین احساسات کا آئنیہ دار ہے۔( مستفاد از کاروان مدینہ صفحہ ۱۰۵)
اقبال مرحوم نے ہمیشہ جدید تمدن اور تہذیب و ثقافت کے پرستاروں اور قومیت کے دلدادہ عربوں کو اپنے اصل مرکز اور مہبط رسول ﷺ کی طرف واپسی کی دعوت دیتے رہے، ان کے اس پیغام اور دعوت کی تشریح اس شعر میں موجود ہے کہ
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
0 تبصرے