Ticker

6/recent/ticker-posts

قرۃالعین حیدر کے افسانے اور حقوق انسانی کے مسائل

قرۃالعین حیدر کے افسانے اور حقوق انسانی کے مسائل

شاہد حبیب
فکشن نام ہے پروازیئے تخیل کا اور اس تخیل کے ساتھ جب عصری حسیت کی آمیزش ہوتی ہے تو اس کی شناخت قرۃالعین کے فن سے کی جاتی ہے۔ قرۃالعین حیدر (۲۰۰۷۔۱۹۲۷) اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں اور اپنی عصری حسیت کی وجہ سے ہر دور میں ناقدین اور باذوق قارئین کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ عینی کے ناولوں کو تو بہت جلد عالمی شہرت حاصل ہو گئی تھی لیکن ان کے افسانوں کے قارئین بھی دیر سویر ہی سہی، لیکن ان کی فنکاری کے معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چونکہ عینی کا مطالعہ ٔ حیات اور مشاہدۂ زندگی بہت وسیع ہے، اس لیے علامتی پیرائے میں اپنی باتیں کہنے کے باوجود انہوں نے بارہا ایسے موضوعات کا انتخاب کیاجو کسی نہ کسی انداز میں انسان کی زندگی کو منفی طور سے متاثر کر رہی تھیں۔ اس میں ایسی باتیں بھی آ گئیں ہیں جو بلا شک و شبہ کے حقوق انسانی سے متعلق کہی جا سکتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم عینی کے ان ہی افسانوں کا جائزہ لیںگے جن کا تانا بانا انسانی حقوق کے ارد گرد بنا گیا محسوس ہو رہا ہے۔


Qurat Ul Ain Haider Ke Afsane Aur Huqooq e Insani Ke Masail

حقوق انسانی سے ہماری کیا مراد ہے اسے جاننا ضروری ہے

اس بات سے ہم سبھی واقف ہیںکہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو فطرت کی طرف سے عائد کردہ کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کو وہ پوری طرح سے ادا کرسکے، اس کے لیے فطرت نے ضرورت کی تمام چیزیں اسے ودیعت کر رکھی ہیں، لیکن طاقتورطبقہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے اپنے سے کمزوروں کے اختیارات میں دخل اندازی کرتا ہے۔یہ کام کبھی ایک فرد کرتاہے توکبھی گاؤں اور سماج، کبھی سرکاریں تو کبھی بین الاقوامی برادری ۔چوں کہ ایک انسان بیک وقت انفرادی زندگی، اجتماعی زندگی، قومی زندگی اور بین الاقوامی زندگی جی رہا ہوتا ہے، اس لیے ان میں سے کوئی ایک بھی انسانی زندگی میں کسی بھی طرح دخل اندازی کی کوشش کرتا ہے تواس کی زندگی کی گاڑی تو پٹری سے اترتی ہی ہے ساتھ ہی بقیہ تینوں اداروں کا نظام بھی درہم برہم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ ادارے جس انداز سے کسی فرد کی زندگی کے کسی بھی گوشے میں مداخلت کرتے ہیںاسی طور خود بھی مضمحل اور کمزور ہوتے ہیں لیکن اس بات کوبہت ہی کم سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کوئی سماج، سرکار یا بین الاقوامی برادری کسی انسان کے ان حقوق کو چھیننے کی کوشش کرتی ہے جو اسے فطرت نے پیدائش کے ساتھ ہی ودیعت کر دیا تھاتو اس کی گرتی اینٹیں ان اداروں کو بھی کمزور کرنے کا ہی کام کرتی ہیں ۔ عینی کے چار افسانوی مجموعوں میں شامل ۵۲ افسانوں میں سے ۱۰ کا ذکر یہاں مقصود ہے، جس میں ان کے پیامی ہونے کی طرف نشاندہی ملتی ہے۔


۱۹۴۵ میں نیوکلیئر انرجی کی دریافت کے بعد انسان نے اس کے مثبت استعمال کے بجائے اپنے ہی ہم جنسوں کی بربادی کے لئے اس کا استعمال کرنا شروع کیا تو ہمارا یہ عہد انسانی تاریخ کا انتہائی حساس اور خطرناک دور میں تبدیل ہوگیا ایسے میں ہر باشعور شخص پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس اندھے دوڑ کی مخالفت کرے ۔عینی نے بھی اس چیز کو محسوس کیا اور انہوں نے جو شاہکار تخلیق کیا اس کا نام ہے ـــ ــ، ’روشنی کی رفتار‘ ڈاکٹر پدما کرین نام کی سائنسداں کی کہانی کا سہارا لے کر عینی نے اس اندھی دوڑ کے مخالفت کی۔ ڈاکٹر پدما کرین ٹائم مشین میں انجانے میں سوا ہو جاتی ہے اوراس ٹائم مشین کے تیرہ سو پندرہ قبل مسیح کے پش بٹن کو دبا دیتی ہے اس کے ساتھی وہ قدیم مصر کے ایک عہد ماقبل مسیح دور میں پہنچ جاتی ہے ایک مصری شخص سے ان کی ملاقات ہوتی ہے ۔مصری ڈاکٹر پدما کرین کے عہد کی ترقیات کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے لیکن جب وہ اس عہد میں نیوز ریل کے ذریعے دنیا بھر میں بپاجنگ اور مذہبی و نسلی فسادات کے مناظر کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے :

یہ زمانہ ۔اس میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں!!
تمہارا نیوکلیربم بھی خالص انسان دوستی ہے، ہے نا!!

اس کے یہ طنز بھرے جملے پدما کرین کو شرمسار کر دیتے ہیں اور وہ مصری اپنے عہد میں لوٹ جانے کی ضد کرنے لگتا ہے


۱۹۴۸ میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کی حمایت سے جب فلسطین کے علاقے میں اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایاتو اس کے بعد حالات جتنی تیزی سے تبدیل ہوئے اور عربوں کے لیے جینے مرنے کاسوال پیدا ہونے لگا تو فیصلے کی مخالفت میں ہتھیار اٹھانے پڑے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بین الاقوامی برادری دونوں قومو ں کے درمیان بقائے باہمی کے لئے سنجیدہ ہو کر کوشش شروع کر تی لیکن افسوس اب تک ایسا نہ ہو سکا ۔بین الاقوامی برادری کی یہ منافقت عینی کو ناگوار گزری ۔انہوں نے ’یہ غازی یہ ترے پراسرار بندے ‘ کے نام سے ایک افسانہ تخلیق کیا، جس سے نی صرف جذبہ حریت کو مہمیزملتی ہے بلکہ ذوق خدائی بھی پروان چڑھتی ہے۔ یہ افسانہ بظاہر فلسطینی مجاہد نصرت الدین اور روسی مہاجرہ ’تمارا‘ کی روداد محبت معلوم ہوتا ہے لیکن اختتام تک یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نصرت الدین کے دل میں تمارا کی محبت تو بس حادثاتی طور پر وقوع پذیر ہوا تھا کیونکہ اپنی سرزمین کی حفاظت اور آزادی کے لیے جب وہ ایک جگہ سے نشانہ لے کر بم مارتا ہے اور خود کو ہلاک کر لیتا ہے توبخوبی ٓ شکارا ہو جاتا ہے کہ یہ ایک مقصد حیات پر نثار ہونے والے کی درد ناک زندگی کی کہانی تھی، جو پیار کی دو چار گھڑیاں بتا کرآغوش میں بخوبی لیٹ جاتاہے، اس سے عینی شاید کہنا چاہ رہی تھی کہ فلسطینی مجاہدین کو اس کی اپنی سرزمین کی بازیابی سے کسی بھی حربے کے ذریعے نہیں روکا جا سکتا ہے۔


عینی نے کئی جنگیں اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور اس کی تباہ کاریاں بھی، اس لئے ان کے فن پاروں میں جنگ کی مخالفت اور جنگی جنون پر کڑی تنقید یںجا بجا نظر آتی ہیں۔ ’آوارہ گرد‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میںوہ اوٹو کردگر نامی ایک ہچ ہائیکر سیاح کی کہانی بیان کرتی ہیں۔کہانی کا ر اوی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نوجوان جرمن سیاح کی شخصیت سے متاثر ہو جاتا ہے اور اس کی خیریت و وطن واپسی کی خبر کا انتظار کر رہا ہوتاہے لیکن ویتنام جنگ کے نتیجے میں سرحد پار کرتے ہوئے اس کی موت ہو جاتی ہے۔ اس کی موت کی خبر ملنے پر راوی تڑپ اٹھتا ہے پھر اسے اس نوجوان سیاح کی بات یاد آتی ہے اس نے ایک بار کہا تھا : ’کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قدر سادہ اور نیک ہے لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ درندہ بن جاتا ہے‘۔ آخر سوچئے گا کہ انسان بقائے باہمی کے فلسفے کو پس پشت ڈال کر کیوںدرندگی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے اور بے مطلب کی جنگوں کے ذریعے وہ ایک کثیر آبادی سے زندہ رہنے کے حق کو چھین لیتا ہے!


انسان زندہ اسی وقت رہ سکتا ہے جب تک اس سے پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی میسر رہے، اس کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ خالق کی طرف سے مہیا کیے گئے رزق پر کوئی شخص، سماج یا حکومت طاقت کے بل پر اس سے یہ حق چھین نہ لے لیکن افسوس آج جگہ جگہ ایسے حربے آزمائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے روزگار پانے کے حق کو کھوتا جا رہا ہے۔ عینی نے اس کو محسوس کیا اور افسانہ تخلیق کیا ’فقیروں کی پہاڑی‘۔ ایک بے روزگار نوجوان جب تنگ آجاتا ہے تو بھیس بدل کر بھیک مانگنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے اور اس پہاڑی کی طرف چل دیتا ہے جہاں فقیروں کی جماعت اہل خیر حضرات کی رحم و کرم کا منتظر ہوتی ہے۔ نوجوان کو بھی اتنی بھیک مل جاتی ہے کہ وہ گذاراکر لے جائے ۔اس پر حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے کہ یہ کیسا ہندوستان ہے ۔جہاں بھیک تو مل جاتی ہے لیکن روزگار نہیں ۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس بگڑے ہوئے سماج میں جذبہ خیر بھی ایک ڈھونگ بن کر رہ گیا ہے۔


انسانی جبلتوں کو دیکھتے ہویے ہی تمام مذہبی کتابوں میں مختلف رائے میں دھرم، ارتھ، کام اور موکچھ کی بات کی گئی ہے اور ضرورتوں کے حساب سے اس کے حصول کے راستے بھی بتا دیے گئے ہیں لیکن انسانوں میں کچھ ایسے کج فکر لوگ بھی ہیں جو ان چاروں ضروریات میں سے کچھ کو بالکل ہی نظر انداز اور کچھ پر بہت زور دینے کی ترغیب شروع کر دیتے ہیں ۔ان ہی میں سے ایک عسائی چرچ بھی ہے، جہاں جسمانی طور سے قرعب ہونے کی سخت ممانعت ہوتی ہے۔ جو ظاہر ہے فظرت کے خلاف ہے۔ سینٹ فلورا آف جارجیا کے ذریعے سے عینی نے یہی بتانے کی کوشش کی ہے۔


یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیاں اس ملک میں قدم رکھتی ہیں جہاں پہنچنے کے لیے انہوں نے اور اعزہ و اقارب نے ہزاروں قربانیاں دی تھیں، جنگ لڑی تھیں۔ اس کے باوجوداس ملک میں پہنچ کر خوش نہیں رہ پاتیں اور پھر واپسی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

جلاوطنی کی زندگی کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے اور انسان کو کن حالات میں جلاوطن ہونا ہوتا ہے اس کو آفتاب رائے اور ایک مسلم لڑکی ’کشوری‘ جیسے کرداروں کے حوالے عینی نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوت مشاہدہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پوری فنی چابکدستی کے ساتھ انجام تک پہنچایا ہے


پت جھڑ کی آواز

’پت جھڑ کی آواز‘ عینی کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے ۔انسان کو اپنی زندگی اپنے حساب سے اور اپنی آئیڈیالوجی کے مطابق جینے کا اختیار ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بڑا ہی مضحکہ خیز ہے کہ اسے کسی آئیڈیالوجی یاطرز حیات کو اپنانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں کوئی شخص چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس جانے کا سا محسوس کرنے لگتا ہے ۔تنویر فاطمہ کی کہانی کے ذریعے جدید مغرب زدہ، مغربی تعلیم و تربیت اور تہذیب و تمدن کی پروردہ لڑکیاں جو دنیا کی چمک دمک دیکھ کر اپنا آئیڈیالوجی کو تبدیل کر لیتی ہیں، انہیں آگے چل کر زندگی کے آخری مرحلے میں کس طرح کی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عینی نے آنکھیں کھول دینے والے انداز میں اسی کوبتانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔


ہاؤسنگ سوسائٹی

’ہاؤسنگ سوسائٹی ‘نئے طرزِ معاشرت کی کمیوں کو اجاگر کرنے والا افسانہ ہے ۔انسانی بستی میں اگر انسانیت زندہ نہ ہو کر جنگلی جانوروں کی طرح کی زندگی گزاری جائے تو ظاہر ہے یہ کسی بھی انسان کو خوشی نہیں دے سکتا ۔بڑی بڑی کالونیوں کے اندر اگر انسانی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ رہے اور پھر ایک دوسرے کے کام نہ آئے تو پھر اس بستی کو انسانی بستی کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔اسی پس منظر میں عینی نے کامیاب افسانہ تحریرکیا ہے۔ وہ جمشید سید سے اعتراف نامے کے طور پر کہلواتی ہیں: ’ دنیا میں زیادہ تر انسان جنگل کے درندے ہیں اور ہمیں جنگل کے قانون کا ساتھ دینا ہے‘۔


قرۃالعین حیدر کا افسانوی جہان جس طرح کی موضوعاتی رنگ برنگی کا حامل ہے اس میں یہ خیال رکھنا کہ وہ کسی انسانی حقوق کی بات نہیں کرتیں، ایسا ہی ہے جیسے کسی باغ میں جا کر یہ توقع رکھنا کہ فلاں خوشبو اس باغ سے نہیں آسکتی ۔قرۃالعین حیدرایک حساس فنکارہ کا نام ہے، جنہوں نے اپنے خیالات کے اظہار کا مرکزی ذریعہ فکشن کو بنایا تھا ۔انہوں نے سب سے زیادہ دنیا دیکھ رہی تھی، جیسا کہ ان کے سفرناموں سے واضح ہے اور دنیا کے حالات سے آگہی ان کی سرشت میں داخل تھیں۔ ایسے میں لاشعوری طور پر ہی سہی انہوں نے انسانیت کے حقوق کی ایسی باتیں بھی لکھی ہیں، جسے عام طور سے ایک معمولی فنکارنظر انداز کردیتا ہے ۔جنگ کی تباہ کاریوں اور نیوکلیئر طاقت کے غلط استعمال جیسے موضوعات کو اس زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ ایسے موضوعات ہیں جس پر انہوں نے بھرپور طریقے سے لکھا ہے یہی خصوصیت ہے جو قرۃالعین حیدر کو ایک غیر معمولی فنکاربنا دیتی ہیں ۔
(بشکریہ سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے