Ticker

6/recent/ticker-posts

وجودِ الٰہی اور دین کا تصوُّر - ایک جائزہ

وجودِ الٰہی اور دین کا تصوُّر - ایک جائزہ

(حصہ اول)
(عابد حسین راتھر)
دورِ حاضر میں کچھ مسلمان (خاص طور پر مسلمان نوجوان) خدا، مذہب، روح جیسے تصورات کے بارے میں متشکّک ہیں۔ یعنی ایسے حضرات ان تصورات کو مشکوک سمجھ کر کبھی کبھار اِن اصطلاحات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے لوگ جدید مغربی مُلحدانہ فلسفہ سے متاثر ہوکر مشہور ماہر نفسیات سِگمنڈ فرائیڈ کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا اور مذہب جیسے تصوّرات انسانی ذہن کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کی جڑ یا بنیادی وجہ مذہب ہے۔ یعنی مذہب دنیا میں افلاس، بدبختی وغیرہ کا ماخذ ہے۔اگر دنیا میں مذہب کا تصوّر نہیں ہوتا تو شاید ان چیزوں کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ سائنسی اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کے اس عقیدے سے بےحد متاثر ہے کہ مذہب حکمران طبقہ کی ایجاد ہے تاکہ وہ مزدور اور کمزور طبقہ کو مذہبی عقائد کے تلے دبا کر ان پر اپنی حکومت اور اپنا غلبہ برقرار رکھ سکے۔


اب یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کچھ مسلمانوں خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے اندر پنپتے اس مُلحدانہ رویہ کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ کیا اس کے ذمہ دار ہمارے روایتی مبلغین اور واعظین حضرات ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاشرے کے اعلٰی طبقے کے زیر اثر اسلام کے حقیقی پیغام اور حقیقی تعلیمات کو چھپا کر لوگوں کے سامنے جعلی اور بناوٹی اسلام پیش کرتے ہیں اور سائنس کو اسلام کا متضاد سمجھتے ہیں۔ یا اس رویہ کے ذمہ دار مسلمانوں کا وہ دانشور طبقہ ہے جنھوں نے اپنے دین یعنی اسلام اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی اور موزونیت ڈھونڈ کر اسلام میں جدید مسائل کا حل تلاش نہ کرنے کے بجائے اپنے سائنسی جنون کو پائہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش میں اپنے دین کو بالائے طاق رکھ کر جمُودیت کا شکار بنا دیا اور اپنے لوگوں کے اندر اس مُلحدانہ رویے کو پنپنے کا موقع دیا۔


عابد حسین راتھر


مضمون کے اس مرحلے پر اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ خدا اور مذہب کے خلاف بدظنی اور عناد کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ یہ نظریات دور جدید کے اولین مرحلے یعنی اٹھارویں صدی کے دورِ عقلیت یا روشن خیالی کے دور میں نمودار ہوئے جس کی پشت پناہی اور حمایت میں سولہویں صدی کا سائنسی انقلاب تھا۔ کیونکہ مختلف کتب میں اس بات کے واضع ثبوت موجود ہیں کہ دورِ ماضی میں سقراط اور افلاطون جیسے کئی عظیم فلسفی الوہیت اور عظیم غیبی طاقتوں پر یقین رکھتے تھے۔


سائنسی انقلاب کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں نے جدید فکری سوچ کی بنیادوں پر مذہبی عقائد پر سوالات کرنا شروع کئے اور بالآخر یورپ کے ریفارمیشن دور یعنی تحریک اصلاح کلیسا میں لوگوں نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا۔ لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں اس نفرت کی بنیادی وجہ کلیسا کی بلاجواز ظلم و زیادتی تھی جس نے عام لوگوں اور دانشوروں کو پادریوں کے اقتدار اور حکمرانی کو چیلنج کرنے پر مجبور کردیا۔ پوپ کے اقتدار میں تخلیقی سوچ پر مکمل پابندی تھی اور کسی بھی قسم کے اختلاف کی بلکل بھی گنجائش نہیں تھی اور اختلاف کے عوض سخت نتیجہ بھگتنا پڑتا تھا۔ ان ہی بنیادوں پر اٹلی کے مشہور فلسفی اور ریاضی دان 'گیوردانو برونو' کو 17 فروری 1600ء کے دن زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ اُس نے کلیسا کے رائج کردہ سخت عقائد کو چلینج کیا تھا۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلیسا کے اس ظالمانہ برتاؤ اور رویہ سے لوگوں کے دلوں میں مذہب کے تئیں پنپتی مایوسی اور نفرت کو جوازیت حاصل تھی لیکن یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ اگر ایک کشتی ہمیں ساحل تک پہنچانے میں ناکام ہورہی ہے تو ہمیں ساحل تک پہنچنے کیلئے کشتی سے دریا میں چھلانگ مارنے کے بجائے عقلمندی کا ثبوت دے کر کشتی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرکے مسلے کو حل کرنا چاہئے۔ اگر اس اصول کو اپنا لیا جائے کہ ہر اُس چیز کو ترک کر دینا چاہئے جو امن اور اچھائی کی فراہمی یا برائی سے نجات دلانے میں ناکام رہی ہو تو سب سے پہلے سائنس کو ترک کردینا ضروری ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو سائنس کی وجہ سے دنیا کا امن بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ظالم برطانوی سلطنت نے سائنس اور تیکنولوجی کی مدد سے ہی تقریباً آدھی دنیا کو اپنی نو آبادیات بناکر وہاں کے مقامی باشندوں پر اپنے ظلم و ستم ڈھائے۔ امریکہ نے اپنے جوہری حملوں سے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا۔ علاوہ ازیں افغانستان اور عراق میں ڈرون حملے کے ذریعے امریکہ کے وحشیانہ طرز عمل اور بربریت کے مظاہرے میں جدید سائنس کا ایک اہم رول تھا۔ کیا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں سائنس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ یہاں پر کچھ لوگوں کا جواب ہوگا کہ سائنس نے تو بنی نوع انسان کو بہت ساری سہولیات بھی فراہم کی ہے اور کسی بھی چیز کا غلط استعمال کرکے اس کو نقصان دہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ جی ہاں، آپ بلکل صیح سوچ رہے ہیں اور اسی نقطے میں سارا فلسفہ چھپا ہے۔ چیزوں کے استعمال کا طریقہ ان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم یہی اصول سائنس کی طرح مذہب میں بھی اپنا سکتے ہیں۔ جی ہاں، سائنس کی طرح مذہب کا بھی غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اگر کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اصلی دین کو چھپا کر لوگوں کے سامنے بناوٹی دین پیش کررہے ہیں تو اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کو ترک کرنے کے بجائے علمی تحقیق کرکے لوگوں کے سامنے حقیقی دین کو پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس نقطۂ نظر پر ہم سب کو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


امریکہ کے ایک دانشور تھامس وی مورس (Thomas V Morris) نے ایک اہم کتاب (God and the Philosophers: The Reconciliation of Faith and Reason) کی ترتیب دی ہے جو اصل میں بہت سارے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مختلف عیسائی فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے ملحدانہ نظریہ سے مذہبی نظریہ تک کا سفر قلمبند کرکے یہ بات واضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے کس طرح علمی تحقیق سے مذہب، عقل اور سوچ کو آپس میں ہم آہنگ پایا۔ اب اگر ہم مسلمانوں کی بات کرے تو ان کے نزدیک ایمان اور عقل کی آپسی ہم آہنگی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ مسلم نشاۃ ثانیہ کے دور میں اکثر مسلم دانشور اس بات پر پریقین تھے کہ ایمان اور عقل کا آپس میں ایک اہم میل جول اور مطابقت ہے اور یہی نقطۂ نظر اسلامی تہذیب کی بنیاد بنی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعد میں جب مختلف وجوہات کی بنیاد پر اسلامی تہذیب کا زوال آیا تو مسلمانوں کی سائنس میں دلچسپی ختم ہوگئی اور انھوں نے غور وفکر کرنا چھوڑ دیا۔ اب مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک گروہ سائنس کو قرآن کے خلاف سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ (جس میں نوجوانان کی تعداد زیادہ ہے ) سائنس پر سخت یقین رکھتا ہے لیکن اسلام اور خدا کے بارے میں مشکوک ہے۔


وجودِ الٰہی اور دین کا تصوُّر - ایک جائزہ

(حصہ دوم)
(عابد حسین راتھر)
پچھلے ہفتے زیرِ عنوان مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے وجودِ الٰہی اور دین کے بارے میں مُلحدانہ نظریات کا تواریخی پس منظر پیش کرکے اس کے بنیادی اسباب کو جاننے کی کوشش کی تھی۔ مضمون کے اِس حصے میں اب ہم کچھ اہم مُلحدانہ نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں پر قبضہ کرکے اُنھیں اُلجھا رکھا ہیں۔ مُلحدانہ نظریات رکھنے والوں کا سب سے پہلا اور اہم اعتراض یہ ہے کہ اِس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ کائنات آج سے تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے بِگ بینگ دھماکے کی شکل میں خود بخود وجود میں آئی۔ لیکن سائنس کی دنیا میں یہ مضحکہ خیز اعتراض بلکل نامعقول اور بے معنٰی ہے۔ ایسے لوگ اس بات پر کامِل یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے لیکن جب کائنات کے وجود کا سوال اُٹھتا ہے تو ایسے نظریات رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ کائنات کا وجود اتفاقاً خود بخود ہوا ہے۔ یونانی فلسفی پرمینائڈس (Parmenides) کا ایک مشہور قول ہے، (Out of nothing, nothing comes) یعنی 'کچھ نہیں' میں سے کچھ بھی نہیں نکل سکتا ہے۔ لہذا اگر کائنات کے وجود سے پہلے کسی بھی چیز کا وجود نہیں تھا تو مادے کی شکل میں کائنات کا وجود ناممکن تھا۔ اسی طرح توانائی کا بھی خودبخود وجود میں آنا ناممکن تھا۔ ایسے لوگوں کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر کائنات کا کوئی خالق ہے تو پھر اس خالق یعنی خدا کا خالق کون ہے؟ لیکن ایسے لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ خالق کا سوال ذہن میں تب آتا ہے جب ہمارے سامنے کسی مخلوق کا مکمل تصور ہو۔ مثلاً اگر ہم کسی مکان کو دیکھتے ہیں تو اُس کے بنانے والے کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ چونکہ ہماری سوچنے کی طاقت خدا کی مکمل ذات کا تصور کرنے کیلئے نابلد اور نااہل ہے، لہذا خالق کے خالق کا سوال قطعی طور پر لایعنی بن جاتا ہے۔


ملحدانہ نظریات رکھنے والے افراد چونکہ سائنس کے اصولوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر مادی چیزوں سے واسطہ رکھتے ہیں لہذا ایسے اشخاص کا خدا کے بارے میں تیسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ ہم ایسی ذات پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں۔ لیکن ایسے اعتراضات کرتے وقت وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کائنات میں بہت ساری ایسی چیزوں کا وجود ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے بلکہ صرف محسوس کر سکتے ہیں جیسے کہ احساس، درد، خوشی، روح وغیرہ۔ علاوہ ازیں انسان کی طاقتِ بصارت محدود ہے وہ کائنات کی تمام اشیاء کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ اگر ہماری آنکھیں سورج کی روشنی کے طیف کے سفید جُز کے بغیر اس کے باقی اجزاء کو نہیں دیکھ سکتی ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں باقی رنگوں کے اجزاء موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی کُھلی جگہ میں کسی خاص سِمت کی جانب دیکھیں گے تو کچھ فاصلے کے بعد ہماری آنکھیں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی ہیں مگر اس سے ہم یہ مطلب نہیں نکال سکتے ہیں کہ اس فاصلے کے بعد کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انسان کی محدود طاقتِ بصارت ایک لامحدود ذات یعنی خدا کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتی ہے۔ خدا کی لامحدود اور لامتناہی ذات کے وجود کا خوبصورت تصور حضرت علی ؓ نے بہترین انداز میں پیش کیا ہے جو نہجُ البلاغہ کے خطبہ نمبر 184 میں درج ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہے،


' جس نے اس سے مختلف کیفیات سے متصف کیا اس نے اس سے یکتا نہیں سمجھا۔ جس نے اس کا مثل ٹھہرایا، اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا۔۔۔ اس کی ہستی زمانہ سے پیشتر، اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمیشگی نقطۂ آغاز سے بھی پہلے سے ہے۔۔۔ وہ کسی حد میں محدود نہیں اور نہ گننے سے شمار میں آتا ہے۔۔۔ حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہوسکتے۔ بھلا جو چیز اس نے مخلوق پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیوں کر طاری ہوسکتی ہے اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پزیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علٰیحدہ ہوجائے گی۔۔۔ تصورات اس سے پا نہیں سکتے کہ اس کا اندازہ ٹھہرا لیں اور عقلیں اس کا تصور نہیں کرسکتی کہ اس کی کوئی صورت مقرر کرلیں۔ حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے کہ اس سے محسوس کرلیں۔۔۔ '


مُلحدانہ سوچ میں الجھے ہوئے لوگوں کا چوتھا آخری اور اہم اعتراض یہ ہے کہ جیسے کائنات خود بخود ظہور پزیر ہوئی ہے ویسے ہی ایک دن یہ خود بخود ختم ہوجائے گی لہذا موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یونان کے مشہور فلسفی سقراط کا ایک مشہور قول ہے کہ 'اگر موت ہر چیز کا مکمل اختتام ہوتا تو پھر بدکار لوگوں کی موت سے اچھی سودے بازی ہوتی کیونکہ انہیں موت کے بعد اپنے بُرے اعمال کیلئے جوابدہ نہیں ہونا پڑتا مگر موت صرف جسم کو آتی ہے اور روح لافانی ہے۔' اگر موت ہمارا کُلی طور پر خاتمہ ہوتا تو پھر دنیاوی زندگی بے معنٰی ہوکر رہ جائے گی کیونکہ ہر فرد اِخلاقی اقدار کا لحاظ کئے بغیر اور اچھے بُرے میں تمیز کئے بغیر اپنی مرضی کا مالک بن کر اپنی زندگی گزارے گا۔ اس طرح سے انسان اپنا خصوصی مقام اور اپنی شناخت کھو کر کرّہ ارض کے باقی حیوانات کی طرح ایک حیوان بن کر ان میں گھل مل جائے گا۔ اس کے برعکس موت کے بعد کی زندگی کا نظریہ ہمیں اُخروی دنیا میں اپنے اعمال کا جوابدہ بناکر ہماری دنیاوی زندگی کو بامعنٰی اور بامقصد بناتی ہے۔ جسمانی موت دراصل ہماری روح کی ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقلی ہے۔ اگر سائنس ابھی تک موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں تحقیق کرکے کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موت کے بعد کی زندگی ناممکن ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس ابھی ترقی کے اس مقام پر نہیں پہنچ سکی ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم کر سکے لیکن ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ایسا ممکن ہو۔ جس طرح آج سے صدیوں پہلے کے ناممکنات سائنس نے ممکنات میں تبدیل کرکے خدا کی عظمت اور آیات کو ہمارے سامنے واضع کرکے رکھ دیا ہے، اِسی طرح شائد مستقبل میں سائنس موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں واضع ثبوت فراہم کر سکے۔ مضمون کے آخر میں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ وجود الٰہی اور دین کے تصور کے بارے میں مُلحدانہ نظریات سے بچنے کیلئے ہمیں چاہئے کہ ہم سائنسی اور دنیاوی علوم کے ساتھ دینی علوم کا متوازن اسلوب میں مطالعہ کرکے تحقیق کرے اور وجود الٰہی کے بارے میں تمام شک و شبہات کا ازالہ کرے۔
(ختم شد)
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے