Ticker

6/recent/ticker-posts

حج : اسلام کا اہم رکن

حج : اسلام کا اہم رکن

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ(9431003131)


اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے، ایمان لانا، اورایمان کے بعدنماز پڑھنا، روزہ رکھنا، بعض شرائط وقیود کے ساتھ سب پرفرض ہے، مردہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، فقیر ہو یا مالدار، سب ایک صف میں ہیں، چونکہ یہ کام سب کر سکتے ہیں، بعض مخصوص حالات میں جو لوگ نہیں ادا کر سکتے ہیں ان کو چھوٹ دی گئی ہے یا اعذار ختم ہونے کے بعد ادائیگی کاحکم دیا گیا ہے۔

زکوٰۃ اورحج سب پرفرض نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ ان کا تعلق مال سے ہے، اور سب مال والے نہیں ہیں، پھر جن کے پاس مال ہے، ان کے اوپر زکوٰۃ فرض کرنے کے لیے نصاب کی شرط لگائی گئی اور حج فرض کرنے کے لیے مالداری کے ساتھ ’’استطاعت‘‘ کی قید لگائی گئی، اس لیے کہ حج میں سفر کرنا بھی ہوتا ہے اورمال بھی خرچ کرنا ہوتا ہے، اب اگر آدمی بیمار ہے، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کر سکتا، قید میں ہے تو سفر کی اجازت ہی نہیں۔تندرست و توانا اور آزاد ہے؛ لیکن راستہ پرامن نہیں ہے۔عورت کے ساتھ کوئی محرم جانے والا نہیں ہے یا عورت عدت میں ہے، تو بھی سفر ممکن نہیں، اس لیے اس پر حج فرض نہیں، سب کچھ موجود ہے، سفر خرچ اورو اپسی تک بال بچوں کے نفقہ کی صورت نہیں بنی توبھی حج کرنا ممکن نہیں اور اللہ رب العزت اپنے فضل سے بندوں پر اسی قدر فرض کرتا ہے جس کی ادائیگی پر وہ قدرت رکھتا ہو۔


اب قدرت وطاقت، صحت، مال ودولت اور ہر قسم کی مطلوبہ استطاعت ہو تو اللہ اپنے گھر کی طرف بلاتا ہے، سب کچھ اللہ ہی کا دیاہوا ہے، ایسے میں وہ یوںہی بلا لے کچھ نہ دے اور کوئی وعدہ نہ کرے، تب بھی سر کے بل جانا چاہیے، دوڑنا چاہیے، لیکن یہ اللہ رب العزت کا کتنا بڑا فضل اور کرم ہے کہ سب کچھ دے کر کہتا ہے کہ آؤ میرے گھر، احرام باندھو، طواف کرو، سعی کرو، حجراسود کا استلام کرو، رکن یمانی کو چھوؤ، زمزم پیو، صفاومروہ کی سعی کرو، عرفہ، مزدلفہ میں وقوف کرو، منیٰ میں رات گذارو، شیطان کو کنکری مارو، قربانی کرو، ہم اس کے بدلے تمہیں جنت دیں گے، وہ جنت جس کے لیے تم پوری زندگی ہماری عبادت کرتے رہتے ہو، اس پوری زندگی کا مطلوب صرف ایک حج مقبول میں تمہیں دیں گے۔


تم نے اس سفر میں کوئی غلط کام نہیں کیا، جھگڑا نہیں کیا، شہوانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئیں تو ایسے پاک صاف ہو کر گھر لوٹوگے جیسے آج ہی تم ماں کے پیٹ سے معصوم پیدا ہوئے ہو، اس کے علاوہ اور بھی انعامات تمہیں ملیں گے، تمہارے اندر دنیا سے بے توجہی پیدا ہو جائے گی، آخرت کی فکر اور رغبت تمہاری زندگی کاحصہ بن جائے گی، تم نے جو مال خرچ کر دیا وہ تمہارے لیے فقر و فاقہ کا باعث نہیں بنے گا؛ بلکہ اللہ تعالی اپنے فضل سے تمہیں اور دے کر غنی بنا دے گا، اتنا دے گا کہ بے نیاز ہو جاؤگے، تمہیں ہر قسم کی عصبیت اور امتیازکی بیماری سے پاک کر دے گا، ریا، نمود و نمائش کا جذبہ ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالی کے اس اعلان فضل و نعمت کے بعد بھی دوسرے ارکان کی ادائیگی کی طرح حج میں جانے میں کوئی کوتاہی کرتا ہے تویہ بڑی محرومی اور بدبختی کی بات ہے، یقیناً حج زندگی میں ایک بار فرض ہے، لیکن فرض ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتا ہے اور کیا معلوم اگلی زندگی کیسی ہوگی؟


ابھی اللہ کے انعام کی قدر نہیں کیا اور بعد میں مال ہی جاتا رہا یاصحت ہی باقی نہ رہی تویہ فرض باقی رہ جائے گا، اس لیے انتظار کرنا کہ ملازمت سے سبکدوش ہو جائیں تب اللہ کے بلاوے پر لبیک کہیں گے اور سب گناہ سے رک جائیںگے، یہ شیطان کا بہلاواہے کہیں اس کے پہلے ہی بلاوا آ گیا اور کون جانتا ہے کہ کب بلاوا آئے گا؟ مرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کس وقت ملک الموت اپنا کام کر جائیںگے؛ اس لیے جو زندگی دی گئی ہے اور جو مال ودولت، صحت وعافیت فراہم ہے، اس کی قدر کرنی چاہئے اور بلاتا خیراللہ کے اس بلاوے پر دوڑ جانا چاہیے۔


ہمارے بعض بھائی اس اہم رکن کی ادائیگی کو اس لیے ٹالتے ہیںکہ بچی کی شادی کرنی ہے، حج الگ فرض ہے اور بچی کی شادی الگ ذمہ داری ہے، خصوصاً اس شکل میں جب کہ لڑکی ابھی سیانی بھی نہیں ہوئیں ہے ذمہ داری ہی اس کام کی نہیں آئی، ایسے میں کہاں کی عقل مندی ہے کہ ایک فرض کوآئندہ والی ذمہ داری کے نام پر ٹالا جائے۔یہی حال مکان کی تعمیر، زمین کی خریدگی، اور دوسرے گھریلو معاملات کا ہے، جن کے نام پر شیطان بہکاتا رہتا ہے، اور حج کی ادائیگی مؤخر ہوتی رہتی ہے، اور پھروہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ ادائیگی کی شکل باقی نہیں رہتی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی عذر نہ ہو، استطاعت بھی ہو، سخت حاجت بھی درپیش نہ ہو، ظالم بادشاہ اور مرض نے بھی نہ روکا ہو اور وہ بغیر حج کئے مر گیا تو یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کرمرے، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اللہ کی پناہ کس قدر سخت و عید ہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔


بندہ جب اس بات کو سمجھ لیتا ہے اور حج کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو اسے اللہ پر کامل اعتماد پیدا ہوجاتا ہے، وہ خدا کے فیصلوں پر بھروسہ کرنے لگتا ہے، اور دل میں اطمینان قلب کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس سے دنیا میں بھی سکون ملتا ہے اور آخرت کے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں، اس پہلے تحفہ کے ساتھ عازمین کا سفر حج شروع ہوتا ہے، مال ودولت کی محبت نکلتی ہے تو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بھی ہوتی ہے، جس جس کا حق دبا رکھا ہے، سب کو ادا کر دیتا ہے، بیٹی کا حق، بھائی کا حق، پڑوسیوں کے حقوق یہ اللہ پر توکل کا پہلا اثر ہوتا ہے، جو حقوق ادا نہیں ہوسکے، جو کوتاہیاں اور غلطیاں رہ گئیں اس کے لئے بندوں سے معافی مانگتا ہے اور سارے علائق دنیوی سے کنارہ کش ہوکر کفن نما دو کپڑے پہن کر اللہ کے راستے پر ہولیتا ہے۔


احرام باندھا، آرائش وزیبائش کا خیال جاتا رہا، نہ خوشبو ہے، نہ میل چھڑایا جا رہا ہے، نہ بال ناخن بنائے جا رہے ہیں، دیوانگی، وارفتگی، شیفتگی میں مزہ آرہا ہے۔عشق حقیقی کے مراحل طے ہو رہے ہیں، سفر جاری ہے، حاجی انہیں سر مستی میں مکہ پہنچ جاتاہے، وہاں وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ اپنے اپنے انداز میں عبادت کر رہے ہیں کوئی ہاتھ باندھے ہوا ہے، اور کوئی بغیر باندھے ہی اللہ کے دربار میں کھڑا ہے، کوئی آمین زور سے کہہ رہا ہے، اور کوئی دھیرے، کوئی رفع یدین کر رہا ہے، اور کوئی نہیں، جنازہ میں کوئی سلام ایک ہی طرف پھیرتا ہے تو کوئی دونوں طرف، اتحاد و اجتماعیت کا یہ مظہر، ہمیں ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونے کا تحفہ دیتا ہے، ذات برادری، زبان، علاقائیت، مسلک ومشرب، رنگ و نسل کی تفریق سب اس اجتماعیت میں کھو جاتے ہیں، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر، عجمی پر عربی کو فضیلت نہیں رہتی، معیارِ فضیلت تقویٰ کھلے آنکھوں سے یہاں دکھتا ہے، ایک امت اور ایک جماعت کا صرف تصور نہیں تصدیق کے مراحل طے ہوتے ہیں۔


قرآن نے یوں ہی اعلان نہیں کیا کہ یہ امت ایک امت ہے اسے ر ب کی عبادت کرنی چاہیے اور اس سے ہی لولگانا چاہئے، اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ وَ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْن پڑھتے جایئے اور غور کرتے جایئے کہ علم وحکمت کے کتنے موتی اور عمرانی تمدنی دنیا کے کتنے اسرار ورموز آپ پرکھلتے جائیں گے یہ منظر کتنا حسین ہے، کوئی اختلاف نہیں، کوئی جھگڑا نہیں، الگ الگ انداز سے عبادت کرنے والے کو حیرت کی نگاہ سے بھی کوئی نہیں دیکھتا، سب ایک لڑی میں پروے ہوئے ہیں، یہ لڑی کلمہ ٔواحدہ کی لڑی ہے، سب محمد رسول اللہ کے کلمہ پڑھنے والے ہیں، حج کا یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ فروعی مسائل میں کسی طرح لڑنے کی گنجائش نہیں ہے، کسی مسلک کا ماننے والا ہو، وہ حرمین شریفین کے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، کوئی نہیں دیکھتا کہ ہمارے امام سے ان کا طریقہ الگ ہے، یا یہ کس امام کو مان رہے ہیں۔ اجتماعیت کا یہ وہ پیغام ہے جسے حاجی اپنے ساتھ تحفہ کے طور پر لے کرآتا ہے، یہ تحفہ اسے دوسروں تک بھی پہونچانا چاہئے۔


ایک اور تحفہ صبروتحمل کا حاجی کے ساتھ آتا ہے، دھکے پردھکے کھا رہا ہے، اللہ کی بڑائی بیان کررہا ہے، معافی حاجی، معافی حاجی کی رٹ لگا رہا ہے، وہ دھکے کھاکر مرنے مارنے پرآمادہ نہہیی ہوتا؛بلکہ وہ سب سہہ رہا ہے، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے، اسے یاد ہے کہ’’ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلاَجِدَالَ فِی الْحَجِّ، ، وہ اپنے حج کو رفث، فسوق، اور جدال سے بچا رہا ہے، اب وہ حج سے لوٹا ہے تو دوسرے کے لئے بھی اپنے ساتھ برداشت کا تحفہ لا یاہے، تحمل اور صبر کی سوغات لایا ہے، یہ سوغات اگر قاعدے سے لوگوں تک پہونچ جائے تو بے شمار سماجی اور تمدنی فائدے لوگوں کو حاصل ہوں گے۔


ایک تحفہ شرک و بدعات سے اجتناب کا بھی ہے، صرف اور صرف اللہ کی عبادت کا جو خیال حج میں راسخ ہوتا ہے، لبیک اللھم لبیک کی صدا انسانوں کو جس طرح غیروں سے بے نیاز کرتی ہے اسے بھی عام کرنے کی ضرورت ہے، روضہ رسول پر صلاۃ و سلام پیش کرکے جو روحانیت حاجی نے حاصل کی ہے، اسے بھی بانٹنے کی ضرورت ہے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ محبت رسول کیا چیز ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اتباع رسول کس طرح بندے کو اللہ کی محبت کا حق دار بنادیتی ہے۔اس کے علاوہ حسب صلاحیت و استطاعت مختلف ممالک کے لوگوں کے احوال و آثار سے جو واقفیت اس سفر میں ہوئی، علمی گفتگو سے جو کچھ سمجھنے کوملا، یقینا یہ سارے تحفے انتہائی قیمتی ہیں، اور اس کی تقسیم بھی حاجی کی ذمہ داری ہے، کیوں کہ وہ ضیوف الرحمن بن کر گیا تھا، اور داعی بن کر واپس ہوا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے