Ticker

6/recent/ticker-posts

برادران وطن اور ارباب حکومت ہمارے دشمن کیوں ہوگئے؟

برادران وطن اور ارباب حکومت ہمارے دشمن کیوں ہوگئے؟


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

اس وقت ملک عزیز ہندوستان نفرت، تعصب، ظلم، ہنسا اور اتیا چار کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہے، دنیا کی آنکھیں اس ملک کی طرف اٹھ رہی ہیں، یہ ملک جس قدر مذہبی رواداری، مساوات اور سماجی انصاف میں مشہور تھا اور جس قدر یہاں کے لوگوں کا دل صاف اور وسیع تھا، آج اسی قدر یہ ملک تنگ نظر اور مذہبی بھید بھاؤ والا ملک بن گیا ہے۔ بلقیس کیس والے معاملے نے تو پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب دی ہے، قاتلوں اور خونخوار مجرموں کے رہا ہونے اور ان کا استقبال کیے جانے نے لوگوں کو انگشت بدنداں اور حیرت بداماں کردیا ہے، لوگ حیرت اور سکتے میں ہیں، اور سرکار سے پوچھ رہے ہیں کہ ۵/ ماہ کی حاملہ خاتون کی آبروریزی اور اس کی تین سالہ بچی اور دیگر سات اہل خانہ کو اس کے سامنے ہی قتل کرنے والے کو آزادی کے امرت مہتوسو کے دوران رہا کرنا یہ کیا پیغام دیتا ہے؟، اس سے ملک کی شبیہ خراب ہوگی یا نہیں؟ اب تو لوگ کہنے لگے ہیں، اقلیت اب یہاں نہ تو محفوظ ہیں اور نہ ہی انہیں انصاف مل رہا ہے۔ مارٹن لوتھر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ، ، ناانصافی کہیں بھی ہو، انصاف کے لیے ہر جگہ خطرہ کا باعث ہے،،۔

ایک حاملہ خاتون کے ساتھ آبروریزی اور اس کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے والے مجرمین کی جیل سے رہائی پانے والوں کو مٹھائیاں پیش کی گئیں، اور ان کی آرتھی اتاری گئی، کہ اب کہیں چھپنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اب ہم کس منھ سے کہیں اور فخر کریں ؟ کہ سارےا جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔

ہمارا تو احساس ہے اور ہر زندہ دل اور زندہ ضمیر انسان کا احساس ہونا چاہیے کہ بلقیس معاملے میں مجرموں کی رہائی پر جس کو حیرت اور افسوس نہ ہو وہ انسانوں کے شمار سے اپنے کو خارج کرلے۔۔

دوستو! لیکن یہاں ایک سوال ہے؟ کہ یہ ملک اور یہاں کی موجودہ حکومت اس حد تک کیسے پہنچ گئی، یہاں کے لوگ اس حد تک ہم سے متنفر کیوں ہوگئے؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آئیے اس کو معلوم کرتے۔۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوستو!!!

ملک عزیز ہندوستان میں خصوصا اور پوری دنیا میں عموما جو حالات ہیں، اور انسانیت جس سطح پر پہنچ گئی ہے، اخلاقی قدریں جس طرح مٹ رہی ہیں، انسانیت کا خون جس طرح بہہ رہا ہے، انسان انسانیت کے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر حیوانیت اور درندگی کے جس مقام پر پہنچ گیا ہے، اس کا نقشہ کھینچنا بھی دشوار اور مشکل ہے۔ ہر جگہ جنگل راج اور لاقانونیت کا ماحول ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی تصویر ہے، قانون اور ضابطہ ہے تو وہ صرف کمزوروں کے لئے۔ غرض دنیا (ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے، لوگوں کے اپنے کرتوت کی وجہ سے) کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے، جب انسان اپنے پیدا کرنے والے مالک حقیقی جس نے اسے رحم مادر ہی میں تخلیق دی اسے ہی بھلا دے، اسے ہی فراموش کردے، تو اس سے جس درجہ کا ظلم و ستم اور ناانصافی ہو وہ کم ہے۔

لیکن اگر غور کیا جائے تو ان تمام جرائم اور ان تمام حالات کے پیش آنے کے ذمہ دار یہ قوم مسلم اور دعوت امت ہی ہے، اس لئے کہ ان کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا علم یعنی قرآن مجید موجود ہے، جس میں انسانوں کی گھریلو زندگی سے لے کر معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کا ہی نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے مسائل اور مشکلات کا حل موجود ہے، لیکن افسوس کہ ہم سے کوتاہی ہوئی اور ہم نے خود اس آخری اور آسمانی و الہامی کتاب ہدایت پر کما حقہ عمل نہیں کیا اور نہ ہی دوسری قوموں کے سامنے اس کا تعارف کرایا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیئے کہ ہم نے دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑ دیا، اس دین کو دوسروں تک پہنچانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی۔ اگر آج امت مسلمہ اپنا مقصد دیگر اقوام کو خیر کی طرف دعوت دینا بنا لے تو وہ تمام بیماریاں ختم ہوجائیں اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے اور خود مسلمانوں کا آپسی انتشار ختم ہوجائے، کیونکہ جب یہ امت اس عظیم مقصد یعنی دعوت خیر پر اکٹھا ہوجائے گی اور یہ سمجھ لے گی کہ علمی و اخلاقی اعتبار سے اقوام کی تربیت ہمارے ذمہ ہے تو دنیا میں بہار آجائے گی اور پوری دنیا امن و شانتی اور محبت و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔

مسلمانوں کی قومی و اجتماعی فلاح اور کامرانی دو چیزوں پر موقوف ہے پہلی چیز ہے ایمان و عمل صالح کے ذریعہ خود کی صلاح اور دوسری چیز ہے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی یعنی پوری انسانیت کی اصلاح جسے سورہ عصر میں بیان کیا گیا ہے۔

آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بھی مشکل حالات و واقعات پیش آرہے ہیں اس کی بنیادی وجہ ترک دعوت ہے۔ اس دعوت کے چھوڑنے کی وجہ سے ہی اغیار کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور وہ ہمارے جان کے دشمن بن گئے، ہمیں یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا اور قرآن مجید اور اسلامی تاریخ اس پر شاہد عدل ہے کہ دعوت کے کام میں لگنے اور اس کو انجام دینے میں ہی ہم سب کی حفاظت ہے اللہ تبارک و تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اور آپ کو مخاطب بنا کر اس امت کو سمجھایا ہے :

یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتک و اللہ یعصمک من الناس

اے رسول! جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا اس کو پہنچائے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویا یہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تعالی لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ایمان والوں کی دشمنوں سے حفاظت دعوت میں رکھی ہے۔

آج کے یہ مشکل حالات اور غلط فہمیاں دعوت و تبلیغ کی محنت ہی سے ختم ہوسکتی ہیں۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے ایک جگہ لکھا ہے جو بہت ہی چشم کشا تحریر ہے اور آج کے حالات میں ان پر عمل کرنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے مولانا تحریر فرماتے ہیں :

اس وقت تک جو دنیا قائم ہے نہ یہ اپنی محنت و قابلیت کی وجہ سے ہے اور نہ موجدوں کے ایجاد اور حکومتوں کے حسن انتظام کے نتیجہ میں قائم ہے اگر اس دنیا کو اپنی قابلیتوں، صنعتوں، ذہانتون، معلومات، بڑے بڑے عالموں دانشوروں ادیبوں اور فلسفیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہوتا تو کب کی یہ نسل ختم کردی جاتی، لیکن یہ اس لئے باقی ہے کہ ابھی ہدایت کے امکانات باقی ہیں، ابھی وہ امت باقی ہے جو ہدایت کا سبق دینے والی ہے اور جو ہدایت کا تحفہ دینے اور انسانیت پر رحم کھانے والی ہے اور لوگوں کو راحت و آرام دینے کے لئے اپنی راحت قربان کرنے والی ہے۔

یہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے ضروری ہے بلکہ عام اور نوع انسانی کی بقا کے لئے ضروری ہے، سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنا منصب فراموش کر دیا ہے، مسلمانوں کا وجود تو اس لئے تھا کہ جس ملک میں جائیں اس ملک میں خدا کی خدائی کا ڈنکا بجے، غیر اللہ کی پرستش مٹ جائے، وہ ایک تاریخی افسانہ بن جائے لوگ کہیں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ مسلمان تو اس لئے تھے کہ جس ملک میں قدم رکھیں وہاں ظلم کا خاتمہ ہوجائے، درندگی، نفس پرستی، شہوانیت، جنس پرستی بے راہ روی اور انحراف کا خاتمہ ہوجائے۔ آج اللہ تعالی کی رحمت حاصل کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمة للعالمین ہونے کا ثبوت دینے اور آپ کی روح کو خوش کرنے اور ملک کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان خیر امت کا منصب سنبھالنیں، اگر انہوں نے اس فرض کو فراموش کر دیا اور اس کی طرف توجہ نہ کی تو نہ ملک بچے گا اور نہ ہم بچیں گے، خواہ کتنے ہی بڑے مدرسے ہوں، کیسی بڑی جامعات، بڑے بڑے مصنفین اور محققین اور متقی بندے ہوں لیکن اگر مسلمانوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور یہاں کے باشندوں اور اکثریت کے سامنے یہ بات نہیں آئ کہ یہ جو ہم زندگی گزار رہے ہیں نفسانی اور شیطانی زندگی ہے، ہمیں اپنی زندگی کا رخ بدلنا چاہیے، تو یہ پوری انسانیت کے لئے خسارے کی بات ہوگی۔ (مقدمہ از کتاب / غیر مسلموں میں طریقئہ دعوت )

اس لئے آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان دعوت کے کام کو اپنائیں اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں اسی کے ساتھ یہاں کی اکثریت کے سامنے خدا کا ازلی اور ابدی پیغام پہنچائیں، خدا ترسی، اخلاقی بلندی اخلاص و ایثار کا نمونہ پیش کریں۔ اسلام کے صرف عقیدہ کا نہیں بلکہ اسلامی اخلاق اسلامی سیرت کا نمونہ بنیں اور ایسی زبان اور اسلوب میں اپنی گفتگو رکھیں جس کو وہ سمجھیں اور متاثر ہوں۔ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 6393915491

نوٹ براہ کرم اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے