Ticker

6/recent/ticker-posts

جشن جمہوریہ۔ اور ہماری ذمہ داریاں

جشن جمہوریہ۔ اور ہماری ذمہ داریاں


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

آزاد ہنـدوسـتان کی تاریخ میں دو دن بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں، ایک 15/ اگست جس میں ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور دوسرا 26/ جنوری جس دن ملک کی بقاء و سالمیت اور استحکام کے پیشِ نظر "سیکولر جمہـوری قوانین" نافذ کئے گئے۔

اس لئے 26 جنوری 1950ء کو نئے جمہوری قوانین کے نفاذ کی خوشی میں پہلا یومِ جمہوریہ منایا گیا اور پھر اسی طرح ہرسال 26 /جنوری کو جشـنِ جمہـوریت "یـومِ جمہـوریہ" کے نام سے منایا جانے لگا۔ اور 15 اگست 1947ء کی طرح یہ تاریخ بھی ہمارے ملک کی یادگار بن گئی، جس طرح 15 / اگست کو شہـداءِ وطن کی قربانیوں کو یاد کرکے انہیں مبارکباد پیش کی جاتی ہے، اسی طرح 26/ جنوری کو سیکولر جمہوری نظام کے بانیین، مرتبین اور نافذین کو بہترین انداز میں خراجِ عقیدت و محبت پیش کی جاتی ہے۔


اس ملک کے جمہوری قوانین کو نافذ کرنے کے لیے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی صدارت میں 29 اگست 1947ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئ تھی، جس کو ملک کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں ۲/ سال ۱۱/ ماہ ۱۸ دن لگے۔ دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر شق پر کھلی بحث ہوئی، پھر 26/ نومبر 1949ء کو اسے قبول کرلیا گیا اور 24/ جنوری 1950ء/ کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا۔البتہ شاعر حریت حسرت موہانی مرحوم نے مخالفت کرتے ہوئے دستور کے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکھا کہ ۰۰ یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء، چربہ اور توسیع ہے، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوتا۔

بہر حال 26/ جنوری 1950ء کو اس نئے قانون کو لاگو (نافذ )کرکے پہلا جشن جمہوریہ منایا گیا۔ اس طرح ہر سال 26/ جنوری کو جشن جمہوریت، اور یوم جمہوریت کے عنوان سے منایا جانے لگا اور 15/ اگست 1947ء / ہی کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کی قومی اور یاد گار تاریخ بن گئ۔


ہمارے ملک کے سیکولر دستور میں ہر ایک کا خیال رکھا گیا ہے، تمام قبائل، قوموں اور ذات برادری نیز اقلیتوں کی بھر پور رعایت کی گئی ہے۔ جمہوری قانون کے اعتبار سے اس ملک کے قانون کا مطالعہ کیا جائے تو ہمارے ملک کا قانون بہت منظم، مرتب اور متنوع ہے اور اس میں ہر طبقہ کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے اور کسی طرح کے ساتھ بھید بھاؤ اور اونچ نیچ اور دونظری سے صاف رکھا گیا ہے۔ اگر ہندوستانی باشندے یہاں کی حکومت اور عدلیہ سب کے سب یہاں کے قانون کی سو فیصد پاسداری اور رعایت کرنے لگیں، تو یہ ملک صحیح معنی میں بے مثال و بے نظیر جمہوری ملک بن جائے گا اور پھر کسی طبقہ کو کسی سے شکایت نہیں رہ جائے گی۔


لیکن دوستو ! یہاں ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہے کہ یہ آزادی و خوشی اور یہ جشـن و بہار ھمیں ایک یا دو انگلی کٹا کر اور ایک دو سال کے احتجاج کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بلکہ اس کے لئے ھمارے اسلاف نے اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا ہے اور مسلسل 90 سال تک عظیم قربانیاں دی ہیں، تب کہیں جاکے ھمیں یہ آزادی کی نعمت حاصل ہوئی ہے۔

دوستو !
آپ سب جانتے ہیں کہ آج سے پچہتر ستتر سال پہلے ہمارا یہ عظیم ملک جس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور جس کو قدرت نے ہر طرح سے مالا مال کیا تھا، سفید انگریزوں کے قبضے میں تھا۔ یعنی ہم اس وقت غلام ہو گئے تھے۔ اور انگریز ہم پر حاکم ہو گیا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ غلامی کتنی بدتر چیز ہے۔ غلام آدمی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اسی لئے غلامی کو لعنت کہا جاتا ہے۔ ناپاک انگریز صرف ہم پر حکومت ہی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ پوری مکاری، عیاری اور چالاکی کے ساتھ یہاں کی قیمتی دولت کو سات سمندر پار بھیج رہے تھے۔ اور اس ملک کو کنگال کر رہے تھے۔ ولایت کی سستی چیزوں کو یہاں قیمتی داموں میں فروخت کرتے تھے اور یہاں کی مہنگی چیزوں کو خاص طور پر ڈرائے فروٹ اور مسالحہ جات کو جو صرف ہندوستان میں زیادہ ہوتا تھا اس کو بہت سستے داموں میں ملک برطانیہ والوں سے بیچتے تھے۔ جب ہمارے بدھی جیئویوں نے محسوس کیا کہ اس طرح تو ہمارا ملک کنگال ہو جائے گا اور یہاں کے لوگ بھوکے مرنے لگیں گے، تو یہاں کے باشندے آزادی کی لڑائی کے لئے اور آزادی حاصل کرنے کے لئے میدان آزادی میں کود گئے اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر انگریزوں سے مقابلے کے لئے تیار ہوگئے۔


دوستو ! پھر ایک طویل جد و جہد اور کوشش کے بعد جس میں لاکھوں ہندوؤں اور مسلمانوں کی جانیں گئیں اور لاکھوں کو قید و بند کی زندگی گزارنی پڑی اور اپنی جان و مال کا نقصان کرنا پڑا تب کہیں ہمارا یہ ملک آزاد ہوا۔ اور ہم کو آزادی نصیب ہوئی۔

اس ملک کو آزاد کرانے میں ہندو مسلم اور سکھ پارسی سب ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تھے۔ اور ان سب کی کوششوں سے آزادی کی یہ نعمت ہم سب کو ملی۔

اس ملک کو آزاد کرانے میں مہاتما گاندھی مولانا محمد علی جوہر رام پرشاد بسمل جواہر لال نہرو ابو الکلام آزاد سردار ولبھ بھائی پٹیل سروجنی نائیڈو خان عبد الغفار مولانا محمود الحسن سہارن پوری مولانا حسین احمد مدنی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی حسرت موہانی شوکت علی سوبھاش چندر بوس اور بہت سے لوگ آگے تھے اور ان کے پیچھے لاکھوں ہندوستانی تھے، جو ان کے اشارے پر کھڑے تھے۔ آزادی کے یہ وہ ہیرو اور سورما ہیں جن کی قربانی اور بلدان کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے۔


دوستو ! ہم کو یہ بھی کہنے دیجئے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ رہتے اور بستے ہیں۔

لیکن کثیر المذاھب ہونے کے باوجود یہ ملک گنگا جمنی تہذیب اور کثرت میں کی مثال پیش کرتا رہا اور یہی تنوع اور رنگا و رنگی اس ملک کی علامت و پہچان تھی۔

لیکن افسوس ! کہ ھمارا ملک فرقہ دھیرے دھیرے پرستوں کے چنگل میں آگیا اور اسے حاسدین کی نظرِ بد لگ گئی کہ پورے ملک میں بد امنی و بےچینی پھیل گئی جو تنوع اور رنگا و رنگی اس ملک کی پہچان ہوا کرتی تھی آج وہ فرقہ واریت میں تقسیم ہو گئی، اتحاد و اتفاق کی تصویر ہی مٹادی گئی اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری نے جگہ بنالی۔

اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے، عوام کی خواہشات، امنگیں، ان کے حقوق کا تحفظ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، گئو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ چندسالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں کوڈ19 اور لاک ڈاؤن کے غیر منصوبہ بند، نفاذنے ہر شہری کو پریشانی میں آج تک مبتلا رکھا ہے، گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے،۔۔


اس ملک کو ہمارے پروجوں، بزرگوں اور پرکھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر آزاد کرایا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔آپسی بھائی چارہ کی فضا قائم کرکے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ دیا۔ آج وہی ملک بدامنی اور ہنسا کا آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ملک کے دستور و آئین کی دھجیاں اڑا کر ملک کی فضا میں نفرت، تعصب اور تشدد کا زہر گھولا جا رہا ہے۔ جمہوریت پر مبنی قوانین کی اصلی شکل و ہئیت تبدیل کرکے منوواد کے نام پر ایک سیاہ قانون اور کالا بل ملک کے لوگوں پر تھوپنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔

ایسے نازک حالات میں ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ ہم جمہوریت اور سیکولرزم کی حفاظت کرکے اس ملک میں امن و شانتی اور پریم و محبت کے ماحول بنائیں اور ساتھ ہی اپنی نسلوں کو ملک کے جمہوری قوانین سے متعارف کرائیں، اور انہیں بتائیں کہ یہاں کے آئین نے ہمیں کس قسم کے اور کیسے اختیارات دئیے ہیں۔


کاش ! اس وقت نفرت بھرے ماحول کو امن و آشتی اور بھائی چارگی سے بدلنے کی کوشس کی جاتی، اقلیت و اکثریت کی جگہ جمہوری اقتدار پر توجہ دی جاتی، فرقہ پرستی کے بدلے اتحاد و اتفاق کو جگہ مل پاتی، نانک و چشتی کے خوابوں کی تعبیر کو ڈھونڈنے کا عزم کیا جاتا، ملک کو پھر سے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز بنایا جاتا اور اسی تنوع و رنگا و رنگی کو دوبارہ لایا جاتا ـ
کیونکہ..

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ھم وطن ہیں ہندوستاں ھمارا

ہم تمام ہندوستانی باشندے کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس جمہوری ملک کے نام کو پوری دنیا میں روشن کریں اور یہاں کے جمہوری دستور و قانون کو عملی طور پر برتیں اور سب مل کر امن و شانتی اور پریم و محبت کے ساتھ رہیں اور ہر جگہ انسانیت اور شرافت کا اعلی نمونہ پیش کریں۔

نوٹ۔ بہت سے احباب ۲۶/ جنوری کی مناسبت تحریر و تقریر کے لیے مواد چاہ رہے رہیں، ان کے مطالبے پر پیشگی یہ تحریر پوسٹ کررہا ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے