مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری حیات وخدمات : تعارف و تبصرہ
ڈاکٹر نورالسلام ندوی
بہار کے خانوادہ صادق پور، پٹنہ کے گل سرسبد حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری متنوع خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے۔بلند پایہ عالم دین،بہترین مربی، مشفق استاذ، بے باک خطیب اور داعی تھے، اخلاص وللہیت اور جرأت و جسارت خاندانی وراثت میں ملی تھی، سادگی و تواضع کے پیکر تھے، اخلاق و شرافت کے مجسم اورانسانیت ومحبت کے نقیب تھے، ہمدردی وغمگساری کے نمونہ اور صبر و ایثار کی تصویر تھے۔حق گوئی اور حق شناسی ان کی فطرت تھی، انسانیت کو نفع پہنچانا ان کی طبیعت تھی، اکابر علماء کی یادگار تھے، انہوں نے مثالی زندگی گزاری، ان کی زندگی نسل نوکے لئے سبق آموز اور چراغ راہ ہے۔
ضرورت متقاضی تھی کہ ایسی باکمال شخصیت کی سوانح حیات مرتب کی جائے اور نسل نو کو ان کےکارنامے سے متعارف کرایا جائے،اللہ تعالی نے یہ سعادت جواں سال صاحب قلم عالم دین اور مصنف مولانا انظار احمد صادق کے حصے میں مقدر کر تھی، موصوف برسوں مولانا کی تربیت میں رہ چکے ہیں اور سفر وحضر کے ساتھی ورفیق رہے ہیں، انہوں نے مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری کی حیات وخدمات پر بہترین سوانح حیات مرتب کی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’ مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری :حیات وخدمات ‘‘چار حصوں میں منقسم ہے، پہلا حصہ خاندان صادق پور کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے، اس میں مختصر طور پر خاندان صادق پور کا تعارف کراتے ہوئے جنگ آزادی میں اس کی قربانیاں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کے کارنامے کو قلم بند کیا گیا ہے، دوسرا حصہ جو دراصل کتاب کا بنیادی موضوع ہے مولانا کی حیات وخدمات پر محیط ہے، اس میں صاحب سوانح کی ابتدائی زندگی (جو نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کے مطالعہ سے عزم حوصلہ کو تازگی اور نئ اڑان ملتی ہے) سے لے کر موت تک کے احوال تحریر کیے گئے ہیں، سلسلہ نسب، تاریخ ولادت،ایام رضاعت میں ماں کی ممتا اور دودھ سے محرومی، پرورش و پرداخت، تعلیم وتربیت، شادی بیاہ، ملازمت،خدمت، کارنامے، اوصاف حمیدہ، خصوصیات، کمالات، عہدے، مناصب، سفر وحضر کے معمولات، تقریر و تحریر کا انداز، دعوت و تبلیغ کا اسلوب، دینی و ملی اداروں سے وابستگی، رفاہی فلاحی کاموں سے دلچسپی غرض ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے،مولانا کی زندگی کا ایک اہم باب جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی سنٹرل لائبریری کی نوکری چھوڑ کر وطن واپسی اور امارت اہل حدیث اور مدرسہ اصلاح المسلمین، پٹنہ کی سرپرستی اور اس کے لیے جدوجہد پر مشتمل ہے، اس حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، تیسرا حصہ مختلف تنظیموں اور مکاتب فکر کے ذمہ داروں کے تعزیتی بیانات اور چوتھا حصہ ان تحریروں پر مبنی ہے جو مولانا کی وفات کے بعد متعدد اہل علم و قلم نے تحریر کئے ہیں، یہ مضامین بھی قیمتی اور معلوماتی ہیں، ان کے مطالعہ سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ مختلف مسالک کے اہل علم ودانش مولانا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
کتاب 358 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے مطالعے سے صاحب سوانح کی شخصیت کا عکس نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے، بعض ایسے واقعات اور حقائق زیر قلم لائے گئے ہیں جو مخفی تھے، ان واقعات کے پڑھنے سے انسانیت نوازی، صلہ رحمی، ہمدردی اورخدمت خلق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، کتاب مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے، مولانا عبد السمیع جعفری ندوی پر آنے والی یہ پہلی کتاب ہے، اس سے وہ لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے جن کی مولانا سے دیدوشنید رہی ہے اور وہ لوگ بھی جن کی مولانا سے دید وشنید نہیں رہی ہے،نیز اگر آئندہ کوئی مولانا کی سوانح حیات پر کام کرنا چاہے تو اس کو بنیادی مواد فراہم ہو جائے گا۔
انظاراحمد صادق جواں سال قلم کار ہیں، خالق قدرت نے ان کو قلم کی دولت سے نوازا ہے، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کے وصف سے متصف ہیں، ان کے مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، بچوں کے لئے بطور خاص ان کی کہانیاں بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہوتی ہیں، ان کی کہانیوں کےدو مجموعے ’’باغ سلمی کے مہکتےپھول‘‘ اور ’’گلہائے جنت‘‘ شائع ہو کر دادتحسین وصول کر چکے ہیں، زیرنظر کتاب کی ترتیب و تالیف میں انہوں نے کافی محنت کی ہے اور سلیقے سےسوانح حیات مرتب کی ہے۔
مذکورہ کتاب کی ایک اہم خوبی اسلوب تحریر اور انداز پیشکش ہے، زبان سادہ، سہل اوررواں ہے، اسلوب بیان شگفتہ اور دل آویزہے، منطقی ترتیب کتاب میں شان پیدا کرتی ہے، مبالغہ اور غلو سے بچتے ہوئے متوازن راہ اختیار کی گئی ہے، افراط و تفریط اور مبالغہ آمیز اسلوب سوانح حیات کو محض تعریف و توصیف کا پلندہ بنا دیتا ہے، حالانکہ سوانح نگار نے بشری کمزوریوں اور خامیوں کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے،چونکہ احادیث میں گزرے ہوئے لوگوں کی خوبیوں کو بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے،سوانح نگار نے صاحب سوانح کے اوراق زندگی کا معروضی مطالعہ کرتے ہوئے شخصیت کے ارتقا اور نقوش کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دی ہے،سوانح حیات میں فن سوانح نگاری کے اصول، موضوع، مواد تحقیق اور اسلوب کی بڑی حد تک رعایت برتی گئی ہے۔
عنوانات متعدد جگہوں پر طویل اور لمبے ہیں،جبکہ عنوان مختصر اور جامع ہونا چاہیے، مثال کے طور پر’’ والد صاحب اور اجلہ اساتذہ کی موجودگی میں اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم اور اس کی بجا آوری‘‘،’’جامعہ میں آخری سال کی پریشانیاں اور ثبات قدمی کا مظاہرہ، ’’مفوضہ فرائض کے علاوہ غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘، اس کوبالترتیب مختصر کرکے اس طرح لکھا جا سکتا تھا،’’ اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم‘‘، ’’جامعہ کا آخری سال‘‘، ’’غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘،جہاں جہاں تاریخ اور سنین درج کی گئی ہے شمسی تاریخ اور سنین کے ساتھ قمری تاریخ بھی رقم کی گئی ہے،یہ قابل تحسین ہے، آج کل عموماً قمری تاریخوں کا التزام نہیں ملتا ہے۔ اسی طرح حوالوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔یہ کتاب سوانح عمری کے باب میں ایک اضافہ ہے،اس کی طباعت معیاری، کاغذ نفیس اور سرورق خوبصورت ہے، امید ہے کہ ارباب علم ودانش اس کاوش کی بھرپور پذیرائی کریں گے۔گرانی کے دور میں کتاب کی قیمت250روپے زیادہ نہیں ہے، اسے الحرا پبلک اسکول،شریف کالونی، پٹنہ اور بک امپوریم، سبزی باغ،پٹنہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
E-mail:nsnadvi@gmail.com
Mob NO. 9504275151
0 تبصرے