Ticker

6/recent/ticker-posts

یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی اور اس کے متبادل طریقے

یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی اور اس کے متبادل طریقے

(۱)
محمد قمر الزماں ندوی

ہمارے ایک ندوی دوست کے پاس ایک صاحب نے ایک سوال بھیجا کہ زید کے پانچ لڑکے تھے اور تین لڑکیاں، لاک ڈاؤن میں زید کا ایک لڑکا حامد کورنا کا شکار ہوگیا اور خود زید بھی کووڈ کا شکار ہوگئے، زید بیہوشی کی کیفت میں تھے، اس بیچ ان کے لڑکے حامد کا انتقال ہوگیا، زید کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ دو تین دن کے بعد زید کا بھی انتقال ہوگیا۔ زید کو اتنا موقع اور مہلت نہیں ملی کہ وہ اپنے یتیم پوتوں کے لیے ایک تہائی وصیت کرتے۔ اب یتیم بچوں کے چچا لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلامی نظام وراثت کے مطابق تم لوگ وراثت سے محروم ہوگئے، تمہارا جائداد اور روپیے میں کوئی حصہ نہیں ہے، تم لوگ محجوب ہوگئے ہو، دادا کی موجودگی میں اگر کسی بیٹے کا انتقال ہوجائے تو اس کے بچے وراثت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

ان بچوں کا سوال ہے، بلکہ بہت سے لوگ یہ سوال اور اعتراض کرتے ہیں کہ

کیا اسلامی قانون اتنا ظالمانہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے سہارا بیوہ اور اس کے روتے بلکتے بچوں کا ذرا بھی خیال نہ رکھے ؟


ذیل میں اسی سوال کے جواب دینی کی کوشش کی گئی ہے۔

اسلام کے نظام وراثت پر معاندین اور مستشرقین کی جانب سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں، ان میں یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی کا مسئلہ بھی ہے۔ دشمنوں کو تو جانے دیجئے اکثر لوگ بلکہ بعض اہل علم بھی یہاں آکر تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں اور معترضین کے لیے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو اسلامی نظام وراثت کی تہ میں جاکر سمجھا جائے اور اس کو لوگوں کے سامنے لایا جائے۔

معترضین یتیم پوتے کی غربت و مسکنت اور بے چارگی کو اس انداز سے نمایاں کرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس کو مال وراثت میں حصہ نہیں ملا تو بھوکوں مر جائیں گے اس کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے گا۔ معترضین اسلامی شریعت پر نشانہ سادھتے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ اسلام کا یہ قانون ظالمانہ ہے، اس میں یتیم پوتے کے ساتھ حق تلفی کی گئی ہے۔

اعتراض کی شدت کو دیکھتے ہوئے بعض مسلمان محقق اور اسکالر اور علماء نے اسلامی نظام وراثت میں یتیم پوتے کی محرومی کا انکار کیا ہے، اب بھی اس خیال کے لوگ موجود ہیں، جو اس منصوص مسئلہ میں بھی اپنی طرف سے قیاس اور رائے زنی کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں یتیم پوتے کو اپنے مرحوم باپ کا قائم مقام سمجھا جائے گا اور جو حصہ کسی کے مرنے پر اس کے بیٹے کو ملتا وہ اس کی زندگی میں بیٹے کے وفات پانے کی صورت میں پوتے کا ملے گا۔

یہ نظریہ سراسر غلط ہے، یہ لوگ درحقیقت اسلامی قانون وراثت کے ضابطوں اور حکمتوں و باریکیوں سے ناواقف ہیں۔

ایسے لوگوں کی یتیم پوتے کے ساتھ ہمدردیاں محض دکھاوا اور فریب ہیں۔ جن طریقوں سے یتیم پوتے کی وقت ضرورت مدد کی جاسکتی ہے، ان پر توجہ دینے کے بجائے یہ حضرات دوسرے غلط طریقوں سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ہمارے اس ندوی دوست کی خواہش ہے کہ میں اس موضوع پر تفصیل سے، آسان انداز اور سہل اسلوب میں لکھوں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ضرور اس موضوع پر لکھوں گا اگر چہ یہ موضوع بہت نازک اور حساس ہے اور مسئلہ منصوص علیہ ہے یہاں عقل و قیاس کو کوئی دخل نہیں ہے۔

میں نے کچھ سالوں پہلے ایک تحریر پڑھی تھی غالباً وہ تحریر مولانا شمس پیر زادہ مرحوم کی تھی، انہوں پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں لکھا تھا کہ جب ان کے دور صدارت میں یتیم پوتے کی وراثت کے متعدد مسائل سامنے آئے اور اس پر بہت بحثیں ہونے لگیں تو، انہوں نے سرکار کی طرف سے ایک وصیت نامہ تیار کرایا اور جب اس طرح کے واقعات پیش آتے تو ہفتہ دس دن کے بعد دادا کو تحصیل یا دیوانی بلا کر ان سے وصیت نامہ پر دستخط لے لیا جاتا اور تہائی وصیت کے مطابق وہ مال ان یتیم پوتے کے درمیان سرکاری عملہ کے ذریعہ تقسیم کردیا جاتا، اس وقت بعض علماء نے اس کو جبری وصیت کہہ کر شریعت کے منافی عمل قرار دیا۔ بہرحال اس واقعہ کو ضمنا یہاں میں نے بیان کردیا۔

میں نے اس سلسلے میں جناب ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب ندوی سے درخواست کی کہ وہ اس موضوع پر جو کچھ لکھیں ہیں، مجھے ارسال کریں انہوں نے دو تحریریں بھیجی ہیں، ایک مختصر اور دوسرا مفصل، مختصر تحریر کو ہم من وعن آپ کی خدمت میں پہلے پیش کرتے ہیں، کل دوسری والی تحریر کا خلاصہ اور اس موضوع کے مالہ و ما علیہ کو بیان کریں گے۔مولانا لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یہ صرف ایک مثال ہے _ ذہنی اختراع سے اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں _ صرف اسلامی قانون ہی نہیں، دنیا کے کسی بھی قانون کے بارے میں ایسی موشگافیاں کرکے اسے ظالمانہ دکھایا جا سکتا ہے _ لیکن اس مسئلے پر وسیع تناظر میں غور کرنا چاہیے :

1_ پھول کے حقیقی حسن سے اس وقت تک محظوظ ہوا جا سکتا ہے جب تک اس کی تمام پنکھڑیاں جڑی ہوئی ہوں _ اس کی ایک پنکھڑی کو الگ کرکے اس میں مکمل پھول کا حسن تلاش کیا جائے تو مایوسی ہوگی _اسی طرح اسلام کی کسی ایک تعلیم یا ایک قانون کی معقولیت صحیح طریقے سے اس وقت سمجھی جا سکتی ہے جب اسلام کی تمام تعلیمات مستحضر ہوں۔

2 _ اسلام نے صلہ رحمی کی تاکید کی ہے اور اس پر بہت زور دیا ہے _اس کے نزدیک کسی اجنبی کی مالی مدد کرنے پر ایک اجر ہے تو کسی رشتے دار کی مالی مدد کا دوہرا اجر ہے۔


3_ وراثت کی تقسیم ہو رہی ہو اس وقت ایسے رشتے دار سامنے ہوں جو وراثت کے مستحق نہ ہوں تو ان کا بھی کچھ حصہ لگانے کی ترغیب دی گئی ہے _ (النساء:8)

4_ اسلام نے کفالت کا ایک نظام قائم کیا ہے _ ہر شخص کی کفالت اس کے قریبی رشتے داروں پر بالترتیب لازم ہے _ اسلام کی تعلیمات پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے تو کوئی بیوہ اور کوئی یتیم بچہ مفلس و محتاج نہیں رہے گا۔

5_ یہ احکام جب نازل ہوئے تھے اس وقت بھی اس طرح کے مسائل پیش آئے تھے، لیکن اس زمانے میں ان مسائل کو خوب صورتی سے حل کیا گیا اور کوئی دشواری محسوس نہیں کی گئی ۔

6_جس وقت یہ احکام نازل ہوئے تھے اس وقت کا معاشرہ ایک ہمدرد معاشرہ تھا _ اس کے افراد رشتے داروں کو ہی نہیں، اجنبی لوگوں کی امداد کے لیے بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے _ یہ احکام ایک ایسے معاشرے سے کیسے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں جو خود غرض معاشرہ ہے، جس میں نفسانفسی عروج پر ہے، جس میں رشتوں کا تقدس پامال ہے، جس میں بوڑھے ماں باپ کے لیے اولڈ ایج ہومس قائم ہیں، دوسرے رشتے داروں کا کیا پوچھنا۔

7_بیوہ اپنے شوہر کی اور اس کے بچے اپنے باپ کی میراث میں حصہ پائیں گے اور کل میراث انہی کے درمیان تقسیم ہوگی _ اس بنا پر ان کا بے سہارا ہونا اور بہو کا اپنے خسر اور بچوں کا اپنے دادا کا محتاج ہونا مفروضہ ہے، جو ضروری نہیں۔

8_آخری نکتہ یہ کہ بعض علما کی رائے میں یتیم پوتے پوتیاں وراثت سے محروم نہیں ہوں گے، بلکہ اپنے باپ کا حصہ پائیں گے _ ( راقم کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے، لیکن محض ایک رائے کی حیثیت سے اس کا تذکرہ کردیا ہے،، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی دہلی_ )

مضمون کا اگلا حصہ کل کی تحریر میں ملاحظہ کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے