Ticker

6/recent/ticker-posts

قرآن کتاب امن و انصاف ہے | Quran Kitab e Aman O Insaaf Hai

قرآن کتاب امن و انصاف ہے | Quran Kitab e Aman O Insaaf Hai

قرآن دستور حیات ہے، جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ یہ ہر معاملے میں ایک متوازن قانون کی کتاب ہے اور پورے طور پر انسانوں کی صحیح راہنمائی کے لیے ایک خدائی منشور اور گائڈلائن ہے۔یہ کتاب الہی دنیا کو ظلم و زیادتی، حیوانیت و بربریت، قتل و خونریزی اور دہشت گردی و غارت گری سے پاک کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کے فیوض و برکات آج تک جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔

قرآن ٢٣ سال کی مدت میں نازل ہوا

قرآن ٢٣ سال کی مدت میں نازل ہوا، جس میں وحی الٰہی کا اسی فیصد (٨٠٪) حصہ١٣ سالہ مکی دور میں نازل ہوا۔ اس درمیان مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے گئے، انہیں بے انتہا اذیتوں میں مبتلا کیا گیا۔بعض شہید بھی ہوئے۔لیکن ان حالات میں بھی مسلمانوں نے قرآن مقدس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نہ ان ظالموں پر ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی انتقام لیا، بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے، انہیں معاف کرتے رہے۔ اور ان کی بھلائی کی دعائیں اور کوششیں کرتے رہے۔حتی کہ جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو ان مظلوم مسلمانوں نے قرآن مقدس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنا گھر بار، مال و دولت اور وطن عزیز کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت‌ کی، لیکن کسی سے انتقام نہیں لیا۔کیا اس سے زیادہ عدم تشدد کی مثال دنیا کی معلوم تاریخ میں ہے؟۔ یہ قرآن مقدس کا اعجاز ہے کہ مسلمان ظلم سہتے رہے اور اف تک نہ کیا، کیوں کہ اسلام و قرآن ایک مومن کے دل و دماغ میں مدعو قوم کے لیے اصلاح کی تڑپ پیدا کرتا ہے نہ کہ انتقام و بالادستی کی، گمراہوں کے تئیں خیرخواہی اور بھلائی کے جذبات کی نمایندگی کرتا ہے نہ کہ ان پر غلبے اور حکمرانی کا۔اور اسی لیے اسلام کا حقیقی میدان جہاد دل و دماغ ہے جسے فتح کرکے ایک اللہ کے تابع کیا جاتا ہے۔


صرف آٹھ سال کے بعد جب مسلمان اسی مکہ مکرمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو مکہ کے تمام ظالموں کو معاف کر دیا۔ فتح مکہ اس طرح سے رو پزیر ہوا کہ نہ اس میں کسی کا قتل ہوا نہ کوئی شہید ہوا، بلکہ بغیر کسی خون خرابے کے یہ عظیم الشان فتح حاصل ہوا۔ یہ بھی قرآنی درس کا نتیجہ تھا۔

ہجرت کے بعد دس سالوں میں قرآن کا بقیہ حصہ نازل ہوا 

ہجرت کے بعد دس سالوں میں جو قرآن کا بقیہ حصہ نازل ہوا اس میں بھی عفوو درگزر کے احکامات ہی زیادہ ہیں۔ تاہم نیکیوں کی دعوت اور اس پر استقامت کی راہ میں حائل اور مخل عناصر کے خلاف سیلف ڈیفنس میں جہاد و قتال کی آیتیں بھی نازل ہوئیں ہیں، جو ایک ترقی پذیر نظام حکومت کے لیے ناگزیر تھیں۔ اسی طرح زجرو توبیخ اور نظام جرم و سزا کے احکامات نازل ہوے، کیوں کہ ایک مستقل اور پائیدار نظام عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے تعزیرات و حدود کے قوانین کی ضرورت تھی۔ اور اس امن و استحکام کو وسعت دینے کے لیے اور امن و آشتی کے خدائی نظام کو ضرورت مند دنیا تک پہنچانے کے خاطر جہد مسلسل کی تعلیم دی گئی جسے اصطلاح عام میں جہاد و قتال کہتے ہیں۔ قیام امن کے خاطر اور سرکشوں کی سرکوبی کے ساتھ ظلم و جبروت کے خاتمے اور امن و سلامتی کے احیاء کے لیے ہی سراپا قرآن اتارا گیا ہے۔


