Ticker

6/recent/ticker-posts

جوش ملیح آبادی کے نام فراق گورکھپوری کا ایک تاریخی خط

جوش ملیح آبادی کے نام فراق گورکھپوری کا ایک تاریخی خط

محمد قمر الزماں ندوی

اقبال اور حالی نے اپنے اشعار میں ملت کے مسائل پر سب سے زیادہ گفتگو کی ہے، امت کی زبوں حالی اور اس کے اسباب و وجوہات کا خوب خوب تذکرہ کیا ہے، نیز امت مسلمہ کے عروج و ارتقاء کے بعد زوال و انحطاط کے سبب کو اپنی شاعری کا عنوان بنایا ہے، ان کے اشعار میں قوم و ملت کے تئیں ہمدردی درمندی، دلسوزی اور غمگساری جگہ جگہ پائی جاتی ہے، اقبال نے کس درد سے کہا تھا۔۔۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

ایک موقع پر ملت کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا۔۔۔

آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

ایک جگہ انہوں نے قرن اول کے مسلمانوں کی رفعت و بلندی اور عروج و ارتقاء کا سبب قرآن سے گہرا تعلق و وابستیگی قرار دیا اور موجودہ قوم مسلم کی پستی اور تنزلی کا سبب اور وجہ قرآن اور قرآنی تعلیمات سے دوری قرار دیا ہے۔

انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ قرآن کے پیغام اور اس کی تعلیم کو چھوڑنا،مسلمانوں کی تنزلی کا سبب قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال اور حالی کے کلام کا سنجیدگی اور احترام سے مطالعہ کئے بغیر، ملت اور ملت کے بخشے ہوئے فضائل کا احساس و ادراک ممکن اور آسان نہیں ہے، یہ فیضان ہے، عشق رسول ﷺ کا، جس نے ان شعراء کے کلام کو گرانمایہ اور لازوال بنا دیا ہے۔

اقبال کی اس عظمت اور بلندی کے باوجود ایک مکتبہ فکر کے لوگوں کا اقبال پر اعتراض ہے کہ وہ عقابی یا شاہینی مسلک، خونریزی کی تبلیغ اور فرد کو جماعت پر مسلط کرنے اور رکھنے کی تائید کرتے ہیں، اس طرح اور بہت سے اعتراضات ہیں، جو اقبال کے ناقدین اقبال پر کرتے آرہے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب بالکل سہل، آسان اور بہت مختصر ہے کہ جو شخص رحمت للعالمین کے صف اول کے عاشقوں میں ہو، بھلا وہ شخص ایسے منفی اور تخریبی کاموں کی حمایت اور تائید کیوں کر کرسکتا ہے۔؟؟جبر و تشدد کے الزام کی تائید میں مخالفین و معاندین اقبال مرحوم کے دو ایک شعر پیش کرتے ہیں، جن کا مفہوم، عقاب یا شاہیں کا کبوتر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے یا عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد وغیرہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اقبال کی اس تحدید و تاکید کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، جس کا ذکر وہ بار بار کرتے نہیں تھکتے۔

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا

اقبال کے ناقدوں اور معترضین میں ایک نمایاں نام جوش ملیح آبادی کا ہے، جو اپنی مشہور لیکن متنازع کتاب یادوں کی بارات اور شعلہ و شبنم سے مشہور ہیں۔ جوش اقبال کے سخت ناقدوں میں تھے اور ان کی شخصیت اور ان کی شاعری پر بیجا اور بے تکا نقد و اعتراض کرتے تھے، پاکستان بننے کے بعد جب جوش وہاں پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے اقبال مرحوم پر نقد و اعتراض کرنا شروع کردیا۔ ایسے وقت میں ہندوستان کے ایک مشہور غیر مسلم انگریزی ادیب اور اردو کے مسلم شاعر رگو پتی سہائے فراق گورکھپوری نے ایک خط جوش ملیح آبادی کو لکھا تھا اور انہوں نے جوش کو ان کی اوقات یاد دلائی تھی اور یہ نصیحت کی تھی کہ اقبال کی شاعری اور شخصیت کے سامنے تم بونے ہو، تمہاری کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے،دین اور مذھب کے بارے میں اقبال کے مقابلے میں تمہارا علم اور معلومات صفر ہے۔ فراق گورکھپوری کا یہ خط اور تحریر بہت ہی وقیع اور قیمتی ہے اور اس تحریر سے معلوم پڑتا ہے کہ فراق گورکھپوری کا مطالعہ اور علم کتنا وسیع تھا اور ان کا یہ خط کس قدر عالمانہ اور منصفانہ ہے اور کس قدر سچائی اور حقیقت سے قریب ہے۔ یہ خط، اور اس میں تحریر و مواد مجھے بہت پسند آیا، اس لیے دل چاہا کہ اس کو ہدئیہ قارئین کردوں۔ م ق ن


پیارے جوش ملیح آبادی!
سلامِ شوق
تمہارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا، یعنی اس کو تمہارے مرنے کے بعد شائع ہونا چاہیے تھا، مگر تمہارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شائع کرکے راز کو فاش کر دیا اور تمہارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمہاری غلطی تھی۔

پاکستان میں رہ کر اقبالؔ کی مخالفت دانش مندی نہیں اور صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبالؔ کو سمجھ بھی نہیں سکتے؛ کیونکہ اقبالؔ نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تمہارا علم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور پر طرہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔ تم آفاق کے کفر میں گم،اقبالؔ دین کی ہمیشگی سے لبریز۔ تمہاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ دونوں میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراض کیے ہیں اس کی نوعیت الگ ہے۔ یعنی وہ ملت کی شاعری اگر نہ کرتے تو عظیم شاعر ہوتے، لیکن ملت کی شاعری پر میں نے تنقید نہیں کی۔ کیونکہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں۔ اور اگر واقف بھی ہوتا تو مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ جو کچھ اقبالؔ نے کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔ تمہاری تنقید اقبالؔ پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیونکہ کہیں تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ اور حسینؑ کی مدح میں یہاں تک کہہ گئے ہو۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

تم نے مذہب کی تبدیلی بھی ادبی فائدے کے لیے کی تھی۔ جب اس سے کچھ حاصل نہ ہوا، تو علما کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔ سمجھ میں بات یہ نہیں آتی کہ اگر کوئی عالم تعریفِ حسینؑ کرے تو اس پر اعتراض اور تم حسینؑ کی مدح سرائی کرو تو سب سر دھنیں۔ تم نے حسینؑ کی تعریف یہ کہہ کر کی میں حسینؑ الگ سے ایک عظیم انسان مانتا ہوں۔

میرے پیارے! تم تک حسینؑ کی عظمت اور کردار کیسے پہنچا؟ تم تو کربلا میں موجود نہ تھے، ہاں تاریخ کے صفحات ہی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن جن صفحات میں حسینؑ کی تعریف ہے اس میں یہ بھی موجود ہے کہ حسینؑ رسولﷺ کے نواسے تھے اور اپنے نانا کی پیروی سے آخر دم تک غافل نہیں ہوئے۔ یعنی کربلا میں بیعت کے سوال کو ٹھکرا دیا۔ اور عالمِ سجدہ میں شہید ہو گئے۔ تم ان نے سب باتوں کو نظر انداز کر کے حسینؑ کو عظیم مان لیا؟ یہ تمہاری فرضی اُپچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس کو کوئی بھی ذی فہم تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک طرف تو خدا سے انکار اور بے یقینی اور مزید یہ کہ علما سے خطاب:

خدا کو اور نہ پہچانیں یہ حضرت!
خدا کے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں

تمہارے عقیدے کے لحاظ سے بھی تمہارا مرثیہ بارگاہِ حسین میں اس لیے پیش نہیں ہو سکتا کہ تم نے خدا اور علما کی بھی توہین کی ہے۔

حسینؑ خدا کے ماننے والے اور نبیﷺ کے نواسے تھے اور خدا ہی کی راہ میں شہید ہوئے۔ اس لیے شاعر نے ان کو یہاں تک مان لیا:

"دیں ہست حسین دیں پناہ ہست حسین“

اس لحاظ سے تم نہ پکے دہریے ہوئے اور نہ حسیںؑ کے شیداء، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تمہارے والد کو جب تمہاری مذہبی تبدیلی کا تیقن ہوگیا، تو انہوں نے اپنی تمام جائیداد سے محروم کر دیا۔ اور صرف سو روپے ماہانہ کے لیے لکھ دیے۔ یہ تمہارا ذاتی بیان "یادوں کی بارات” میں ہے، لیکن اس پر تم اپنی ضد پر اڑے رہے اور اسی دوران بقول تمہارے تم نے ایک خواب دیکھا، کہ ایک جلوس جا رہا ہے جو اتنا پاکیزہ اور با رونق تھا کہ تمہارے ہوش اڑ گئے اور اسی عالمِ حیرانی میں کسی نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور وہ تھے جنابِ ابوذر غفاری۔ انہوں نے بتایا کہ اس جلوس میں پیغمبرِ اسلامؐ اور مشکل کشا حضرت علی تھے جو آگے جا کر تمہیں ملیں گے۔ یہ سن کر تم پیچھے پیچھے وہیں پہنچ گئے اور تمہیں دیکھ کر پیغمبرِ اسلامؐ نے علی المرتضیٰ سے کچھ فرمایا، جسے تم سن نہ سکے لیکن علی المرتضیٰ بنفس نفیس تمہارے پاس آئے اور ارشاد فرمایا: "جو ہم سے محبت کرتا ہے نہ تو اس کی دنیا خراب ہوتی ہے اور عقبیٰ۔ جاؤ جوشؔ بلندیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔“

پیارے جوش!۔ حضرت علی نے صرف تمہاری بلندیوں کے بارے میں فرمایا لیکن دین کی راہ پر چلنے کی کوئی تلقین نہیں فرمائی، اور نہ شراب نوشی سے منع فرمایا۔ گویا ان تمام دینی لوازمات سے تمہیں بری کر دیا۔ طاعت زہد کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں کیا۔ اور حیرت ہے کہ یہ بھی نہیں فرمایا کہ اے جوش!۔ تم نے یہ جو بکا ہےکہ ( شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا)۔ جبکہ خدا کو پہنچوانے کے لیے پیغمبرِ اسلامﷺ تشریف لائےتھے اور کافروں سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو تب بھی میں وحدانیت کا پرچار کرنے سے گریز نہ کروں گا۔ اور حضرت علی بھی اسی راہ پر گامزن تھے۔

ایک قوم نصیری تھی جو حضرت علی کو خدا مانتی تھی، لیکن حضرت علی نے وحدانیت میں فرق ڈالنے والے کو منکرِ خدا ہی کہا ہے اس لیے حضرت علی سے یہ کہاں امید کی جا سکتی ہے کہ تم جو منکرِ خدا بھی ہو حضرت علی تمہیں بلندیوں پر سرفراز ہونے کی خوش خبری دیں۔ یہ خلافِ عقل اور مذہب اسلام کے منافی ہے۔

اگر حضرت علی ایسے سنگین گنہ گار اور منکرِ خدا کو اپنی محبت اور عنایات سے نواز سکتے ہیں تو میں دنیا و آخرت میں ان کی کرم نوائیوں کا امیدوار ہو سکتا ہوں۔ اب تم یہ کہو گے کہ میں ہندو ہوں اور ہندو ایسے خواب سے سرفراز نہیں سکتے، تو میں یہ کہوں گا کہ منکروں کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے خوابوں کو خوابِ پریشاں ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی دلیل بھی نہیں دی جا سکتی۔

مجھے اس سلسلے میں ایک کہانی یاد آ گئی۔ ایک بادشاہ نے اپنے درباری علما سے کہا کہ نماز کے سلسلے میں بادشاہوں کےلیے نماز نہ پڑھنے میں کوئی رعایت ہے؟ ایک موقع پرست عالم نے مختلف دلائل سے دو وقت کی نماز نہ پڑھنے کا جواز پیش کر دیا۔ بادشاہ نے اسے انعام سے نوازا۔ کچھ ہی دنوں بعد بادشاہ نے اور نمازوں کے بارے میں وہی سوال کیا۔ اس مرتبہ دوسرے عالم نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور مختلف دلائل سے مزید دو وقت کی نماز کی بھی مثالیں پیش کر دیں بادشاہ بہت خوش ہوا کہ چار وقت کی نماز سے تو نجات ملی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد بادشاہ نے پھر اسی سوال کو دہرایا تا کہ آخری نماز کا بھی کوئی جواز نکل آئے لیکن اس مرتبہ سب عالم خاموش بیٹھے رہے اور کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ کوئی جواز پیش کرے۔ بادشاہ کو تردد میں دیکھ کر ایک عالم کھڑے ہوئے۔ بادشاہ نے ان کی طرف بڑے اشتیاق اور اعتماد سے دیکھا۔ دیگر علما یہ سوچنے لگے کہ آخری بازی یہ لے گیا لیکن کوئی یہ نہ سمجھا کہ جھوٹوں اور مصلحت پسندوں کے درمیاں سچے بھی ہوتے ہیں۔ جن کو اپنی سچائی پر یقین کامل ہوتا ہے۔ ان کے سر کسی کے سامنے خم نہیں ہوتے۔ بادشاہ یہ سکوت کا عالم دیکھ کر اس عالم سے مخاطب ہوا کہ مجھے یقین تھا کہ آپ کی نگاہ ہلند اور آپ کا علم عمیق ہے۔ آپ کے مقابل میرے دربار میں کوئی عالم نہیں ہے۔ عالم نے بادشاہ کے حضور میں دست بستہ عرض کیا کہ عالی جاہ! میں نے آپ کے لیے وہ راستہ نکالا ہے کہ اس پر کسی کی نگاہ جا ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ سب کی آنکھوں پر مصلحت پسندی اور خود غرضی کے حسین پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر عالی جاہ کسی وقت کی بھی نماز نہ پڑھیں تو اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ میری ناچیز رائے تو یہ ہے کہ حضور! آپ مذہب اسلام سے انکار فرما دیں۔ ان جملوں کو سنتے ہی دربار میں سناٹا چھا گیا۔

پیارے جوشؔ! تمہاری حالت بھی کچھ ایسی ہے۔ تم نے جو خواب دیکھا تھا اس کا قدرتی اثر بقول تمہارے یہ ہوا یعنی اس خواب کی تعبیر یہ ہوئی کہ جس جائیداد سے تمہارے والد نے تمہیں محروم کر دیا تھا دوبارہ تمہارے والد نے تمہارے حق میں بحال کر دیا۔

اب تمہیں بتاؤ کہ یہ خواب تم نے گھڑا ہے یا سچا ہے؟ تم نے یہ خواب شیعہ قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے تراشا ہے۔ اگر اس خواب کو تم سچا سمجھتے تو یقینا دہریت سے توبہ کر لیتے۔ بھئی ایسا خواب میں نے اگر دیکھا ہوتا تو میں نے اپنی دنیا ہی بدل دی ہوتی۔ اب تم یہ کہو گے کہ میں ہندو ہوں۔ مجھے یہ پاک ہستیاں خواب میں نظر آ ہی نہیں سکتیں۔ بھئی اس موقع پر میرے خیال میں ہندو مسلمان کا سوال ہی نہیں ہوتا کیونکہ جو منکرِ خدا ہے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور جب مسلمان ہونا تسلیم نہیں ہوا تو یہ خواب بھی خوابِ پریشان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اول تو تم نے اس خواب میں حضرت علی کے لیے جو الفاظ اور جس بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ یعنی حضرت علی بہ نفسِ نفیس تمہارے پاس آئے۔ خادم مخدوم کے پاس جاتا ہے۔ مخدوم کے آنے سے توہین کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چونکہ یہ خواب جھوٹا ہے اس لیے تم نے تحریر پر غور نہیں کیا۔ جھوٹ میں یہ غلطیاں عام طور پر ہو جاتی ہیں۔ بہرحال تم اس خواب کے بعد کم سے کم پیغمبرِ اسلامﷺ اور حضرت علی کے تو صحیح پرستار ہو جاتے، نعت یا منقبت سے کچھ نہیں ہوتا:

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

مگر تم نے ایسا نہیں کیا؛ کیونکہ ان کی پیروی میں خدا کو بھی ماننا پڑتا۔ اسی لیے میں نے یادوں کی بارات کو جھوٹ کا پلندہ کہا ہے۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا ہوں کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فنکارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیر ہیں۔

اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہے۔ تمہاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی داؤ پیچ سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ تم نے بندشِ الفاظ کی نئی راہیں نکالیں تراکیب کا بہترین سرمایہ گھن گرج کے ساتھ ادب کو دیا ہے۔ شاعری میں جو مقام تم نے حاصل کر لیا ہے اس کو کم نہ سمجھو۔ میری ذاتی رائے ہے کہ آنے والا زمانہ اور تاریخِ ادب تمہیں فراموش نہیں کر سکتی۔ تم زندہ ہو اور زندہ رہو گے؛ کیونکہ ادب میں نئی اور حسین تراکیب کے تم شہنشاہ ہو۔ تم اقبالؔ کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو؛ کیونکہ یہ گناہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اس کو کھوٹا نہ کرو۔ پچھلے حالات و خیالات کی تلافی اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ یا تو تم توبہ کر لو یا خدائی کا دعوی کر دو۔
تمہارا فراقؔ
جنوری 2، 1975ء
الہ آباد
(بشکریہ ریختہ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے