عکسِ خیال احمد حسین قاسمی کا مجموعۂ کلام
عکسِ خیال
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ
’’عکس خیال‘‘ مولانا احمد حسین قاسمی مدنی متخلص محرمؔ قاسمی دربھنگوی معاون ناظم امارت شرعیہ، ساکن بردی پور (بستوارہ) دربھنگہ کا پہلا مجموعۂ کلام ہے، جسے اردو ڈائرکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے انہوں نے شائع کرایا ہے۔
’’عکس خیال‘‘ میں ایک حمد، چار مناجات، ایک نعت پاک، اکتیس (31) غزلیں، چونتیس (34)نظمیں، قطعات وابیات اور مختلف عنوانات کے تحت متفرق اشعار ہیں، محرم ؔدربھنگوی بنیادی طور پر غزلوں اور نظموں کے شاعر ہیں، دوسرے اصناف میں انہوں نے شاعری ضرور کی ہے، لیکن ان کا اصل رنگ انہیں دونوں میں واضح ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ وہ حمد ونعت، مناجات، قطعات وابیات کے کہنے پر قادر نہیں ہیں، قادر ہیں اور خوب قادر ہیں، ان چیزوں پر ان کی قدرت کا اندازہ اسی مجموعہ میں شامل ان کی حمد ومناجات اور نعت سے لگایا جا سکتا ہے، لیکن جس کو ذہنی افتاد کہتے ہیں اس کا رخ غزل اور نظموں کی طرف زیادہ ہے۔
محرمؔ کی شاعری کے جو بنیادی عناصر ہیں اس میں مذہبی اقدار، شرعی احکام کا پاس ولحاظ، عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش اور کاکل وگیسو سے اجتناب کا غلبہ ہے، انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ
پیتا ہوں مگر طرز قدح خوار سے کر
کہتا ہوں غزل میں لب ورخسار سے ہٹ کر
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے بالکلیہ اس سے نظر موڑ لیا ہے، غالب کو ہر چند کہ مسائل تصوف پر گفتگو کرنی ہو تی بادہ وساغرہ کہے بغیر بات بنتی نہیں تھی، محرمؔ ہر چند کہ عارض ورخسار، کاکل وگیسو، ہجر وصال کی حکایات شعر کے قالب میں ڈھالنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن غزل تو محبوبہ سے گفتگو کا ہی نام ہے اور محبوبہ کے قد وقامت دیکھ کر سبحان اللہ کہا جا سکتاہے، لیکن گفتگو آیات قرآنی کے ذریعہ تو نہیں کی جا سکتی، اس لیے غزل میںان خصوصیات کا انہیں پاس ولحاظ ہے، شعر دیکھ لیجئے
شب ہجر جس کی نہ ہو سکی کبھی سحر وصل سے آشنا
یہ اسی کا درد فراق ہے، اسی غم زدہ کا پیام ہے
ایک شعر اور پڑھیے
کبھی شوق وصل نے خود دل ناز کو ستایا
کبھی ہجر نے مصیبت کا پہاڑ مجھ پہ ڈھایا
محرمؔ شاعری عالمانہ شان کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن اسے مولوی کا وعظ نہیں بناتے، باتیں سلیقے سے کہتے ہیں اور سلیقہ سے کہنے کا یہ فن انہوں نے کلیم عاجز سے سیکھا ہے، جنہوں نے محرمؔ دربھنگوی کی بہت ساری غزلوں پر اصلاح دی ہے، محرمؔ ان سے بہت متاثر ہیں۔اسی لیے انہوں نے ایک غزل میں کلیم عاجز کے اسلوب ’’کروہو‘‘ کی پیروی کی ہے۔
محرمؔ دربھنگوی اوزان وقافیہ اور بحور سے پورے طور پر واقف ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے اشعار میں قافیہ ردیف کے ریشمی تاروں پر بل نہیں آنے دیا ہے، بحور کی پابندی میں بھی انہوں نے اپنا کمال دکھایا ہے، اسی لیے ان کی شاعری میں فکر کی پختگی اور فنی گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
محرم کی شاعری کی عمران کی اپنی عمر سے کافی کم ہے، ابھی ان کو بہت اوپر جانا ہے، کسی بھی شاعر کے پہلے مجموعہؔ کلام کو دیکھ کر اس کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ کی تعیین نہیں کی جا سکتی، البتہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شاعر کی قوت پرواز کا کیا حال ہے، اور اُٹھان کس قدر ہے، عکس خیال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت پرواز اونچی ہے اور وہ بھیگے ہوئے پروں سے بھی پرواز کا حوصلہ رکھتے ہیں، ان کی اُٹھان بھی زبر دست ہے، انہوں نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے اشعار سے قاری کو اپنی جانب متوجہ ہی نہیں کیا چونکا بھی دیا ہے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب ہمارے خاکستر میں ہے۔
محرمؔ کے اشعار کی بڑی خوبی اس کی سلاست اور روانی ہے، ترکیب میں، تنافر حروف اور غرابت لفظی کا گذر نہیں ہے، معنی کی ترسیل کا فن انہیں خوب آتا ہے اس لیے وہ تعقید لفظی اور معنوی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، وہ باتیں صاف صاف کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں کہ سناتے وقت تحت اللفظ مزہ دے جائے اور جب ترنم سے پڑھا جائے تو اس کی غنائیت میں فرق نہ آئے، محرم خود بھی تحت اللفظ اور ترنم میں پڑھتے ہیں، اس لیے ان کی نظر اس پر گہری رہتی ہے۔
محرم کی شاعری میں عصری حسیت کی پوری جلوہ گری ہے، اس لیے پڑھنے اور سننے والے کا احساس ہے کہ محرمؔ ماضی سے زیادہ حال میں جیتے ہیں، ماضی پیچھے چھوٹ چکا ہے، ہم اس سے اپنا رشتہ توڑ تو نہیں سکتے، لیکن حال کی پریشانی، سیاسی جماعتوں کی بازی گری، بڑھتی ہوئی نفرت، ٹوٹتے رشتوں کا کرب، مقصد کے حصول کے لیے جائز وناجائز طریقوں کے استعمال کو دیکھ کر شاعر خاموش نہیں رہ سکتا، اس کے دل کا کرب الفاظ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، اسی کو عصری حسیت کہتے ہیں، اگر شاعری میں عصری حسیت نہ ہو تو وہ شاعری سے زیادہ تاریخ نگاری اور وقائع نویسی بن جاتی ہے، او رادب کا رنگ وآہنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، محرمؔ کے یہاں تاریخ کے حوالہ سے جو باتیں آئی ہیں، ان میںانہوں نے تلمیح کاسہارا لیا ہے، وہ ایک لفظ استعمال کرتے ہیں اور تاریخ کے مختلف ادوار اور اس کے نتائج ہمارے سامنے آجاتے ہیں، مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے۔
جس میں ہو جائے کوئی فاتح بیت المقدس
پھر وہی دو ر خلافت تو دوبارہ دیدے
خدا یا پھر سے دے عبرت تو اس مرحوم امت کو
حکومت چھن گئی یا رب حجازی شہ سواروں کی
محرمؔ کی نظموں کا رخ کریں تو ان میں غزلوں کی بہ نسبت پھیلاؤ زیادہ ہے، نظمیں رواں ہیں اور ان میں ایک قسم کی سبک روی پائی جاتی ہے، جیسے ہَولے ہَولے آبشاروں سے نکلتا پانی، (بقیہ صفحہ ۱۴؍ پر)
ان نظموں میں مسلمانوں کی بے عملی اور بد عملی کا گلہ شکوہ بھی ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کی طرف رہنمائی بھی، ان نظموں میں کائنات کا غم شاعر کا ذاتی غم بن گیا ہے، باتیں وسیع کینوس اور پس منظر میں میں کہی گئی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاعر کا اپنا غم ہے، اس طرح دیکھیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ محرمؔ دربھنگوی کو کائنات کو ذات میں سمیٹنے کا فن آتا ہے۔
محرم دربھنگوی بنیادی طور پر عالم ہیں، اس لیے ان کی شاعری کی لفظیات پوری کی پوری مذہبی اقدار کی آئینہ دار ہے، وہ جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ان میں ایک طرح کی پاکیزگی اور تقدس کاگمان ہوتا ہے، ان کے پاس الفاظ کا وافر ذخیرہ ہے، اس لیے اپنے خیالات کی وسعت کو شعر میں ڈھالنے کے لیے ساختیات اور تشکیلیات کا سہارا نہیں لینا پڑتاہے۔
محرمؔ کی شاعری کلاسیکی انداز کی شاعری ہے، رومانیت اور حقیقت کا آمیزہ ہے، انہوں نے ترقی پسند شاعری کے انداز کو کہیں نہیں برتا ہے، وہ مجھ پہلی سی محبت میرے محبوب ن مانگ کے انداز کی شاعری نہیں کرتے۔
وہ کائنات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، آخرت کو اپنی منزل اور محبت کومتاع جاں مانتے ہیں، اس لیے ان کے یہاں محبت اور زندگی کی ضرورتوں کے درمیان ایک اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے، وہ ترقی پسندوں کی طرح شاعری کو ضروریات زندگی کی فہرست اور بنیے کا روزنامچہ نہیں بناتے، محرم نے اپنے کو کسی خانے میں نہیں رکھا ہے، وہ نہ جدیدیت کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی ما بعد جدیدیت کی، وہ کلاسیکی رنگ وآہنگ میں اپنی فکر کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں اور اس میں وہ بہت کامیاب ہیں۔ بعض اشعار کوپڑھتے ہوئے ہمیں ایسالگتا ہے کہ خیالات کا توارد ہوا ہے، فکر کی یکسانیت کبھی کبھی توارد تک پہونچا دیتی ہے، جب محرمؔ سمندر کے سکوت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
کہہ رہا ہے آدمی سے اس سمندر کا سکوت
کس قدر ہے میرے ظرف ناز میں پانی نہ پوچھ
تو ہمیں معاًوہ مشہور شعر یاد آتا ہے
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتناہی خاموش ہے
گو محرمؔ کے شعر میں موج دریا کے بجائے ’’آدمی سے‘‘ نے پہلے مصرعہ کو انتہائی کمزور کر دیا ہے، دوسرے مصرعیہ سے معنی میں تبدیلی آئی ہے، لیکن وہ جس میں جتنا ظرف ہے کا بدل نہیں بن سکا ہے۔
کہنا چاہیے کہ عکس خیال شاعر کے فکر وفن کا حسین عکس ہے، ادب کی دنیا میں ہم اس کا استقبال کرتے ہیں، اور معیاری ہونے کا اعتراف بھی۔
اس کتاب کو مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف کے علاوہ نیو جنریشن انٹرنیشنل اکیڈمی راج ٹولی دربھنگہ، معہد الطیبات امام باڑی دربھنگہ اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما ویشالی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، جتنی رقم دے کر مل جائے غنیمت جائیے، مفت مل جائے تو اپنے کو مقدر کا سکندر سمجھئے۔
0 تبصرے