دس سالہ مدنی دور میں تقریبا ٨١ چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں، جس میں سے ٢٧/ غزوات میں رسول رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے، اور سبھی کی سبھی جنگیں دفاع میں اور سرکشوں کی سرکوبی کے لیے لڑی گئی تھیں۔ اور اس مختصر سی مدت میں اسلامی حکومت تقریبا دس لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی۔یعنی پورے خطہ عرب اور فلسطین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوچکا تھا۔ واضح رہے یہ وہ علاقہ تھا جس میں بسنے والی قوم ہر لمحہ قتل و غارت گری میں مصروف رہا کرتی تھی۔ایک چھوٹی سی غلطی کے لیے بھی پشتہا پشت تک قتل و خون کا بازار گرم رہتا تھا۔عفو و درگزر جس قوم میں ناپید تھی۔ ظلم و بربریت ان کی عادت و خصلت تھی۔انہی جنگجو قوموں سے ٨١/مدافعاتی اور فتنہ و فساد اور دہشت و بربریت کے خاتمے کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات کے ذریعہ ان کے عادات قبیحہ و شقیہ کو حسن اخلاق میں بدل دیا جاتا ہے۔پتھریلی سرزمین کے پتھر دل انسانوں کو موم بنا دینا کلام الٰہی کی تاثیر اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ہی ممکن تھا۔


اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریا کردیا

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گیے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

ایک وسیع و عریض خطۂ ارض پہ اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔اور پھر اس قرآنی حسن تدبیر سے ایک ایسا انقلاب آیا جس کے نتیجے میں جو عظیم حکومت بنی، اس میں مسلمان شہیدوں کی تعداد صرف ٢٥٩/ تھی، جبکہ غیر مسلم مقتولین کی تعداد بھی صرف ٧٥٩/ ہے۔ یعنی دنیا میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوا اور صرف دس سو اٹھارہ لوگوں کی جان گئی۔یہ دنیا میں عدم تشدد کی ایسی مثال ہے جس نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اس غیر متشدد قرآنی اور اسلامی تحریک نے صرف مزید اگلے تیس سالوں میں جسے خلافت راشدہ کا دور کہا جاتا ہے، دنیا کے بیشتر حصے میں امن و اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اور وہ پورا علاقہ امن و سکون کا گہوارہ بن گیا۔


کچھ نا سمجھ لوگ قرآن مقدس کی کچھ آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان آیات میں تشدد اور عدم مساوات کی تعلیم دی گئی ہے، جبکہ یہ آیتیں قیام امن کے لیے حدود و تعزیرات کی آیتیں ہیں یا دفع ضرر کے لیے دفاع کی۔ ان آیتوں میں(١) جہاد کے تعلق سے 12 آیتیں ہیں. (٢)غیر مسلموں سے دوستی نہ رکھنے کے تعلق سے 6 آیتیں ہیں۔ اور غیر مسلموں پر عذاب کے تعلق سے 8 آیتیں ہیں۔
 

غیر مسلموں کو ولی نہ بنانے کے احکامات والی آیات

معلوم دنیا میں ایسا کوئی ملک یا ادارہ نہیں ہے جو اپنے دشمن ملک یا یقینی دشمنوں سے دوستی کرنے یا رکھنے کی اجازت دیتا ہو۔ کیا ہندوستان کا قانون کسی آفیسر یا کارندہ کو پاکستان کے کسی افسر یا کارندے کے ساتھ دوستی کرنے یا رکھنے کی اجازت دیتا ہے؟ نہیں دیتا ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ ایسا کرنا ملک سے غداری ہو گی، ملک سے بغاوت ہو گی۔ اور دنیا کا کوئی بھی ملک قوم کے غدار اور باغی کو قبول نہیں کرتا۔


غیر مسلموں پر عذاب والی آیات کے بارے میں

ایسا ہی اگر قرآن مقدس کو پڑھا جائے تو یہ نہیں کہ قرآن میں صرف غیر مسلموں کو ہی عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ بلکہ سیکڑوں آیتیں ایسی ہیں جس میں مسلمانوں کو عذاب اور سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ گناہوں سے بچنے اور نیکیوں پر گامزن رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اچھائیوں کی حوصلہ افزائی ہو اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کرنے والوں کو انعام و اکرام کی بشارت دی جائے۔ اور جو انسانیت، ملک، قوم، وسماج کے دشمن ہیں جو امن و امان کے لیے خطرہ ہوں انہیں عذاب آخرت کے ساتھ دنیا کی ہلاکت و تباہی سے ڈرایا جائے اور یہ کام دنیا کے ہر مذہب نے کیا ہے اور ہر مذہبی کتاب میں اس طرح کے احکامات موجود ہیں۔


جہاد کی آیتوں کے بارے میں

جہاد کی ان بارہ آیتوں میں سورہ توبہ کی آیت ١ تا ٦ جس کے بارے میں معترض کا سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ اس کے تعلق سے چند باتیں عرض کرتا ہوں ان شاء اللہ سارے اعتراضات کا جواب مل جائے گا۔

یہ آیت کریمہ فتح مکہ کے تقریبا ١٤/ ماہ بعد نازل ہوئی۔ یعنی ٩ ہجری کے ایام حج کے موقع پر۔ اور ان آیات کے احکامات کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھیں کہ مسلمان فاتح تھے۔ اور ایک فاتح قوم نے ایک مفتوح قوم کو آزادانہ طور پر اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لیے چودہ ماہ کی مہلت دی۔ اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ خطۂ عرب کے سبھی لوگ اس زمانے میں کثرت سے حج کرتے تھے، خواہ وہ اسلام کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ ان کے لیے یہ ایک عظیم تہوار تھا۔ فتح مکہ کے صرف دو ماہ بعد جو پہلا حج مسلمانوں کے اقتدار میں ہوا اس میں کوئی اصلاح کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ ہر ایک کو آزاد ی تھی کہ وہ اپنے اپنے رسم و رواج پر حج ادا کریں۔ اہل ایمان اپنے طور پر حج ادا کریں اور کفار و مشرکین اپنے طور پر ادا کریں۔ پھر جب دوسرا حج سن ٩/ہجری میں آیا تو یہ حکم دیا گیا کہ مسلمان حضرات حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی احکامات کے مطابق حج کریں گے اور کفار و مشرکین کو اس وقت بھی یہ آزادی دی گئی کہ وہ حالت کفروشرک میں اپنے طور پر حج ادا کریں۔ یعنی فتح مکہ کے بعد تقریبا 14 ماہ گزر گئے پھر بھی کفار و مشرکین کو آزادانہ طور پر اپنے رسم و رواج کے ساتھ حج کرنے کی اجازت تھی۔ ٹھیک انہی ایام میں سورہ توبہ کی مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں جس میں مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا اور کہا گیا کہ آئندہ چار ماہ میں اسلام اور قرآن کو سمجھ کر اگر اچھا لگے تو اسلام قبول کرلو اور اسلام قبول نہیں کرنا ہے تو یہ عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت ہے اسے تسلیم کر لو اور مزید مہلت حاصل کر لو اور اگر یہ دونوں باتیں پسند نہیں ہیں تو اس چار ماہ کے اندر اسلامی حکومت کے حدود سے ہجرت کر جاؤ۔ لیکن جو لوگ ان میں سے کسی بات کو تسلیم نہیں کرتےاور اسلام و مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدام کرتے رہیں گے اور نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتے رہیں گے تو اب ایسے لوگوں کے لیے حکم دیا گیا کہ مہلت کی مدت گزر جانے کے بعد اسلام کے خلاف لڑنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ بلکہ ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی سنایا گیا کہ آئندہ سال سے اب کوئی کافرومشرک حج نہیں کرےگا۔ ان آیات کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایام حج میں مکہ آئے اور انھوں نے حج کے ہر اجتماع میں اس کو تمام حجاج کو سنادیا۔ وہ آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ کریں۔


فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ(2)

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ-فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(3)

اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(4)

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ-فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)

وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ(6)


ترجمہ: پس چار مہینے زمین میں چلو پھرو۔ اور جان لو کہ تم لوگ اللہ تعالی کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اور بے شک اللہ تعالی حق کے انکار کرنے والوں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حج اکبر کے دن اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر انکار کرتے ہو تو جان جاؤ کہ تم اللہ تعالی کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔ سوائے ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدہ کیا۔ پھرانہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی۔ اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ معاہدہ کی مدت تک وفا کرو۔ کیوں کہ اللہ تعالی متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ پس جب حرام کے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو قتل کرو انہیں جہاں پاؤ۔ اور انہیں پکڑ کر قید کر لو۔ اور گھات میں ان کے لئے بیٹھو۔
 (سورہ توبہ آیت نمبر 2 تا 6)


اس کے علاوہ جہاد کے تعلق سے جو بھی آیتیں ہیں ان سب کا پس منظر ایسا ہی ہے۔

کفار و مشرکین سے دوستی نہیں کرنے کے بارے میں۔

ظاہر ہے دنیا کی کوئی حکومت یا دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو اس بات کی اجازت دیتا ہو کہ وہ اس ملک کے باغیوں اور غداروں سے دوستی کریں۔ بلکہ مہذب سے مہذب حکومت بھی باغی مجرمین کے ساتھ دوستی کرنے سے روکتی ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو بھی مجرم قرار دیتی ہے۔ واضح رہے کہ قرآن اسلامی حکومت کے لیے قانون کی کتاب ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ انہیں کلی طور پرمعتمد علیہ بنانے سے روکا ہے، لیکن ان کے ساتھ حسن سلوک اور انسانی مراسم قائم کرنے سے نہیں روکا۔ اور جہاں تک آیات عذاب کا تعلق ہے تو نیکیوں کی ترغیب اور گناہوں سے بچنے کے لیے کفار و مشرکین سے زیادہ مسلمانوں کے لیے عذاب شدید کی وعیدیں ہیں۔ اور اس طرح کی ترغیبی احکامات دنیا کے ہر مذہب اور ہر مذہبی کتابوں میں موجود ہیں۔ تاکہ یہ انسان انسانیت کا علمبردار بن کر انسان کامل بن جائے۔ اور پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اسلام اور قرآن کا منشا ہی یہی ہے کہ پوری دنیا امن و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔

قرآن کے تعلق سے مسلمانوں کا عقیدہ

پوری دنیا میں صرف قرآن مقدس ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی حیثیت "لا ریب فیہ" کی ہے۔ اور بے شک قرآن مقدس ہر طرح کی عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ اس کے صحیح ہونے پر جیسا کہ وہ ہے ایمان لانا فرض ہے۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں ہے جس کی صحت پر ایمان لانا فرض و واجب ہو۔ کہ ہم اگر اس کی تصدیق نہ کریں تو مومن ہی نہ رہیں۔ کلمہ گو مسلمانوں کے متعدد گروپس ا یسے ہیں جو قرآن مقدس کے علاوہ بھی کچھ غیر آسمانی کتابوں کے بارے میں اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کو ایمان کی شرط قرار دیتے ہیں، جو سراسر غلط ہے۔
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے