قربانی کا مقصد کیا ہے، اور قربانی ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے ؟..
محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سکریٹری
مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
9506600725
حج کی طرح قربانی بھی حضرت ابرہیم علیہ السلام کی سنت، یاد گار اور شعار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خواب میں ان کو دکھایا کہ وہ اپنے لخت جگر اسمعیل کو ذبح کر رہے ہیں، حضرت ابرہیم نے حضرت اسماعیل سے خواب بیان کرکے ان کی مرضی معلوم کی، فرماں بردار بیٹے نے حکم کے آگے سر جھکا دیا اور سرتسلیم خم کردیا۔ باپ نے بیٹے کو لٹا کر گردن پر چھری چلانے کا ارادہ کیا تو رحمت الہی نے یہ کہتے ہوئے، حضرت ابرہیم خلیل اللہ کا ہاتھ تھام لیا کہ تم نے خواب پورا کردیا، امتحان ختم ہوگیا، مقصد آزمائش تھی، حضرت ابراہیم کا ابتلاء و امتحان تھا، سو وہ امتحان و آزمائش میں کامیاب و کامران ہوگئے، مقصد اصلی حضرت اسماعیل کی شہادت نہیں تھی۔ ان کی جگہ میڈھا ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ یہی سنت آج تک چلی آرہی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی، یہی شعار آج تک قائم و دائم ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ ۔
قربانی ایک عظیم عبادت ہے
قربانی ایک عظیم عبادت ہے، جو تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے، اس عبادت میں یعنی قربانی میں مومن بندہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے معبود کے آگے سر جھکانے کے لیے ہمہ وقت اور ہر گھڑی تیار ہے اور اس کے حکم پر اپنے نفس، اپنی خواہش، اپنی مرضی اور اپنی ہر قیمتی سے قیمتی چیز اور متاع و منال قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ مومن بندہ قربانی کی سنت اور شعار ادا کرکے خدا سے تجدید عہد کرتا ہے۔ کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے، جب تک ہماری سانس باقی رہے گی اور جب تک ہماری رگوں میں خون جاری رہے گا، ہم اپنے رب کی بندگی کا دم بھرتے رہیں گے، ہم اپنی سب سے قیمتی چیز جسم و جان نثار کرنے کے لیے تیار رہیں گے، اس کی مرضی پر اپنی متاع عزیز کو لٹاتے رہیں گے۔ یہی عہد تو ہے، جو حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے کیا تھا، جسکی ہم ہر سال تجدید کرتے ہیں اور شعار براہمی کو زندہ و جاوید رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، قربانی انہیں احساسات کا ترجمان اور اسی جذبہ کا آئینہ دار ہے۔ ۔
قربانی کا مقصد ہے اللہ کا تقرب، اس کی رضا اور خوشنودی
قربانی کا مقصد ہے اللہ کا تقرب، اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اور یہ تبھی ممکن ہے، جب بندہ اپنی انا کو مالک کی رضا کے لیے فنا کردے۔ اپنی خواہش، چاہت کو اور اپنی قیمتی اور بیش بہا دولت کو راہ خدا میں قربان کردے لٹا دے، ملت کی بقا کے لیے، امت کی وحدت اور شیرازہ بندی کے لیے اپنے عہدے اور منصب کو قربان کردے۔ ملت کی مفاد کی خاطر فرد اپنے مفاد کو قربان کردے، یہ بات کہنے میں میں تو بڑی آسان لگتی ہے، منبر و محراب اور اسٹیج پر اس کو موضوع بنا کر چیخ چیخ کر تقریر کرنا اور لچھے دار و زور دار خطاب کرنا تو آسان ہے، لیکن اس کو عملی زندگی میں نافذ کرنا بہت مشکل ہے بلکہ اس زیادہ مشکل اور دشوار کوئی چیز نہیں ہے۔
واعظ کا ہر ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے یقیں کا نور نہیں
اقبال مرحوم نے بالکل درست فرمایا ہے اور صحیح عکاسی کی ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن سکا
آج صرف دوسروں سے قربانی، ایثار، ترجیح اور وسعت ظرفی اور وسعت قلبی کا مطالبہ ہے، لیکن خود قربانی دینے کے لیے اور ایثار اور ترجیح کی راہ اختیار کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں، اپنے موقف اور غلط انا اور ضد سے ایک انچ ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ۔ ایسے لوگ جب اپنی تقریر اور وعظ میں قربانی، قربانی قربانی اور ایثار کی بات کرتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ان کی گردنوں میں لم تقولون مالا تفعلون کہ خود را فضیحت اور دوست را نصیحت کی تختی لٹکادوں۔
آج سب سے زیادہ قربانی ایثار اور ترجیح کا فقدان، عجمی خانقاہوں، دینی اداروں، جماعتوں اور جمعیتوں میں پائی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ مفاد کی خاطر لڑنا، جھگڑنا اور انتشار و افتراق پیدا کرنا وہاں پایا جاتا ہے، چند کو چھوڑ کر کوئی ذاتی مفاد پر ملت کے مفاد کو مقدم رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ۔
آج امت مسلمہ کو پوری دنیا میں تین طرح کی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ ۔
پہلی قربانی تو وہ ہے جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پیش کی، جنگ یرموک میں لڑائی شباب پر ہے، عین جنگ کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط پہنچتا ہے کہ خالد ! میں نے تمہیں سپہ سالاری اور فوج کی کمانڈری سے برخواست اور معزول کر دیا ہے، جیسے ہی یہ خط تمہیں ملے، عبیدہ بن جراح کو کمانڈری سونپ دینا اور ایک عام فوجی کی طرح اپنی فوجی خدمت انجام دیتے رہنا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ خط ملتے ہی اپنے عہدے سے سبک دوش ہوگئے اور فرمایا میں اس کے بعد بھی ایک مجاہد کی طرح خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داری انجام دیتا رہوں گا۔ ۔
دوسری عظیم اور بے نظیر قربانی وہ ہے، جو حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے پیش کی کہ امت مسلمہ کی بقا اور تحفظ کے لیے اور امت مسلمہ کو خون و خرابہ سے بچانے کے لیے خلیفئہ راشد اور برحق ہوتے ہوئے حضرت امیر معاویہ رضہ اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوگئے اور ملت کو انتشار و افتراق اور کشت و خون ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ چیختے چلاتے رہے اور ان کو کوستے رہے کہ بھیا ! آپ یہ کیا کر رہے ہیں آپ تو خلیفہ راشد ہیں، جمہور امت اور سواد اعظم نے خلافت پر آپ سے بیعت لی ہے۔ لیکن انکا جواب صرف یہ تھا کہ مجھے ملت کا انتشار اور خون و خرابہ بالکل پسند نہیں ہے، اس لیے میں اپنے حق کی قربانی دینے کہ لئے تیار ہوں، میری نظر میں فرد سے زیادہ ملت کا مفاد پیش نظر ہے۔
تیسری قربانی جس کی آج ملت کو ضرورت ہے اور جو سب سے زیادہ مشکل اور دشوار قربانی ہے، وہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی قربانی ہے، جو انتہائی ناز و نعم اور عیش و عشرت میں پلے بڑھے، جن کی عیش کوشی اور تنعم و ترفہ کی مثال دی جاتی تھی، جس گلی سے گزرتے وہ گلی معطر ہو جاتی، ایک خاص انداز سے چلتے تھے، لوگ اس کی نقل اتارتے تھے۔ ۔ لیکن جب خلیفہ بنے، امارت کی ذمہ داری قبول کی اور اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا تو ساری عیش و عشرت کو قربان کردیا، عرش سے فرش پر اپنے کو اتار لیا۔ زندگی کو اتنا آسان اور سادہ بنا لیا کہ زہد و استغنا اور دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری کی ایسی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی، انہوں اپنی اہلیہ جو سلیمان بن عبد الملک کی بیٹی تھی، ان کی ساری جائیداد اور زیورات بیت المال میں جمع کر دیا اور خانگی زندگی اور گھریلو لوازمات کو بالکل مختصر اور سادہ کرلیا اس سادگی کی کوئی مثال مجھے تاریخ میں نہیں ملتی۔ ۔
ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ کبھی ہم نے ایسی قربانی کا تصور بھی کیا ہے، کبھی ہم نے اس کی طرف دھیان بھی دیا ہے۔ ہم نے قربانی اور ایثار والا مزاج بنانے کی کبھی کوشش اور فکر بھی کی ہے ؟
یاد رکھئیے امت کے پاس بہترین کیمرہ اور سی سی ٹی وی ہے وہ آپ کی ایک نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئی ہے، اس لیے لوگوں کو مغالطہ میں مت رکھئے جو کہئے خود اس پر پہلے عمل کیجئے اور قربانی اور ایثار کا وعظ رٹنے اور دہرانے سے پہلے خود قربانی دیجئے اور قربانی اور ایثار والا مزاج پیدا کیجئے۔
0 تبصرے