Ticker

6/recent/ticker-posts

دیوبند مناظرہ بازی کی لپیٹ میں

دیوبند مناظرہ بازی کی لپیٹ میں


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

آج کل سوشل میڈیا پر طلباء دارالعلوم دیوبند کی انجمن تقویۃ الاسلام کے مناظرے کے ایک اشتہار پر بحث و مباحثہ جاری ہے، اس تعلق سے بات اتنی بڑھی کہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کو وضاحت کرنی پڑی، مگر یہ وضاحت ”عذر گناہ بدتر از گناہ“ کے قبیل سے تھی۔


مناظرہ بازی حرام ہے

مناظرہ بازی نا صرف مسلمانوں کے ساتھ حرام ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حرام ہے، علمائے امت میں سے جو علماء اپنے زمانے کے مشہور و معروف مناظر رہے ہیں آخر عمر میں ان تمام علماء نے اپنے اس قدم سے توبہ و استغفار کی، کسی زمانے میں امام غزالی بھی زبردست مناظر رہے لیکن آخر عمر میں انہوں نے بھی اس عمل سے توبہ و استغفار کی، اسی طرح مولانا ابوالکلام ازاد بھی نوجوانی میں بڑے مناظر رہے مگر جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا اسی رفتار سے انہوں نے مناظرے بازی سے توبہ و استغفار شروع کردی۔


دارالعلوم دیوبند کا طریقہ بھی مناظر بازی کے تعلق سے یہی رہا ہے کہ دارالعلوم نے کبھی بھی اپنی طرف سے مناظرے کی شروعات نہیں کی، یعنی دارالعلوم دیوبند سے متعلق علمائے کرام نے جتنے بھی مناظرے کیے ہیں وہ دفاعی پوزیشن میں کیے ہیں نہ کہ اقدامی پوزیشن میں، امت مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق کی سب سے خطرناک نفسیات اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہی مناظرے بازی کی نفسیات ہے، امت مسلمہ کے اندر باہمی اتفاق ممکن ہے اگر ہمارا مذہبی طبقہ معاملات کو صحیح طرح سے سلجھانا سیکھ لے، امت مسلمہ میں جس قدر بھی افتراق و انتشار اور جھگڑا ہے اس تمام کی بنیاد میں ہمارے اکابر علماء ہی ہیں، ہم دہلی کے اندر دیکھتے ہیں کہ اہل حدیث حضرات حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں حنفی عوام اہل حدیث امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں، ایک دوسرے کے یہاں شادیاں کرلیتے ہیں حرم شریف میں تمام مسلمان غیر مقلد امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا، مگر کیا مجال ہے کہ مسلک پرست علماء کرام اپنے اپنے شہروں اور ملکوں میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا ؟ یا یہ مسلک پرست علماء کرام ایسا کوئی فتویٰ صادر کریں کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے، دیوبندی بریلوی أہل الحدیث وغیرہ سب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، ایسے ”مبنی بر توسع“ فتوے کی آرزو میں کتنے ہی اتحاد واتفاق کے لیے کوشاں حضرات قبر میں دفن ہوگئے۔


میرے نزدیک جماعت اسلامی ہرگز کوئی فرقہ نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی الگ عقیدہ ہے اور نہ ہی قرآن و احادیث کی کوئی الگ فقہی تشریح، مولانا مودودی نے ایمان مفصل میں سے نہ تو کسی چیز کو حذف کیا اور نہ ہی کسی چیز کا اضافہ کیا، یہ ہی حال ”بنی الاسلام علی خمس“ کا ہے یعنی ارکان خمسہ کے اندر بھی مولانا مودودی نے کوئی حذف واضافہ نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کیا ہے ؟ جماعت اسلامی دراصل حنفی المسلک افراد کی ایک ایسی معتدل تنظیم ہے جو مسلمانوں کے اندر نظم اجتماعی کی روح Spirit of system پھونک دینا چاہتی ہے جو دین اسلام کو مسجد وخانقاہ سے نکال کر معاشرے کا جز بنا دینا چاہتی ہے اور بس، مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ سیکولرازم بھی کمیونزم کی طرح ہی انسانی ساختہ ہے، سیکولرازم بھی کمیونزم ہی کی طرح غیر اسلامی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے علماء کرام کے نزدیک کمیونزم تو ملعون ٹھہرا اور سیکولرزم محبوب ؟ مولانا مودودی نے اسی فکری تضاد کو ختم کرنے کے لئے حکومت الہیہ کا تصوّر دیا جو اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کا لازمی نتیجہ بھی ہے اور مسلمانوں کے سیاسی ومعاشرتی مسائل کا آخری حل بھی، مگر مولانا کی اس مخلصانہ کوشش کو اکابر پرستانہ فتوے بازی اور مناظرے بازی کی نظر کردیا گیا۔ اسی مناظرے بازی کی ذہنیت سے خود دیوبندیوں کے اندر بھی کئی طرح کے مکتبۂ فکر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ”حیاتی“ اور ”مماتی“ مسلک دیوبند ہی کے دو گروہ ہیں، شومئے قسمت دیکھیے! آج کل تبلیغی جماعت کے تعلق سے جو رویہ ہمارے محترم علماء کرام نے اختیار کیا ہوا ہے وہ ماضی کی غلطیوں کا تسلسل ہے، اس رویے کی بنیاد پر بالکل یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلک دیوبند میں ایک تیسرا گمراہ فرقہ ”تبلیغی جماعت“ بن چکا ہے، دوسری طرف تبلیغی جماعت سے منسلک علماء کرام کی نگاہ میں علمائے دیوبند گمراہ ہیں، جماعت اسلامی کا خمیر مسلک دیوبند ہی سے اٹھا ہے جسکو آج ہم گمراہ فرقوں کی صف میں گنتے ہیں۔ ( العیاذ باللہ ) مناظرے بازی کی اسی ذہنیت کی وجہ سے ہم نے بہت بڑے بڑے باکمال آدمی کھودیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مناظرے بازی اور اکابر تشریحات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ قرار دینے کی مذکورہ خطرناک روش کو بیک قلم ختم کردیا جائے، ورنہ ایک دن ایسا ہوگا کہ دنیا والوں کی نگاہ میں سب سے زیادہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی خود ہماری نگاہ میں کوئی مسلمان نہیں ہوگا، دنیا میں اسلام کے سب سے طاقتور مذہب ہونے کے باوجود کوئی طاقتور مسلمان نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اسلامی ملک۔


مولانا مودودی پر سب سے مضبوط رد جو کیا ہے وہ ڈاکٹر محمد اسرار صاحب مرحوم اور مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم نے کیا ہے، ان ہی دونوں حضرات نے مولانا مودودی صاحب مرحوم کی مکمل طور پر علمی گرفت بھی کی ہے، مذکورہ دونوں حضرات سے پہلے مولانا مودودی کے تمام ناقدین خواہ وہ اصاغر ہوں یا اکابر سب کے پاس مولانا مودودی کے خلاف ایک ہی فرد جرم تھی وہ یہ کہ ”مولانا مودودی گستاخ صحابہ ہیں “ یا یہ کہ مولانا مودودی ”صحابہ کرام کو معیار حق نہیں مانتے“ اور بس ! دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرد جرم کے حق میں بھی ہمارے محترم علماء کرام کے پاس کوئی بہت ٹھوس دلائل نہیں تھے بس اکابر پرستی تھی۔ یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جس کو ہم جان بوجھ کر سائڈ کر رہے ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دونوں علماء کے بعد ہی ہمارے محترم علمائے دیوبند کو مسئلے کی اصل نوعیت کا پتہ چلا، آج مولانا مودودی پر ” تعبیر دین“ کو بدلنے کا جو راگ الاپا جا رہا ہے یہ دراصل مولانا وحید الدین خان صاحب کی ایجاد کردہ ایک تعبیر ہے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے تعبیر کی غلطی، از مولانا وحیدالدین خاں ) مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں ہی حضرات نے مولانا مودودی کے ایمان اور ان کی نیت پر کوئی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی منفی حکم لگایا یعنی یہ نہیں کہا کہ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، ان سے شادی بیاہ نہ کریں، وہ گمراہ ہیں، جہنمی ہیں، اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ زبردست علمی تنقید کے باوجود دونوں ہی حضرات نے مولانا مودودی کی خدمات کو سراہا بھی ہے، ان سے تعلقات بھی رکھے ہیں اور صحیح العقیدہ مسلمان بھی مانتے ہیں۔ آج برصغیر پاک وہند بنگلہ دیش میں جو اسلام پسند طاقتیں اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کا برملا اعلان کر رہی ہیں اور اس مشن کو لیکر حرکت میں ہیں، یہ تمام طاقتیں در حقیقت مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کے نظریہ دین سے متائثر ہیں، مولانا مودودی کی خدمات صرف یہ ہی نہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے اندر کمیونزم کی کمر توڑ کر رکھ دی یا قادیانیوں کے خلاف معرکۃ الآراء کتابچہ لکھ کر قادیانیوں کو بے دست و پا کردیا یا مغربی تہذیب پر زبردست علمی چوٹ کی، بلکہ مولانا مودودی کی اہم خدمت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس دعوے ( اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے) کو اپنے خونِ جگر سے ثابت بھی کیا، اپنے قلم کی روانی اور زور استدلال کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہا کہ ہاں اسلام مکمل نظامِ حیات ہے اور یہ رہے اس کے تفصیلی دلائل۔ مولانا مودودی کی اس اہم خدمت کو ان کے دونوں شدید ناقد ڈاکٹر محمد اسرار مرحوم اور مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم بھی مانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ سے متعلق کسی بھی عالم دین سے معلوم کیجیے کہ کیا دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے ؟ وہ فوراً جواب دیگا کہ ہاں دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے۔ اب اس سے اگلا سوال پوچھیے کہ مولانا قاسم نانوتوی سے لیکر آج تک کسی ایک عالم دین کی کوئی ایک کتاب ایسی ہے جو دین اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کو تفصیلاً بتلاتی ہو ؟ یقین جانیے آپ کو کوئی متعین جواب نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی کتاب۔


جماعت اسلامی کے ارکان واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کے نظریات کے ایسے پابند نہیں ہیں کہ یہ پابندی ”پرستی“ سی محسوس ہونے لگے یعنی ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، یہ تو جماعت اسلامی کا واضح موقف ہؤا اور ماشاءاللہ بہت خوب موقف ہے۔

اب میں اپنے انتہائی محترم علمائے دیوبند سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم بھی اپنے اکابر کے ساتھ ایسا ہی لچکدار رویہ اختیار کر سکتے ہو ؟ کیا آپ کے اندر بھی ایسی جرات ہے کہ دلائل کی بنیاد پر اپنے کسی بھی بزرگ سے اختلاف کر سکیں ؟ میں اپنے دیوبندی حضرات کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں، وہ یہ کہ مولانا حسین احمد مدنی ”متحدہ بھارت“ کے قائل تھے، جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے حمایتی تھے تو آپ لوگ مذکورہ دونوں بزرگوں میں سے کس کے موقف کو صحیح یا غلط کہتے ہیں ؟ وہ بھی دلائل کی بنیاد پر۔ موجودہ بدترین اور پاگل پن والی صورتحال یہ ہے کہ ہم شخصیت پرستی کے مرض میں ایسے مبتلا ہیں کہ ہم کو دونوں ہی بزرگ صحیح لگتے ہیں مزید برآں یہ بھی کہتے ہیں کہ غلطی ہماری ہے کہ ہم ان بزرگوں کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے بدترین ذہن کے ساتھ دین اسلام کو کیسے غالب کیا جائے گا ؟ اس قسم کی ”دوکشتیوں والی ذہنیت“ کے ساتھ کیسے قومی اور بین الاقوامی فیصلے کیے جائیں گے ؟ صحیح اور غلط کے فیصلے کیسے ممکن ہونگے ؟

اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے ؟ تو میں یہ ہی جواب دونگا کہ مذہبی سطح پر ”مسلک پرستی“ اور عوامی سطح پر ”برادری واد“ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ایک غیر مسلم تعلیم یافتہ شخص مسلمان ہونا چاہے تو مسالک کی دلدل اس کو بہت پریشان کرتی ہے اور اگر کوئی عام آدمی مسلمان ہوناچاہیے تو برادری واد اس کو پریشان کرتا ہے اور دونوں ہی چیزیں غیر اسلامی ہیں۔ (جاری.....

16/ ستمبر 2023

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے