Ticker

6/recent/ticker-posts

امام الناس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عدیم المثال قربانی!

امام الناس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عدیم المثال قربانی!

از قلم: مجاہد عالم ندوی
استاد: ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج، پٹنہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے، لیکن انہوں نے اپنی زندگی کی بے مثال اور سب سے بڑی قربانی جب پیش کی تو اللّٰہ تعالٰی نے اس قربانی کو قیامت تک کے لیے ایک عظیم سنت کے طور پر جاری کر دیا اور امت محمدیہ کے لیے اسے ایک اہم فریضہ قرار دے دیا۔

اللّٰہ تعالٰی کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر جاننا ہے تو ضروری ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے، اللّٰہ تعالٰی کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت و آسائش کو ٹھکرا دیا، باپ سے ملنے والی وراثت خاندانی گدی چھوڑ دی، وطن عزیز سے ہجرت کر گئے، اللّٰہ ہی کی خوشنودی کے لیے آتش نمرود میں بے خطر کود پڑے، اللّٰہ ہی کی رضا کے لیے آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بیٹے کو بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ دیا، اور جب یہی بیٹا ذرا سن شعور کو پہنچا اور دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا تو حکم آ گیا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہر سہارے اور تعلق سے کٹ جاؤ اور ہر طرف سے یکسو ہو کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو " و اذا قال له ربه اسلم قال اسلمت لرب العالمين ( البقرہ)

جب ان سے ان کے رب نے کہا : مسلم ( مطیع و فرمانبردار) ہو جا تو اس نے بے تامل کہا : میں رب العالمین کا مسلم ہو گیا ٬٬۔

قربانی کے اس واقعہ سے جہاں ٫ خلیل اللّٰہ ٬ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لاثانی فدائیت کی شہادت ملتی ہے، وہیں ٫ ذبیح اللّٰہ٬ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بے مثال جذبہ جاں نثاری و فدا کاری کی شہادت ملتی ہے۔

اسلام میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک مسلمان جیسا چاہے عقیدہ اختیار کرے یا جیسا چاہے عمل اختیار کرے، بلکہ اسے اب سارے افکار و اعمال چھوڑ کر صرف اور صرف اللّٰہ و رسول کے بتائے ہوئے عقیدہ و اعمال کو اختیار کرنا پڑے گا۔

خلیل اللّٰہ و ذبیح اللّٰہ کی پوری زندگی ہمیں اللّٰہ کی راہ میں آنے والی ہر طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رہنے اور مادی و روحانی ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ خواہ یہ خواہشات، لذات اور مفادات کی قربانی ہو یا مال و جان اور وقت و صلاحیت کی۔ یہ سب قربانیاں اسلام کی راہ میں اور اللّٰہ کی رضا کے لیے دی جائیں تو مقبول و مبارک ہیں، لیکن یہی قربانیاں غیر اسلام کے لیے یا غیر اللّٰہ کو خوش کرنے کے لیے دی جائیں تو غیر مقبول و نا مبارک ہیں، خواہ یہ قربانی یا قربانیاں پیش کرنے والا ظاہری لحاظ سے کتنا ہی اللّٰہ والا کیوں نہ دکھتا ہو۔

ہر سال قربانی کے ایام آتے ہیں اور یوں ہی گزر جاتے ہیں، اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس کی حقیقت و خصوصیت کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے، اس کو عملی زندگی میں اختیار کرنے کی جد وجہد تو بہت دور کی ہے، عید قرباں تو اس لیے آتی ہے کہ بندہ مومن اپنے اندر بھی جذبہ خلیل و ذبیح پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ کرے جو میسر ہو، لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس اہم عبادت کو بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا، جب کہ اللّٰہ تعالٰی کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہیے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی اسے مطلوب ہے۔ " لن ينال الله لحومها و لا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم "۔ ( الحج )

اللّٰہ کو نہ ان ( قربان کیے جانے والے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، البتہ تمہارا تقویٰ اس کے یہاں پہنچتا ہے ٬٬۔


مجاہد عالم ندوی

قربانی کے اس عظیم الشان واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے، لہٰذا! اس موقع سے ہم یہ اقرار کریں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے، اللّٰہ کا ہے، ہم اسی کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کے خوف یا خوشنودی اور خواہش کی پرواہ کریں گے، اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ خلیل اللّٰہ و ذبیح اللّٰہ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔

قربانی کے اس عمل سے ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے جب بھی کوئی حکم آ جائے تو اس کی تعمیل و اتباع میں نہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت ہے، نہ اس میں حکمت و مصلحت کے نام پر بہانے تراشنے کی حاجت ہے، بلکہ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس کے پاس اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے حکم آ جائے تو اس کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ بے مثال اطاعت و اتباع کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کر دی تھی۔

قربانی کے عمل سے تقویٰ، اخلاص، وفاداری، جاں نثاری، توکل، خوف الٰہی، استقامت کے جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ ہم گاہے گاہے اللّٰہ تعالٰی کو یاد کر لیں اور کچھ ایسے مخصوص اعمال کبھی کبھی کر لیں جو اللّٰہ تعالٰی سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامات ہیں، اور پھر اپنے افکار، خیالات، نظریات، اعمال، جذبات، احساسات، اخلاق، معاملات، اطاعت، وفا شعاری میں ہم آزاد رہیں کہ جو چاہیں سوچیں، جو چاہیں ارادے رکھیں، جو چاہیں کریں، اللّٰہ تعالٰی سے جب ہم نے عہد کر لیا کہ " اسلمت لرب العالمين " یعنی ٫٫ میں رب العالمین کا مسلم ہوں ٬٬۔ تو پھر اس کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ہم غیر اسلامی خیالات و نظریات کو مانیں، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر یا دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اپنے لیے جائز اور قابل قبول قرار دیں اور اپنے من مانے طریقوں کی پیروی کریں۔

اللّٰہ تعالٰی اپنے محبوب خلیل اللّٰہ و ذبیح اللّٰہ کی طرح ہم سب کو کو بھی اپنے ایمان و اسلام کی حفاظت کرنے اور اس کی راہ میں روکاوٹ بننے والے اسباب کا مقابلہ دل و جان سے کرنے کی قوت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے