Ticker

6/recent/ticker-posts

عید کا پیغام امت کے نام | Eid Ka Paigam Ummat Ke Naam

خطاب عید ... یکم شوال المکرم : عید کا پیغام امت کے نام


محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

آج انتیسواں روزہ ہے، امید ہے کل ورنہ پرسوں ہم سب روزے کی تکمیل کے شکرانے کے طور پر عید کی دو گانہ ادا کریں گے، خوشیاں منائیں گے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کریں گے۔ گلے شکوے دور کرکے ایک دوسرے سے قریب ہوں گے معافی تلافی کریں گے اور ایک دوسرے سے چشم پوشی اور درگزر کرتے ہوئے، محبت، الفت اور بھائی چارے والی زندگی گزارنے کا عزم اور اظہار کریں گے۔ نیز اس پر عمل بھی کریں گے۔

عید کیا ہے ہے؟ عید کے لغوی معنی کیا ہے؟

عربی زبان میں ہر ایک مکرر یعنی دوبارہ آنے والی کیفیت کو خواہ خوشی ہو یا غم عید کہتے ہیں، عرف عام میں یہ خوشی کے دن کے لئے مخصوص کر لیا گیا ہے۔ علماء اور اہل علم نے عید کا مفہوم اور اس کی تشریح اس طرح بھی کی ہے کہ : مہینہ بھر کی روحانی و نورانی ریاضتوں اور نفسانی و اخلاقی طہارتوں و پاکیزگیوں کے بعد، ایک نئی روحانی زندگی کے عود کر آنے کی وجہ سے بھی اس کو عید کہا جاتا ہے۔

ایک مہینہ خدا کے واسطے اور اس کے حکم و آڈر کی بنا پر مومن بندہ بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کرتا ہے، نفسانی خواہشات کو دباتا ہے اور پھر جب عید کے دن پھر سے رخصت ملنے پر جو طبعی خوشی ہوتی ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی طرح رات کی تراویح اور قیام الیل اور رمضان میں صدقات و خیرات کرکے جب مومن بندہ فارغ ہوتا ہے، تو وہ خاص لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے اور شکرانے کے طور پر دوگانہ ادا کرتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی نماز عید (عیدالفطر) سن ۲/ ھجری میں ادا کی اور پھر اسے کبھی ترک نہیں فرمایا، لہذا یہ نماز واجب کے درجہ میں ہے اور بعض علماء احناف کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔ عید الفطر کے دن کی اہمیت و فضیلت پر بے شمار احادیث موجود ہیں اور قرآن مجید کی آیات میں بھی اس کی جانب اشارہ موجود ہے۔ چند احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے، تاکہ اس کی اہمیت اورعظمت و رفعت کا اندازہ ہو سکے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن تین سو مرتبہ ۰۰ سبحان اللہ و بحمدہ پرھا اور مسلمان متوفیٰ روحوں کو اس کا ثواب ھدیہ کیا، تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں، جب وہ مرے گا تو اللہ تعالی اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن سب کے دل مر جائیں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلت الجائزہ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔ بعض ضعیف روایت میں ہے پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے بارے میں فرمایا ۰۰ یوم اکل و شرب و بعال ۰۰ آج کا یہ دن کھانے پینے اور ازدواجی مسرتوں کا دن ہے۔ آج کوئی انتہائی پرہیز گاری دکھانے کے لئے روزہ رکھنا چاہے، تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور یہ روزہ حرام اور ناجائز ہوگا، جس کا توڑنا ضروری ہے۔ بعض ضعیف حدیث میں ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :

آج خدا کی طرف سے بندوں کی دعوت ہے، آج کھانا پینا اور جنسی تعلق عین منشاء الہی ہے۔

اسلام نے تہیوار کے طور پر مسلمانوں کو صرف دو دن دئے ہیں، ایک عید الفطر اور دوسرا بقر عید۔ اور ان دونوں تہواروں کو منانے کے لیے جن دنوں کا انتخاب کیا وہ بھی دنیا سے نرالے ہیں۔ جناں چہ عید الفطر رمضان گزارنے کے بعد رکھی گئی کہ میرے بندے پورا مہینہ عبادت میں مشغول رہے، پورے مہینے انہوں نے میری خاطر کھانا پینا چھوڑے رکھا، نفسانی خواہشات کو چھوڑے رکھا اور پورا مہینہ عبادت کے اندر گزارا۔ اس کی خوشی اور انعام میں یہ عید الفطر عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ بخاری۔

آج یقیناً خوشی کا دن ہے، سارے ایمان والے خوش ہیں۔ مگر یہ خوشی نئے کپڑوں کی وجہ سے نہیں، عمدہ اور لذیذ کھانے کی وجہ سے نہیں، کسی کھیل اور تماشا کی وجہ سے نہیں، بلکہ وہ اس لیے خوش ہیں، کہ آج ان سے ان کا رب راضی ہے۔ انہوں نے مسلسل ایک مہینے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا، دن کو روزہ رکھا، رات میں تراویح ادا کی، تہجد بھی ادا کی، قرآن کی تلاوت کا معمول رکھا، ہر طرح کے گناہوں سے بچ کر ایک پاکیزہ زندگی گزاری، ان سب اعمال کی وجہ سے اللہ ان سے راضی ہوگئے اور ظاہر ہے کہ جب بندے سے اس کا مالک راضی ہو جائے، تو اس سے بڑھ کر اس کے لیے کیا خوشی ہوسکتی ہے، اسی لیے کہا گیا ہے و رضوان من اللہ اکبر۔ ۔ سورہ توبہ ۷۲.. یعنی اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی نعمت ہے۔

عید کا تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار و روایات

عید کا یہ تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار و روایات کی صحیح عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس تہیوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اور عبادت الہی سے شغف اور دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر اجتماعیت کا مظہر اور علامت و نشانی ہے۔ یہ تہیوار عدل و مساوات اور اتحاد و یکجہتی و امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے اور خاندان اور برادری کی بنیاد پر فوقیت اور بے جا برتری کی نفی کرتا ہے، عید کی دوگانہ نماز ادا کرتے وقت مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں، یہاں زید و بکر، ادنی و اعلی اور غلام و آقا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا، ایک امام کی اقتدا میں سارے نمازی ایک ہی طرح سے نماز ادا کرتے ہیں۔

عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد

عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد ہیں، اس عید پر اللہ تعالٰی نے خاص طور پر اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے، کہ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو ضرور شریک کریں۔ روٹھے ہووں کو منائیں کم درجہ لوگوں کو گلے لگائیں، بچوں سے پیار کریں۔ بڑوں سے تعظیم و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طور پر افلاس اور غربت کے ماروں کو تلاش کرکے گلے سے لگائیں۔ اس دن صاحب نصاب دوگانہ ادا کرنے سے پہلے صدقئہ فطر ضرور ادا کردیں۔ کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقئہ فطر ادا نہ کیا جائے۔

دوسری قوموں اور دیگر اقوام و مذاہب کی طرح ہماری عید اور ہمارا تہوار رقص و سرور ناچ اور گانا یا موج و مستی کا نام نہیں ہے، بھلا اسلام ایسی خرافات کی اجازت ہی کیوں دے سکتا ہے۔ بلکہ اسلام میں عید کی بنیاد اور اساس روح کی لطافت و پاکیزگی قلب کے تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت ایثار و ہمدردی اتحاد و اتفاق قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات عجز و انکسار اور صلاح و تقوی پہ قائم ہے۔ عید صرف ظاہری اور علامتی خوشی و مسرت اور رواجی شادمانی کا نام نہیں ہے بلکہ مذھبی تہیوار ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔

یہ انعام اور جائزہ کی رات اور اللہ سے اپنی پوری پوری مزدوری اور انعام لینے کی رات ہے۔ اس رات اللہ تعالی بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔ اور فرشتوں سے فخر سے سوال کرتا ہے کہ بتاو جس مزدور نے پوری مزدوری کی اور اپنا حق ادا کردیا اس کو کیا انعام ملنا چاہیے۔

علماء کرام لکھتے ہیں ؛ کہ عید کا دن حقیقت میں شکر کا دن ہے اور عید کی نماز شکرانے کی نماز ہے۔ جب انسان کو کوئی نعمت ملے تو اس کا تقاضا شکر ہے، شکر نعمت کا اعتراف ہے، احسان شناسی کا اظہار ہے اور اعلیٰ ظرفی کا معیار ہے، شکر ایمان ہے اور ناشکری کفر ہے، مومن شکر گزار ہوتا ہے اور کافر ناشکرا ہوتا ہے وہ خدا کی نعمت کو چھپاتا ہے، مومن کو شکر گزاری کی تعلیم دی گئی ہے، شکر کا درجہ بہت زیادہ ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ شکر نصف ایمان ہے۔ عید الفطر نماز شکر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ عطا کیا، روزہ، تلاوت، نوافل اور صدقات و خیرات ادا کرنے کی توفیق بخشی اور ہمیں ظاہری اور معنوی برائیوں سے پاک ہونے کا موقع ملا، انسانی ہمدردی اور غم خواری کی سعادت نصیب ہوئی اور ہمارے رزق میں وسعت و برکت ہوئی اس پر ہم خدا تعالٰی کے شکر گزار ہیں۔ سجدہ شکر ادا کرتے اور اس کا اظہار ہم عید کی نماز شکرانہ طور پر ادا کرکے کرتے ہیں۔ عید کا دن اللہ کی روحانی نعمتوں کے ساتھ مادی نعمتوں کے اظہار کا بھی ایک اچھا موقع ہے، عمدہ لباس پہننا، عمدہ غذائیں کھانا اور عمدہ و خوشگوار ماحول آج کے دن کی زینت ہیں۔ ان کا اظہار ہونا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔ (خطبات جمعہ 276 از ڈاکٹر محمدسعود عالم قاسمی )

خدا کرے عید کے اس پیغام کو ہم سمجھیں اور اپنی خوشیوں میں سب کو شامل کریں۔ نوٹ سال بھر ہم آپ سے اپنے پیغام کو لے کر ملتے رہے شاید واید کبھی ناغہ ہوا ہو۔ نہ ستائیش کی تمنا ہے اور نہ صلہ کی پروا، ان اجری الا علی اللہ میرا مسلک ہے۔ بس اتنی سی درخواست ہے کہ عید کہ موقع پر جہاں آپ اپنوں کو عیدی دیں گے، کچھ حصہ بطور عیدی میرے ادارے کو بھی دیں گے اس وقت میرا ادارہ آپ سب کے تعاون کا محتاج ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے