Ticker

6/recent/ticker-posts

موجودہ حالات کے تناظر میں ایک غزل : سرفراز بزمی

موجودہ حالات کے تناظر میں ایک غزل : سرفراز بزمی

_______________

کیا ہوۓ وہ بادہء و ساغر، وہ پیمانے کے دن
وہ سجی بزم طرب کے، مے کے، میخانے کے دن

حسن کے ناز و ادا، دل پر غضب ڈھانے کے دن
چاندنی میں وہ کسی کے بام پر آنے کے دن

راستے ویران، سونے شہر کے دیر و حرم
موت کے صحراء میں جیسے قافلے آنے کے دن

میکدے میں لڑکھڑانا، یاد تھا مزدور کو
بھوک سے لیکن یہ اٹھنے لڑکھڑا جانے کے دن

اب گلے ملنا، ملانا ہاتھ، چھونا، الاماں !
توبہ توبہ، یہ قرنطینے شفا خانے کے دن

بے حجابی سے تنفر، گندگی سے احتیاط
پیرہن کے ماسک کے ٹوپی کے دستانے کے دن

شہر بیزاری پہ اکساتی، وبا پرور ہوا
بکریاں لے کر پہاڑوں پر چلے جانے کے دن

اے زمیں کے بادشاہو ! اس قدر بیچارگی
ایٹمیت کے نشے کافور ہوجانے کے دن

لشکری ادنی سا قدرت کا " کرونا وائرس"
یعنی "جند من جنود اللہ" سمجھانے کے دن

پھر فریب زندگی سے تنگ آئی زندگی
پھر شعور ذات کی تہ میں اتر جانے کے دن

عود کر آئ زمیں پر فطرت عاد و ثمود
آگۓ کیا نیل پر تاریخ دہرانے کے دن

ہے وہی بزمی" الہ الناس" و "رب الناس" ایک
ناخداؤں کی خدائی خاک ہوجانے کے دن

سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے