Ticker

6/recent/ticker-posts

دینی، ایمانی اور دعوتی ماحول اور فضا کے لیے کچھ کرتے رہنا چاہیے

دینی، ایمانی اور دعوتی ماحول اور فضا کے لیے کچھ کرتے رہنا چاہیے


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

دین کی ترویج اور تبلغ و اشاعت کے لئے، دینی اور شرعی احکام سے لوگوں کو واقف کرانے کے لئے زیادہ سے زیادہ دعوتی و دینی اور علمی اجتماع کرنا یہ بڑا اونچا اور مفید عمل ہے، اس کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے اور آج کے اس فساد زدہ اور حیا سوز، ایمان سوز اور اخلاق سوز ماحول میں اس کی کچھ زیادہ ہی ضرورت و اہمیت ہے۔۔

حدیث شریف میں دینی، ایمانی اور شرعی مجالس قائم کرنے اور دعوتی و تبلیغی اجتماع کرنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :


عن یمین الرحمن رجال لیسوا بانبیآء ولا شھداء یغشی بیاض وجوھھم نظر الناظرین یغبطھم الانبیاء و الشہداء بمقعدھم و قربھم من اللہ عز و جل، قیل یا رسول اللہ من ھم ؟قال ھم جماع من نوازع القبائل یجتمعون علی ذکر اللہ فینتقون اطایب الکلام کما ینتقی آکل التمرة اطایبه۔ ( مجمع الزوائد، کتاب الاذکار باب ما جاء فی مجالس الذکر )

کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی داہنی جانب کچھ ایسے آدمی ہونگے جو نہ نبی ہوں گے اور نہ شہید۔ ان کے چہروں کا نور اور روشنی دیکھنے والوں کی نظر کو خیرہ کرتا ہوگا۔ ان کے مقام و مرتبہ کو دیکھ کر انبیاء و شہداء بہت خوش ہو رہے ہونگے، لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مختلف قبائل اور بستیوں کے لوگ ہوں گے، جو اللہ کے ذکر کے لئے دنیا میں اکٹھا ہوتے تھے، پاکیزہ اور بہترین کلام چنتے تھے، جس طرح کھجور کھانے والا اور لذیذ کھجور کا انتخاب کرتا ہے۔


اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے، اور اس حقیقت کو ذہن نیشن کرایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے لئے، دین کی بلندی و سرفرازی کے لئے، اعلاء کلمة اللہ کے لیے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے لیے، ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں تو ان کا وہ اجتماع، دینی و شرعی اور دعوتی نشست خیر و برکت کا موجب ہوتا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو آپس میں دین سیکھنے اور سکھانے کا موقع ملتا ہے۔ نیز اس طرح کی مجالس، اجتماعات اور مشاورتی بیٹھک اور مجلس و محفل سے مسلمانوں میں اجتماعی زندگی اور سوشل لائف کا شعور اور مذھبی معاملات میں اجتماعیت کا ساتھ دینے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔

دینی و ایمانی اجتماع، جوڑ اور بیٹھک کی فضیلت کے سلسلہ قرآن میں اور احادیث نبویہ میں واضح تفصیلات ملتی ہیں، متعدد روایات، احادیث کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں، اور اس بارے میں صحابہ کا اسوہ اور طرز عمل بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء و احباب کے ساتھ اجتماع کرتے تھے، عورتوں کے لئے الگ مجلس کا اہتمام ہوتا تھا، تا کہ ان میں بھی دین و ایمان اور علم سیکھنے اور سکھانے کا جذبہ پیدا ہو۔ حالات اور تقاضے کے مطابق دین و مذہب کی بنیادی تعلیمات اور تقاضوں سے وہ واقف ہوں۔ مذہبی اجتماعات، دینی علمی اور شرعی مجلسیں اور محفلیں بھی اسی سنت کی یاد تازہ کرتی ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دعوتی، دینی اور تربیتی اجتماعات و ورکشاف کے بے شمار فائدے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر اور چھوٹے پیمانے پر بھی اجتماعات، کانفرنس اور ورکشاف کا اہتمام کرتی ہے۔ ضرروت ہے کہ ہم ان اجتماعات اور دینی مجالس کو اپنے ایمانی، دینی، اور دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے منعقدد کریں، تاکہ ہم اس مقام و مرتبہ، معراج اور بلندی و سرفرازی کو پا سکیں جن کو دیکھ کر انبیاء بھی رشک کریں گے۔ (مستفاد امثال الحدیث، ۱۹۲)


یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ہم امت دعوت ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہم کو مکلف بنایا گیا ہے، اچھائیوں کو فروغ دینا اور برائیوں سے روکنا ہر مسلمان کا اہم ملی، دینی اور شرعی فریضہ ہے، اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب تک مسلمان بحیثیت امت دعوت اس فریضہ کی ادائیگی کرتے رہے، اس وقت تک اللہ کی طرف سے ان کی حفاظت ہوتی رہی، نصرت آتی رہی، اور وہ ترقیوں کے مدارج و منازل طے کرتے رہے۔ لیکن جب انہوں نے اس فریضہ اور ذمہ داری سے غفلت برتی تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم ہو گئے اور امت طرح طرح اور قسم قسم کی مصیبتوں میں مبتلا ہوگئی۔۔۔۔۔

معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کی ذمہ داری بحیثیت امت سارے مسلمانوں پر ضروری ہے اور یہ ایسا فریضہ ہے، جس سے غفلت نہیں برتی جاسکتی، لیکن پوری امت اس کام کو انجام نہ دے سکے تو مسلمانوں میں ایسی جماعت اور ایسے گروہ کا ہونا ضروری ہے جو اس کام کو انجام دے۔


ہم سے پہلے یہ کام اور ذمہ داری اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو دی گئی تھی، مگر انہوں نے اس فریضہ کو ادا کرنے میں کوتاہی برتی، اور اس کوتاہی کی سزا پائی، اور وہ قوم خود ہی برائیوں اور غلط کاموں میں مبتلا ہوگئی اور ان میں جو تھوڑے لوگ ان برائیوں سے محفوظ تھے انہوں نے خطاکاروں کو روکنے ٹوکنے اور ان کی اصلاح کرنے کا کام چھوڑ دیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر غضب نازل کیا۔ سورہ مائدہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

بنی اسرائیل کے بعد انسانوں کی رہنمائی کا فریضہ امت مسلمہ کو سونپا گیا، ان کو منصب امامت پر فائز کیا گیا اور ان کو خیر امت کا لقب دیا گیا تاکہ وہ انسانوں کو معروف کے کاموں کی ترغیب دیں اور برے کاموں سے روکیں، اور کام اور ذمہ داری کی بنا پر خیر امت کا لقب دیا۔ اس لیے ہمیشہ ہم کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے لیے سرگرم رہنا چاہیے۔۔


آئیے ہم سب طے کریں کہ ہم جہاں ہیں اور جس ماحول میں بھی ہیں، وہاں اس طرح کا جلسہ و اجتماع کرکے دینی و علمی محفل و مجلس قائم کرکے دینی اور ایمانی ماحول بنانے کی کوشش کریں گے۔ درس قران، درس حدیث، تقریر و تحریر، وعظ و نصیحت، مذاکرہ اور افہام و تفہیم اور صلح و صفائی کے راستے کو اپنا کر، ہم اس فریضہ کو ضرور ادا کریں گے، وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، وسیع تر ملی و قومی مفاد کے لیے اجتماعی جد و جہد کریں گے تاکہ بگڑے ہوئے سماج کی اصلاح ہوسکے اور ایسی پرسکون فضا قائم ہو، جس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کا مخلص، ہمدرد ہمنوا اور غم خوار و غمگسار ہو، یہ وقت کا اہم تقاضا اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس کی کمی ہر جگہ محسوس ہورہی ہے، یہ کام تھوڑا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔

( ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی، گڈا، جھارکھنڈ )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے