حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی : قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی
(آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر منتخب ہونے پر خصوصی تحریر)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
جامعہ رحمانی مونگیر کے نامور فاضل، چوتھے امیر شریعت حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ نیزساتویں امیرشریعت مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کے شاگرد رشید، افتاء وقضاء میں امارت شرعیہ کے تربیت یافتہ، امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ وارباب حل عقد کے رکن، المعھدالعالی امارت شرعیہ کے ٹرسٹی اور رکن اساسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگذار جنرل سکریٹری وترجمان، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری، امارت ملت اسلامیہ آندھرا پردیش کے قاضی شریعت، مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ، مجلس علمی دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد، مجلس منتظمہ و مجلس نظامت ندوۃ العلماء لکھنؤ، مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قطر، رابطہ علماء اہل سنۃ والجماعت بحرین کے رکن، حضرت مولانامحمد سالم صاحبؒ، مولانا سید رابع حسنی ندوی، مولانامنیر احمد مظاہری اور مولانامحمد یونس پالن پوری ادام اللہ فیوضہم کے خلیفہ و مجاز، درجنوں ملی، تعلیمی، تحقیقی اداروں کے ذمہ دار، دارالعلوم سبیل السلام حید آباد کے سابق شیخ الحدیث، المعھد العالی الاسلامی حید آباد کے بانی، بڑے مفسر، فقیہ، مقرر، منتظم اور مدبر، دینی ملی، سماجی مسائل پر گہرائی اور گیرائی کی نظر رکھنے والے، ستر سے زائد قرآن واحادیث، فقہ، سیرت، تاریخ، تذکرہ، سفرنامہ، تقابل ادیان اور فکری، اصلاحی، تذکیری موضوعات پر عربی، اردو اور انگریزی کتابوں کے مصنف، علمی رسوخ، تفقہ فی الدین اور معتدل فکرونظر کے حامل سب کے کام آنے والے اور سب کے لیے وقت نکالنے والے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بن حضرت مولانا زین العابدین بن حضرت مولانا عبد الاحد صاحب کی پیدائش ۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ء قاضی محلہ جالے دربھنگہ میں ہوئی، تاریخی نام خورشید ہے، ابتدائی تعلیم دادی، والدہ سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا دربھنگہ میں داخل ہوئے، یہاں مولانا کے پھوپھا مولانا وجیہ احمد صاحب مدرس تھے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، وہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر تشریف لے گیے، جہاں عربی سوم سے دورئہ حدیث کی تعلیم پائی اور یہیں سے سند فراغت پانے کے بعد رحمانی کو اپنے نام کے لاحقہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، جو ان کے نام کا جزو لازم بن گیا، مونگیر میں انہوں نے جن نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ، امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانیؒ مولاناسید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جامعہ رحمانی کے بعد آپ نے دوبارہ دارالعلوم دیوبند سے بھی دورئہ حدیث کی تکمیل کی، یہاں کے نامور اساتذہ میں حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی محمودالحسن صاحب، مولانامعراج الحق صاحب، مولانا محمدحسین صاحب بہاری رحمھم اللہ سے مولانا نے علوم و فنون کی تعلیم پائی۔
تدریسی زندگی کا آغاز مولانا حمید الدین عاقل حسامیؒ کے مدرسہ دارالعلوم حید آباد سے شوال ۱۳۹۷ھ میں کیا، لیکن صرف ایک سال بعد ۱۳۹۸ھ میں دارالعلوم سبیل السلام حید آباد منتقل ہوگئے، شوال ۱۳۹۹ھ میں آپ صدر مدرس بنائے گئے اور ۱۴۲۰ھ تک کم و بیش بائیس سال اس ادارے سے وابستہ رہے، یہاں رحمت عالم سے بخاری شریف تک کا درس آپ نے دیا، آپ اور مولانا رضوان القاسمیؒ کی جوڑی تعلیم و تربیت کے میدان میں مثالی سمجھی جاتی رہی، مولانا کی توجہ سے یہاں تخصص فی الفقہ، دعوۃ اور ادب کے بھی شعبے کھلے اور دارالعلوم سبیل السلام کا جنوبی ہند کے ممتاز ترین اداروں میںشمار ہونے لگا۔
شعبان ۱۴۲۰ھ میں آپ نے یہاں سے مستعفی ہوکر المعھد العالی الاسلامی حید رآبادکی بنیاد ڈالی، یہاں کے اسباق کے ساتھ دارالعلوم حید آباد میں تخصصات کے شعبے میں بھی درس دیتے رہے، ان دنوں یہ سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔آپ کی شہرت اچھے مدرس اور بہترین مربی کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں زبان زد خلائق ہے۔
ان علمی مشاغل کے ساتھ آپ کی توجہ ملی مسائل پر بھر پور رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وہ زمانہ دراز سے سکریٹری تھے ان دنوں کارگذار جنرل سکریٹری ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ پر شرعی موقف کی تیاری اس کے حوالہ جات کی فراہمی وکیلوں کے لیے مولانا ہی کرتے رہتے ہیں، تفہیم شریعت کے پروگرام کو پورے ہندوستان میں متعارف کرانے اور اس کو عملی شکل دینے میں بھی آپ کی عملی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے، ہندوستان کی کوئی قابل ذکر تنظیم ایسی نہیں ہے، جس سے کسی نہ کسی حیثیت سے آپ کی وابستگی نہ ہو، رہتے حیدرآباد میں ہیں ؛لیکن روح آبائی وطن میں لگی رہتی ہے، یہاں کی تعلیمی اور اخلاقی حالت کو سدھارنے کی فکر برابر دامن گیر رہتی ہے، اسی فکرمندی کے نتیجہ میں مولانا نے دارالعلوم سبیل الفلاح اور مدرسۃالفالحات جالے میں قائم کیا، جس سے علاقہ کو بڑا فائدہ پہونچ رہا ہے؛ یہاں کے مدارس اور امارت شرعیہ سے ان کی وابستگی قدیم، مضبوط اور مستحکم ہے، جنوبی افریقہ کے بعض حلقوں میں امارت شرعیہ کا تعارف بھی تحریری طور پر انہوں نے کرایا، جس سے میرے سفر میں آسانیاں پیدا ہوئیں، واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیات وخدمات مستقل ایک کتاب ؛ بلکہ کئی جلدوں میں لکھی جانے والی کتاب کا موضوع ہے، لکھنے والوں نے لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔اس مضمون میں طوالت کی گنجائش نہیں ہے، اتنے بافیض عالم دین اور ملت پر قربان ہوجانے والی شخصیت کے لیے صحت و عافیت کے ساتھ درازئی عمر کی دعا نہ کرنا خود اپنی حرماں نصیبی ہوگی، اس لیے بس اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
توسلامت رہے ہزار برس
ہربرس کے ہوں دن ہزار
0 تبصرے