Ticker

6/recent/ticker-posts

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مجیب الرحمٰن،
٧٠٦١٦٧٤٥٤٢


شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ایک جہاں دیدہ دور رس و دور بیں شاعر تھے، قدرت نے بلا کی فہم و فراست سے نوازا تھا، مومنانہ صفات کے حامل تھے، حقیقت میں آپ اس فرمان رسالت کے مصداق تھے،۔۔ اتقو فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ۔۔ یعنی کہ مؤمن کی فراست سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نور سے وہ دیکھتا ہے۔

زبان رسالت کی یہ پیشن گوئی تھی کہ اسلام ہر کچے و پکے گھر میں داخل ہوکر رہے گا اللہ رب العزت اسی سے ذلیلوں کو ذلیل اور عزت داروں کو عزت بخشے گا۔


قرآن کریم میں بھی خالق کونین کا ارشاد موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے نور کو غالب کرکے رہیگا اگر چہ کافر اس کو ناپسند کریں

علامہ اقبال نے اپنے اس اشعار میں ہر بشر کو یہ پیشن گوئی یاد دلائ کہ۔۔۔۔

فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

علامہ اقبال پس پردہ شاعری پیرائے میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے نوازا ہے تو اس کی تبلیغ بھی ہونی چاہیے ہر بشر تک یہ پیغام پہنچنا چاہئے کہ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہی ذات ہے جو تن تنہا ہے، دنیا لاکھ برا بھلا کہے کافر کو کتنوں ہی گراں گزرے لیکن اس مشن کو کونے کونے تک پہنچانا ہر مؤمن اور صاحب ایمان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

آپ جس سماج جس خطے جس ملک میں بھی ہوں بہر حال حق کی صدا لگانا آپ کا مذہبی فریضہ ہے، آپ کی جیت ہو یاہار حکومتوں کا سامنا ہو یا حالات کی بے رخی کا تادم حیات اسی مشن کو لیکر آگے بڑھنا بے۔


اس وقت صرف ملکی نہیں بلکہ عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ توحید کے علمبردار اپنی مشن کو لیکر یا تو خوف زدہ ہیں یاپھر رسما رسم کی ادائیگی ہورہی ہے، چاہے ممالک اسلامیہ ہو یا پھر غیر، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی ملک میں کوی شخص اپنے مشن کو لیکر چلتا ہے تو پھر اسے کٹر پندی کا لبادہ اڑھاکر زبان گنگ کردی جاتی ہے، ہم اپنے ملک بھارت کی بات کریں دیگر دھرموں کی ترسیل وترویج ایک منصوبہ بند طریقے سے کی جاتی ہے، لیکن توحید کا علم لیکر کوی اٹھے تو تشدد پسند کٹرتا کا لیبل لگا کر زندگی خطرے میں ڈال دی جاتی ہے۔

اللہ کا فرمان سچ ہے،۔۔۔۔ خدا اپنے نور کو غالب کرکے رہیگا اگر چہ کافر اس کو ناپسند کریں۔۔۔

توحید کا مشن لیکر چلنے والوں کیلیے یہ آیت کریمہ ایک نمونہ ہے، اور ساتھ ہی ساتھ حبیب داور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی سامنے رہے، تو مقصد میں کامیابی ہوسکتی ہے۔


موجودہ دور کے منظر نامے پر اگر غور کریں تو ہماری بے وضعیت ہماری ذلت کی وجہ سامنے آشکار ہو جائے گی کہ ہم نے ہر چیز سیکھ لیا دنیا کے تمام مقاصد کو بروے کار لانے کی جد وجہد جاری ہے لیکن جس کیلیے ہمیں برپا کیا تھا اسی میں صفر ہے۔

اب جب اچانک کوی شخص اس صدا کو بلند کرتا ہے تو اسے زود و کوب کیا جاتا ہے کیونکہ سامنے والا سمجھتا ہے کہ وہ کوی نئ چیز پیش کررہا ہے، ہم نے جب سے آنکھیں کھولی ہیں تب سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ اگر اس ملک میں مسلمان اپنے توحیدی مشن کو لیکر آگے نہیں بڑھے تو پھر پریشانیاں اس کا استقبال کرنے کیلیے کھڑی ہیں، آج سچائ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ہماری تشخصات خطرے میں ہے، ہمارا شعار سیاسی رنگ میں رنگین ہے، حتی کہ ہمارا وجود داؤ پر لگ گیا ہے۔

اب ہمیں اپنے تشخصات کو بچانے کیلیے بس یہی ایک راہ ہے کہ علامہ اقبال کے اس شعر کو اپنی ذاتی زندگی کا مشن بنا کر غیروں کی پرواہ کئے بغیر اپنے منزل کی ہمواری میں لگ جانا ہے۔

یاد رہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، حالات میں رد و بدل کا سایہ پڑتا رہتا ہے، موسم کی تبدیلی اپنے وقت پر ہوتی رہتی ہے، لیکن توحیدی مشن ہمشیہ برقرار ہے اور برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، کوئی بھی صاحب ایمان یہ نہ سمجھے کہ ہم مذہب کے ہر چیز کو اپنا رہے ہیں، ہر کام کو کررہے ہیں ہر حکم کو فالو کررہے ہیں تو ہمیں فرصت مل گئی، ہر گز نہیں۔۔ ابھی آپ کا پیغام ہر گھر تک پہنچنا ہے اور آپ کو پہنچانا ہے، نہیں تو پھر جواب دینے کیلیے تیار ہو جائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے