خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔ ۲۶/ اگست
اس وقت اس فارمولے پر عمل کی ضرورت ہے
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
دوستو، بزرگو اور بھائیو!!!
دنیا میں ہمت، شجاعت، جرآت، استقلال، ثابت قدمی اور حوصلہ کی بڑی قدر و قیمت اور اہمیت ہے، اس کے بغیر کسی کام، کسی ہدف، کسی مقصد اور کسی تحریک اور مشن میں کامیابی ممکن نہیں، ہر طرح کے معرکے اور زندگی کے تمام امور ہمت، ارادے کی مضبوطی اور حوصلے کے زور پر ہی سر کئے جاتے ہیں، کھیل کا میدان ہو یا جنگ کا سیاست کی زور آزمائی ہو یا کوئی تعلیمی و تعمیری منصوبہ، جس طرح ان تمام امور میں کامیابی کے لئے ایک تنظیم اور منصوبہ بندی ضروی ہے، اسی طرح کامیابی و کامرانی اور منزل کو پانے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ اس جماعت اور تنظیم کے افراد کے حوصلے بلند ہوں، عزم و ہمت کے پیکر ہوں۔ جس قوم اور جس جماعت میں جتنے زیادہ باہمت اور باحوصلہ افراد ہوں گے وہ قوم اور وہ جماعت کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور اپنے ہدف اور منزل کو آسانی سے پا لے گی۔
ملے گا۔۔۔منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا سراغ
دوستو!!
ہندوستان میں جس طرح آج مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں، ماضی میں بھی وہ یہاں کبھی اکثریت میں نہیں رہے، ان کی تعداد ہمیشہ یہاں برادران وطن سے ایک چوتھائی ہی رہی، یعنی وہ ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے، لیکن ایک طویل عرصے تک وہ یہاں کے حکمراں رہے، اور تخت حکومت پر فائز رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تقریبا ہزار سال سے زیادہ یہاں مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں نے عدل و انصاف اور رعایا پروری کے ساتھ حکومت کی، ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کو ساتھ لے کر چلے، مذھبی رواداری کا وہ جیتا جاگتا ثبوت دیا کہ تاریخ انسانی نے اس پر فخر کیا اور فخر کرتی رہے گی۔ آخر وہ کیا وجہ اور سبب ہے کہ ماضی میں بھی مسلمان یہاں اقلیت میں رہے، لیکن اس کہ باوجود وہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ اور جسم و جاں پر چھائے رہے، کامیابی کے ساتھ حکمرانی کی اور اپنی حیثیت اور وقار و دبدبہ قائم رکھا اور آج بھی ہم اقلیت میں ہیں، لیکن ہم یہاں بے حیثیت، بے وزن، بے وقار اور ثانوی درجہ کے شہری بنے ہوئے ہیں اور ہماری یہاں شوکت و رفعت اور وقعت و عزت پر بالکل داو لگا ہوا ہے، اور ہماری حیثیت عرفی بالکل ختم ہونے کے قریب ہے۔ سیاسی پارٹیاں ہمیں پھوٹی کوڑی اہمیت نہیں دے رہی ہیں بلکہ اب تو مسلمانوں کی حمایت کرنے اور ان کی تائید و طرف داری کرنے سے بھی کترا رہی ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ہمت، جرآت، شجاعت اور حوصلہ سے کام لینا چھوڑ دیا، جس سے کے معرکے سر کئے جاتے تھے۔ دشواریوں کا مقابلہ کیا جاتا تھا۔ رکاوٹوں کو دور کیا جاتا تھا۔ دوسروں کو مرعوب و مسحور کیا جاتا تھا۔
ماضی میں ہماری تاریخ روشن اور تابناک اور آج (حال میں) ہماری تاریخ تاریک مدھم اور دھندلا ہے۔ ہم اپنی کھوئی ہوئی تاریخ اور کھویا ہوا ماضی کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اپنا رعب اور وقار اس ملک میں کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے کیا فارمولے ہیں؟ اور کیا کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے ؟
قرآن مجید مسلمانوں کے لئے آخری کتاب ہدایت ہے، یہ وہ الہامی، آسمانی، ربانی اور آفاقی کتاب ہے، جس میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کی ساری مشکلات اور پریشانیوں کا حل بھی تجویز کردیا ہے، اور یہ بتا دیا ہے کہ اگر مخالف، طاقت، گروہ، گروپ سے، یا کسی دشمن جماعت اور مخالف ٹولی سے تمہارا مقابلہ اور سامنا ہو تو تم اس مشکل گھڑی میں کیا کرو ؟ کیا حکمت عملی اختیار کرو ؟ قرآن مجید کے سورئہ انفال میں اللہ تعالی نے ایسی مشکل گھڑی کے لئے اور مد مقابل سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :
یاایھا الذین آمنوا اذا لقیتم فیئة فاثبتوا و اذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون و اطیعوا اللہ و رسوله ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین۔
اے ایمان والو ! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور ہاں صبر سے کام لو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
مسلمانوں کو دشمن سے مقابلہ کے وقت ایک خاص ہدایت نامہ اور فارمولہ ان آیتوں میں دیا گیا، پہلی دو آیتوں میں خاص طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اپنے اندر ثابت قدمی پیدا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو امید کہ تم مقابلہ میں کامیاب ہو جاو گے، ثابت قدمی اور ذکر خداوندی یہ وہ نسخہ ہے جو ایمان والوں کے لئے دنیا میں کامیابی اور فتحمندی کا اور آخرت کی نجات و فلاح کا نسخئہ اکسیر ہے اور قرون اولیٰ کی تمام معرکوں میں مسلمانوں کی فوق العادات کامیابیوں اور فتوحات کا راز اسی میں مضمر ہے۔ پہلی چیز ہے ثابت قدمی۔ ثابت قدمی میں ثبات قلب اور ثبات قدم دونوں داخل ہیں کیونکہ جب تک کسی شخص کا دل مضبوط اور ثابت نہ ہو اس کا قدم اور اعضاء ثابت نہیں رہ سکتے۔ اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، دنیا کی ہر قوم جانتی ہے اور اس کو اس کا تجربہ ہے کہ مخالف سے مقابلہ کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ کامیاب ہتھیار ثبات قلب و قدم ہے دوسرے سارے ہتھیار اس کے بغیر بیکار ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو، جلد بازی، گھبراہٹ، ہراس، طمع اور نامناسب جوش سے بچو ٹھنڈے دل اور جچی تلی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرو، خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرانے پائے۔ مصائب کا حملہ ہو اور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پراگندہ نہ ہوجائیں۔
دوسری چیز ذکر اللہ ہے یعنی خدا کو یاد کرنا ہے اور کثرت سے یاد کرنا ہے۔ لیکن آج مسلمان مد مقابل سے مقابلہ کے لئے اس روحانی اور معنوی ہتھیار سے بے خبر ہیں ذکر اللہ ثبات قدم کا بہترین نسخہ ہے۔ اللہ کی یاد اور اس پر اعتماد وہ بجلی کی طاقت ہے جو انسان ضعیف کو پہاڑوں سے ٹکرا جانے پر آمادہ کر دیتی ہے اور کیسی مصیبت اور پریشانی ہو اللہ کی یاد سب کو ہوا میں اڑا دیتی ہے اور انسان کے قلب و جگر کو مضبوط اور ثابت قدم رکھتی ہے۔
خدا کا ذکر مومن کے لیے ایسی غذا ہے، جس سے اس کی روح کی پرورش ہوتی ہے، ذکر خدا سے ایمان کی کھیتی اور فصل لہلہا اٹھتی ہے، اس کی برکت سے مومن کے شبستان وجود میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے، ذکر خدا یہ وہ عمل ہے جو مومن کے رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، اور اس کے بل پر ایمان کی اونچی لہریں اٹھتی ہیں۔ ذکر خدا کے بغیر انسان کی زندگی ویران اور بے مقصد ہوجاتی ہے،۔ یہی چیز انسان کی زندگی کی سب سے بڑی دشمن ہے جو اس کی شخصیت کو چور چور کردیتی ہے، وہ اس ہنگامہ خیز دنیا میں بھی اپنے کو تنہا اور بے سہارا محسوس کرتا ہے اور اس کی پوری زندگی ایک ایسے کرب میں مبتلا ہوجاتی ہے، جس کا علاج اس کے بس میں نہیں۔ ذکر وہ شاہ کلید 🔑 ہے جو کائنات کے سربستہ رازوں کو انسان کی نگاہوں میں کھول دیتی ہے۔ (مستفاد امثال الحدیث ۲۴۹)
اس کے بعد تین اور چیزیں ایمان والوں کو بتائی گئیں وہ یہ کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے رہو میدان جنگ میں بھی اس میں کوئی کمی نہ آئے اور یہ یاد رکھو کہ اللہ کی نصرت اور امداد اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے، معصیت اور نافرمانی تو اللہ کی ناراضی اور ہر فضل سے محرومی کے اسباب ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بغیر خدا اور رسول کی ا تباع، اطاعت اور پیروی کے مسلمان کبھی کسی بھی میدان اور محاذ پر کامیاب اور سرخ رو نہیں ہوسکتے، قرآن نے صاف کہہ دیا ہے، ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما۔ جو اللہ اور رسول کی صحیح اطاعت کرے گا وہی بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔ کوئی بھی قوم اللہ اور رسول کے طریقے کو چھوڑ کر راہ سنت سے الگ ہٹ کر نہ سربلند ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔۔
اور آگے مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی کہ آپس میں مت لڑو خاص طور جنگ کے موقع پر منتشر نہ ہو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم ناکام ہو جاو گے۔۔ اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک جان ہوکر اور شیر و شکر ہوکر زندگی گزاریں، اتحاد کی قوت اپنے اندر پیدا کریں انتشار سے بچیں، اور باطل کو سر اٹھانے کا موقع نہ دیں۔ موجودہ حالات میں وقت کا سب سے اہم تقاضہ یہی ہے کہ ہم تمام مسلمان اپنے مسلکی اور ہر طرح کے اختلاف سے بلند ہو کر ایک ملت میں گم ہوجائیں، کلمے کی بنیاد پر ایک اور نیک بن جائیں، باہم اخوت و بھائی چارگی کو فروغ دیں، ہاتھ ملانے کے ساتھ دل بھی ملاتے چلیں۔ اور یاد رکھیں کہ ہم اپنے وجود کو باہمی اتحاد کے بغیر اس ملک میں باقی نہیں رکھ سکتے۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید میں
مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تارے سے کیا بات بنے؟
اور آخری آیت میں ایمان والوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ صبر کرتے رہو صبر کا دامن مت چھوڑو کیونکہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یعنی صبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالی ہر وقت ان کا رفیق اور معاون ہوتا ہے۔یقینا صبر یہ وہ دولت ہے کہ دونوں جہاں کی دولت اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔صبر کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں نوے سے زیادہ مقام پر صبر کا ذکر کیا گیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جسم میں جو مقام سر کا ہے، ایمان میں وہی درجہ صبر کا ہے۔ قرآن نے صاف اور واضح اعلان کردیا ہے کہ صبر ہی اللہ کی معیت اور اس کی مدد کی کلید ہے، ان اللہ مع الصابرین۔ قرآن مجید نے خاص طور پر مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر کوئی گروہ تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو تمہارے لئے بھی اسی حد تک جواب دینے کی گنجائش ہے، لیکن بہتر اور افضل طریقہ یہ ہے کہ تم انتقام لینے کے بجائے صبر کا راستہ اختیار کرو۔ صبر اصل میں محبت کے تقاضوں میں سے ہے اور تدبیر کے اعتبار سے یہ دشمن کے ہتھیار چھین لینے کے مترادف ہے، کیونکہ تشدد کا جواب اس سے زیادہ تشدد سے دیا جاسکتا ہے، لیکن عدم تشدد کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا، زبان درازی کے جواب میں اس سے بڑھ کر زبان درازی کی جاسکتی ہے، لیکن خاموشی کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا، اس لیے ایک مسلمان اور خاص طور پر مسلمان داعی اور مبلغ کا کام یہ ہے کہ جو قوم اس کی مخاطب ہو وہ اس کی اشتعال انگیز باتوں کے جواب میں اشتعال کا مظاہرہ نہ کرے۔ داعی کا کام یہ ہے کہ وہ خاموشی کیساتھ بغیر شور و ہنگامہ اور ظاہری شان و شوکت کے اظہار کے اپنا کام کرتا رہے، یہاں تک کہ مخالفین کے پاس لوگوں کو جوش دلانے اور مشتعل کرنے کے لیے کوئی مواد ہی نہ مل سکے اور بالآخر آہستہ آہستہ لوگ ان کی مفسدانہ مہم سے دور ہو جائیں۔۔ (مشعل راہ ۴۰۷)
آج مسلمانوں کو موجودہ حالات کے تناظر میں اور خاص طور پر ان حالات اور جو معرکہ ہمارے سامنے ہے، اس کے پس منظر میں ان قرآنی فارمولے پر عمل کی سخت ضرورت ہے۔ اور امت کو بتانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری اس موجودہ مشکل کا حل سورئہ انفال میں بتا دیا گیا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ان قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مشکل حالات میں ان ربانی نسخہ پر عمل کی توفیق سے نوازے آمین
ناشر / مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 6393915491
0 تبصرے