Ticker

6/recent/ticker-posts

ہدف تک رسائی کے بنیادی اصول

ہدف تک رسائی کے بنیادی اصول

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)

ہم جہاں کہیں بھی کام کرتے ہیں وہاں مقاصد کے اعتبار سے ہدف طے کیا جاتا ہے، یہ ہدف مختصر مدت کے لیے بھی ہوتے ہیں اور طویل مدتی بھی، آپ کو ہدف تک پہونچنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے اور جو دشواریاں اور مشکلات (Pain point)ہیں اس کی واقفیت لازما ہونی چاہیے، پھر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار رہنا چاہیے، اس لیے کہ ذمہ داران آپ کی پریشانیاں سننے کے بجائے آپ کی کامیابیاں سننا زیادہ پسند کرتے ہیں اور آپ کو ہر حال میں اس کسوٹی پر پورا اترنا ہے، اگر آپ ہدف تک نہیں پہونچ سکے تو یہ آپ کی صلاحیت کی کمی سمجھی جائے گی، اس لیے رکاوٹوں سے قطع نظر ہدف تک رسائی کے لیے کامیاب منصوبہ بندی کیجئے، اگر آپ کو ہدف سالانہ دیا گیا ہے تو اس کو مہینہ؛ بلکہ ہفتہ پر تقسیم کریں، بلیک یا سفید بورڈ جیسا دستیاب ہو اس پر ہر روز کم از کم اس دن کا ہدف لکھیے، شام کو جائزہ لیجئے کہ سالانہ ہدف تک پہونچنے کے لیے آج جتنا کام ہم کر سکتے تھے، جن لوگوں سے مل سکتے تھے، وہ ہم کر پا ئے یا نہیں، اس بورڈ کے استعمال کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کی نگاہ ہر وقت ہدف پر ٹکی رہے گی، لوگوں کی بھیڑ کام کی کثرت اور قضایا منتشرہ کو حل کرنے میں جو وقت آپ کا لگتا ہے اس سے کبھی کبھی ذہنی خاکوں میں ذہول ہوجاتا ہے، اور ہدف تک پہونچنے کے اعتبار سے وہ دن ایسے ہی گذر جاتا ہے۔

ہدف تک رسائی کے لیے صحیح لگن اور ذاتی دلچسپی کو بڑا دخل ہے، آپ کے ذمہ کوئی ایسا کام کر دیا گیا جس سے آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو ہدف تک پہونچنے کے لیے دل میں لگن نہیں پیدا ہوگی اور لگن نہیں ہوئی تو ہدف تک پہونچنا دشوار ہوگا۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دلچسپی اور لگن کے باوجود اگر اپنے رفقاء سے کام لینے کی صلاحیت آپ میں نہیں ہے تو آپ اجتماعی طور پر ہدف تک پہونچنے کے لیے کام نہیں کر سکتے، آج کل کام تنہا نہیں ہوتا، ٹیم ورک ہوتا ہے؛ اس لیے ٹیم کے افراد کو جوڑ کر چلنا اور ان کی صلاحیتوں کا استعمال، ہدف تک رسائی کے لیے آپ کی ضرورت ہے، اگر آپ جماعت کے لیڈر ہیں تو آپ کو اپنے رفقاء کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہوگا، آپ کسی کی خودی اور خودداری کو ٹھیس پہونچا کر اس سے کام نہیں لے سکتے، کام ’’مزدور بد دل‘‘ سے نہیں ’’خوش دل‘‘ سے نکلتا ہے، اگر آپ اچھا رویہ نہیں رکھتے ہیں تومزدوروں او راپنے رفقاء کار سے آپ کواچھے سلوک کی امید نہیں رکھنی چاہیے، ہر انسان محبت اور تعریف کا بھوکا ہوتا ہے، اگر آپ کسی کی تعریف کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس کی تصویر لوگوں میں خوش نما بنتی ہے اور اس کا دل کام میں لگتا ہے اور آپ کے رفقاء کار کا رویہ بھی آپ کے ساتھ خوش گوار ہوتا ہے۔

کم وبیش ہر ادارہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو دوسرے کے ذریعہ کیے گیے کام کو ذمہ داروں کے سامنے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے سب کچھ انہوں نے ہی کیا ہے اور جس کے ذمہ وہ کام کیا گیا تھا وہ تو نا لائق، نکما اور کاہل ہے، اس منفی سوچ کو بڑوں تک پہونچادینے سے بھی کارکنوں میں بد دلی پیدا ہوجاتی ہے، ہدف تک پہونچنے کے لیے ضروری ہے کہ کارکنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، انہیں بُرا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے، بہت ضروری ہو تو سلیقہ کے ساتھ تنہائی میں سمجھایا جائے، کارکنوں کی عزت نفس اور ان کی ضروریات کو نظر انداز نہ کیا جائے، اور ہر حال میں نیوٹن کے اس فارمولے کو یاد رکھا جائے کہ جس قوت سے کسی چیز کو پھینکا جاتا ہے اس کے اندر اسی قوت سے لوٹنے کی بھی صلاحیت ہوا کرتی ہے، آپ نے گنبد کی آواز تو سنی ہوگی، جیسا بولتے ہیں گونج کر وہی چیز واپس ہوتی ہے، مثل مشہور ہے’’ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو‘‘ ہمارا ماننا ہے کہ خاندان، سماج، ادارے، تنظیموں کے بڑے اور ذمہ داروں کو ترکی بترکی جواب دینا غیر مناسب عمل ہے، لیکن کبھی خاموش رہ جائیے تو لوگ بولنے کی حدیں بھول جاتے ہیں۔

ہدف تک رسائی کے لیے لگن کے ساتھ تجربات بھی کرنے چاہیے، ہو سکتا ہے بندھے ٹکے اصولوں پر چلنے کے بجائے آپ اپنے تجربہ سے کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ اپنے اوپر بیماری یا مختلف کاموں کی فکر کواوڑھ لیتے ہیں دھیرے دھیرے وہ بیمار ہوجاتے ہیں اور ان کی فکر انہیں لاغر اور کبھی کبھی تو مایوسی کی انتہا تک پہونچادیتی ہے، ایسا شخص خود کشی تک کی بات سوچنے لگتا ہے، اس لیے کام لگن سے کیجئے، حوصلے سے کیجئے، اپنی صلاحیت کا پورا پورا استعمال کیجئے، لیکن اپنے اوپر اس قدر کام کو طاری نہ کر لیجئے کہ آپ ہنسنا اور مسکرانا بھول جائیں، ہنسیے مسکرائیے، فاضل وقت کا استعمال بچوں کے ساتھ سیر وتفریح میں لگائیے، آپ دیکھیں گے کہ اگلے دن آپ کا م کے لیے بالکل تر وتازہ اور ہشاش بشاش ہیں، اگر آپ کامیابی کے تئیں شک وشبہ میں پڑ گیے تو آپ کی کام کی صلاحیت کمزور ہو گی اور آپ کے لیے ہدف تک پہونچنا دشوار ہو جائے گا۔

آپ اپنے رفقاء کار میں نرم روی، خوش نما الفاظ اور شاباشی کے ذریعہ کام کے تئیں اور ہدف تک رسائی کے لیے جوش وولولہ بھرنے کا کام کریں، آپ اپنے رویہ سے لوگوں کے ذہن میں ڈالیں کہ آپ عہدے پر ہونے کی وجہ سے دوسروں کو حقیر نہیں سمجھ رہے ہیں، آپ کے جملے لوگوں کا دل توڑ بھی سکتے ہیں اور جوڑ بھی، کسی نا خوش گوار واقعات کا اثر اس قدر نہ لیں کہ آپ کا چہرہ بولنے لگے کہ آپ مخالف مزاج حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے آپ کی انفعالی کیفیت یعنی جلد متاثر ہونے کا پتہ چلتا ہے، جسے نفسیاتی کمزوری کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔

اگر آپ ہدف تک پہونچنا اور رفقاء کار کو پہونچانا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ بھی عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں، برطانیہ کی بادشاہت آپ کے ذمہ نہیں ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ملکہ سے غلطیاں نہیں ہو سکتیں، اس لیے اپنی غلطیوں کو بھی مان لیجئے اس سے آپ چھوٹے نہیں ہو جائیں گے، اور اپنی غلطیوں کی بے جاتاویلات کرکے جو آپ دامن کش ہوتے ہیں اسے نفسیات کی اصطلاح میں خود سے فرار اختیار کرنا کہا جاتا ہے، اگر آپ ٹیم لیڈر ہیں اور خود سے فرار اختیار کررہے ہیں تو اس ہدف کا کیا ہوگا جو ادارہ کی طرف سے آپ کو ملا ہے، آپ چاہے جس قدر باتیں بنالیں، لیکن آپ کا شمار ناکام انسانوں میں ہوگا، اور آپ اپنی کار کردگی سے کبھی مطمئن نہیں ہو پائیں گے، خوش نہیں رہ پائیں گے، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دولت اور زبان عہدہ اور زبان کسی کو بھی جانچنے اور پرکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ کی اصلیت اور آپ کے خاندان کا پتہ اس سے لوگوں کو چل جاتا ہے۔ زندگی میں نشیب وفراز اور اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، ’’ تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ اتار چڑھاؤ سے اگر آپ گھبراگیے تو ہدف پیچھے رہ جائے گا، اس لئے اتار چڑھاؤ، مد وجزر کے دور میں بھی خود پر قابو رکھیے او رہدف کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو نے دیجئے۔

ہدف تک رسائی کے لیے ان طریقوں پر بھی نگاہ رکھنا ضروری ہے، جس کے ذریعہ ہمیں ہدف تک پہونچنا ہے، ہر ادارے کے کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اور سر براہ کا ایک وزن ہوتا ہے، اپنے سر براہ کے وزن اور نظریہ کے مطابق کام کرنا شروع کیجئے، ممکن ہو تو راستے کی دشواریوں کو بھی ان سے بیان کیجئے، ان کے صلاح اور مشوروں سے کام کو آگے بڑھائیں، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ہدف تک رسائی ہی ضروری نہیں؛ بلکہ اس کا طریقۂ کار بھی کمپنی یا ادارے کے نظریات کے مطابق ہی ہونا چاہیے، لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ راستے میں کنکر پتھر کتنے تھے اور یہ کنکر پتھر سڑک پر تھے یا آپ کے موزے میں گھُس کر آپ کو چلنے سے روک رہے تھے اور آپ کے پاؤں لہو لہان ہوا ٹھے تھے، لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے مقصد کو پانے اورمقررہ ہدف تک پہونچنے میں کس قدر کامیاب ہوئے، اگر مذکورہ بالا امور کو سامنے رکھ کر منصوبہ بند انداز میں کام کیا جائے تو ہدف تک پہونچنا دشوار نہیں ہوگا۔

ایک بڑا مسئلہ ہدف تک پہونچنے کے لیے وسائل کا ہوتا ہے، مثل مشہور ہے’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے‘‘ اگر آپ نے وسائل کو نظر انداز کرکے مقاصد اور ہدف طے کیے تو وسائل کی قلت ہی آپ کے راستے کا روڑہ بن سکتی ہے، ہدف تک پہونچنا خواب نہیں، نتائج پر مشتمل عمل کا نام ہے، اور عمل کے لیے آپ کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں، یا وسائل سے زیادہ کام شروع کر دیا تو پھر ناکامی ہی آپ کا مقدر ہو گی، اس لیے ہدف کا تعیین خوابوں کی دنیا میں رہ کر نہیں، حقیقت کی سنگلاخ زمین کو سامنے رکھ کر کیجئے، آپ اپنی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لیجئے کہ اس ہدف تک پہونچنے کے لیے جس سرمایہ کی ضرورت ہے اس کی فراہمی آپ اپنے طور پر کر سکتے ہیں، یا آپ کو اس کے لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھنا ہوگا، اگر آپ اپنے طور پر کر سکتے ہیں تو بسم اللہ، ہدف کا آغاز کر دیجئے اللہ کی نصرت ومدد آپ کے ساتھ ہے، اور اگر کام آپ کوکرنا ہے اور وسائل دوسری طرف سے لینے ہیں تو پہلے وسائل کی منظوری لیجئے پھر قدم آگے بڑھائیے، اپنا تجربہ تو یہی ہے کہ جب تک آپ وسائل کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے ہیں آپ ہدف کے لیے وسائل جٹانے میں کمزور رہیں گے، اس لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے طور پر سوچیے، میری دادی کہا کرتی تھیں’’جب تک کریہو بابو بابو، تب تک کر لو اپنا قابو‘‘۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے