تلہر کا تارا : مختار تلہری
پریم ناتھ بسملؔ
مہوا،ویشالی
جو خاندان معزز ہے خاندانوں میں
اسی کا ذکر نمایاں ہے داستانوں میں
اصناف شاعری کے لئے اترپردیس کا نام خاص طور سے لیا جاتا رہا ہے۔ ضلع شاہجہانپور قصبہ تلہر سے تعلق رکھنے والے خوش فکرشاعر جناب مختار تلہری ایسے شاعر ہیں جن کو شاعری کے تمام اصناف پر مہارت حاصل ہے۔
مختار تلہری کا شمار دوڑ حاضر کے نمائندہ شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے بہت سے حمد نعت گیت دیس گیت منقبت صوفیانہ کلام بغیرہ وغیرہ لکھے ہیں لیکن غزل گوئی میں ان کا خاص مقام ہے۔ ان کی غزلوں کا لہجہ عام طور پر کافی سلجھا ہوا ہوتا ہے۔ مشکل اور ثقیل الفاظوں سے بچتے ہوئے شعر کہتے ہیں۔
بوقت شام نہ شاخیں ہلاؤ اے لوگو
تھکے تھکائے پرندے ہیں آشیانوں میں
اور یہ بھی کہ
نہ ہوسکی ہے زمانے کی دھوپ اثر انداز
رہا ہوں آپ کی یادوں کے سائبانوں میں
انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ شاعری میں تہہ داری، رمزیات، تشبیہ ، کنایہ اور لفظی صنعت گری کو شاعری کا حسن مانا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس معلومات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔
سورج، چاند، ستارے، جگنو، پھول، دھنک، آنسو، انگارے
ایک ترے رنگی پیکر میں کتنے ہی منظر پنہاں تھے
تمہارے آنے سے گھر یوں چمک اٹھا جیسے
چراغِ شام جلے روشنی بکھر جائے
مختار تلہری نے اپنی غزلوں میں بنا کسی الجھاؤ اور غیر ضروری الفاظ کے ساتھ سادگی اور بے ساختگی سے اپنے خیالات جذبات احساسات اور اپنے آس پاس کے مشاہدات اور تجربات کے اظہار کا خیال رکھا ہے۔
دھواں ہر ایک طرف چھا گیا تو کیا ہوگا
ملا نہ کوئی اگر راستہ تو کیا ہوگا
جفا کی دھول نہ اتنی اڑاؤ اے لوگو
نشانِ راہِ وفا مٹ گیا تو کیا ہوگا
میں سورج ہوں اجالے بانٹتا ہوں
مری فطرت زمانہ جانتا ہے
مختار تلہری اپنے ماحول اور حالات کے شکار شاعر ہیں ان کی شاعری میں گردوپیش کے حالات نظر آتے ہیں وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی شاعری میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں اور انہیں اس میں کامیابی بھی ملتی رہی ہے ان کی شاعری میں زندگی کے تلخ حقائق کی تصویریں زیادہ صاف نظر آتی ہیں جگہ جگہ پر سماج اور سیاست میں پھیلی ہوئی برائی اور ناہمواری پر گہری چوٹ ملتی ہے۔ اپنے آس پاس کی زندگی کے نشیب و فراز پر انہوں نے گہری نظر رکھی ہے ان کے یہاں ملکی اور عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی سیاسی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کا بھی احساس ملتا ہے۔
بکھرنے لگتا ہوں تحریر کی طرح مختارؔ
کسی بھی سُرخی اخبار پر نظر جائے
مختار تلہری یو پی کے نمائندہ شاعروں میں سے ایک ہیں شہباز قلم ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس کے تمام اشعار اپنے آپ میں فکر کے سمندر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری سماج کے سلگتے مسائل کی ترجمانی کرتی ہے ان کے اشعار مذہب ملت سماج و سیاست زبان و ادب یا یوں کہیے کہ زندگی کے تمام مرحلوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں انسانی زندگی میں پیش آنے والی تمام مسائل تخلیقی شکل اختیار کر لیتی ہے۔موجودہ سیاسی حالات کی ترجمانی اس شعر میں صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے وہ کہتے ہیں کہ
چھوڑ دے اب خلا کا سفر چھوڑ دے
کچھ زمیں پر بھی اپنا ہنر چھوڑ دے
مختارؔ تلہری کی غزلوں کی تمام خصوصیات کو اس چھوٹے سے مضمون میں قید کرنا یقینا غیر مناسب اور نا ممکن سا کام ہے ان کی غزلوں میں بڑا دلفریب، دلکش اور خوش رنگ تخلیقی جہان آباد ہے۔ بیان کی سنجیدگی انکی رفیق سفر رہتی ہے ۔شرینی بیان میں وہ پورا یقین رکھتے ہیں اور اسے اسی انداز سے پیش بھی کرتے ہیں کہ انکے اکثر اشعار میٹھے چشمے کی طرح رواں دواں نظر آتے ہیں۔ان کا طرزِ ادا عام شاعروں سے جدا ہے ۔
جناب مختار تلہری صاحب نے اپنا ایک نیا مقام بنایا ہے جہاں تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ روایتی اور جدید شاعری کے بیچ میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔مختار تلہری نے اپنی شاعری کے لیے ایک الگ راہ بنائی اور اپنے بیان کی سادگی اور پرکاری کو برقرار رکھا یہ اپنے منفرد انداز بیان کے لئے ممتاج ہیں۔
پریم ناتھ بسملؔ
8340505230
0 تبصرے