نفرت کی کاشت ملک کے لئے خطرناک
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
آپ نے مختلف قسم کے فصلوں کی کاشت کے بارے میں پڑھا اور سنا ہوگا، اس کے لہلہانے کی تدبیر یں بھی آپ کو بتائی گئی ہوں گی، کتنا پانی، کتنا کھاد، کتنی نکیونی اور کیسی آب وہوا کس فصل کے لیے چاہیے، اس کی واقفیت آپ کو مجھ سے زیادہ ہے، اہل فن نے اس پر کتابیں لکھی ہیں اور مختصر مدت میں زمین سے کس قد رزائد پیدا وار حاصل کر سکتے ہیں، اس کا علم ہمارے کسان کما حقہ رکھتے ہیں، تبھی تو ہندوستان غذائی اجناس میں خود کفیل ہوگیا ہے۔
ہندوستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے ہمارے حکمراں اور سیاست دانوں نے ایک اور کاشت شروع کی ہے، یہ کاشت ہماری زمین پر نہیں، دل ودماغ پر کی جا رہی ہے، یعنی اس کاشت کے لیے جس زمین کا استعمال کیا جا تا ہے، وہ دل اور دماغ کی زمین ہے، یہ نفرت کی کاشت ہے، ہندوستان کے اکثریتی طبقات کے دل ودماغ میں پہلے یہ بیج ہندتوا کے نام پر ڈالا جاتا ہے، فرقہ پرست افراد اور تنظیمیں گرم گرم تقریروں اور اسلام دشمن بیانات کے ذریعہ اس کو کھاد پانی فراہم کرتی ہیں، سپریم کورٹ آڑے آتا ہے تو ان کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی اجازت کے پابند نہیں ہیں، بابری مسجد انہدام سے لے کر نوح میوات کے فسادات تک سر کشی اور قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی گئی ہے کہ اگر اقلیتیں کرتیں تو آج کی پوری قیادت جیلوں میں سڑ رہی ہوتی، لیکن اکثریتی طبقہ اور شر پسندوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، احمد آباد کے فسادی قانون کی گرفت سے عموما باہر رہے، بابری مسجد کے انہدام کے مجرمین کو سزا نہیں دی جا سکی، بلقیس بانو کے خاندان کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی اجتماعی آبروریزی کے مجرمین عمر قید کی سزا کے باوجود جیل سے باہر آکر دندناتے پھر تے ہیں۔
نفرت کی اس کاشت کو پروان چڑھانے اور اسے بار آور کرنے کے لیے فرقہ پرستوں نے الگ الگ طریقے ایجاد کر رکھے ہیں، کہیں مسلمانوں کو دیکھ کر جے شری رام کا نعرہ لگائیں گے، کہیں مسلم آبادی سے گذرتے ہوئے دل آزار جملے پھینکیں گے، بے وجہ کسی مسلمان پر الزام لگا کر ماب لنچنگ کر دیں گے، کہیں مسلمانوں کو دوکان ومکان اور علاقہ خالی کرنے کی نوٹس دیںگے، کہیں پنچایت میں مسلمانوں کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالیں گے اور کبھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ سنائیںگے کہ ان سے کاروباری معاملات نہ کرو، ان سے سودا سلف نہ لو تاکہ وہ خود ہی علاقہ خالی کرکے چلتے بنیں اور نفرت کی یہ کاشت پروان چڑھتی رہے، مسلمانوں کو اس قدر خوف کی نفسیات میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ چوں نہ بولیں اور ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہیں یا کم از کم اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے دست بردار ہو جائیں۔
ادھر نفرت کی کھیتی کے لیے ایک او رزمین فرقہ پرستوں نے منتخب کر لی ہے اور وہ ہے ابتدائی درجات کے اسکولوں میںنفرت کا ماحول پیداکرنا، پہلے یہ اونچے درجات کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب نفرت کی کھیتی کے لیے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو اسکول میں تیار کیا جا رہا ہے، انہیں مسلمانوں کے خلاف تقریریں رٹائی جارہی ہیں اور پھر انہیں اسکول کے کلچر پروگرام اور طلبہ کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے نام پر عوام کے سامنے پیش کرایا جاتا ہے اور تالیوں کی گرگراہٹ آئندہ اس مہم کو جاری رکھنے کا حوصلہ بچوں میں پیدا کرتا ہے، مسلم بچے جن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کو نفسیاتی طورپر بے عزت کیا جاتا ہے، تازہ واقعہ ۲۴؍ اگست کو مظفر نگر ضلع کے نہا پبلک اسکول خبر پور کا ہے، یہ گاؤں منصور پور سے قریب واقع ہے، اس اسکول کی پرنسپل تریپتا تیاگی نے ون کے جی کے ایک مسلم طالب علم التمش ولد محمد ارشاد کو پورے کلاس کے ہندو طلبہ سے تھپڑ لگوایا اور تلقین کرتی رہی کہ اور زور سے مارو، قصور یہ تھا کہ وہ ہوم ورک کرکے نہیں لایا تھا، اسکولی طلبہ میں یہ جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس کی سزا کے طورپر غیر مسلم بچوں سے پٹائی کرائی جائے، سزا وہ استانی خود بھی دے سکتی تھی، کہتی ہے کہ میں معذور ہوں، اس لیے اٹھ نہیں سکتی تھی، یہ ایسا عذر لنگ ہے، جس کو کوئی بھی عقل مند تسلیم نہیں کرے گا، اگر وہ معذور ہے تو اسکول کیسے آتی ہے اور پرنسپل کی ذمہ داری کس طرح سنبھالتی ہے، چلیے تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ اٹھ نہیں سکتی تھی، لیکن کیا وہ بچے کو اپنے پاس بلا کر بیٹھے بیٹھے تنبیہ نہیں کر سکتی تھی، اس کے علاوہ اسکول میں تو مار پٹائی قانونا جرم ہے، وہ تو ایسے ہی قانون کے خلاف ورزی کر رہی تھی اور مسلم لڑکے کو صرف ذلیل کرنا چاہتی تھی، اس کے رونے گڑ گڑانے معافی مانگنے تک کا اس پر کوئی اثر نہیںہوا، بچے کا چہرہ سوج گیا۔
مسلم بچے کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک کی ویڈیو اسکول کے ہی کسی نے بنایا اورسوشل میڈیا پر وائرل ہوا، ویڈیو بنانے والا بھی فرقہ پرست ہی ہوگا، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو نفسیاتی طورپر اپنی ہتک محسوس کرانے کی غرض سے اسے عام کر دیا، بات جب گلے پڑنے لگی تو اس کی مختلف تاویلیں کی جانے لگیں، حد یہ ہے کہ اتر پردیش کے وزیر تعلیم اس کی حمایت میں آگیے اور کہا کہ تریتبا نے معافی مانگ لی تو بات ختم ہو گئی، بھلا کوئی کسی کی عزت سے کھلواڑ کرے، معصوم ذہنوں میں نفرت کی بار آوری کرے اور اسے معاف کر دیا جائے، چاہیے تو یہ تھا کہ اس استانی کو فوری طور سے گرفتار کیا جاتا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی، لیکن جب وزیر تعلیم ہی کلین چٹ دے رہے ہیں تو کون اس معاملہ کو اٹھا پائے گا، البتہ خبر یہ آ رہی ہے کہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے اسکول کو بند کر دیا گیا ہے، التمش کے والد نے اس بچے کا نام اسکول سے کٹوا دیا ہے، لیکن وہ نا مزد ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں ہوئے، وہ بھی خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے اور انہیں لگا کہ یوگی کے راج میں انصاف کا ملنا دشوار ہے، اس لیے انہوں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، جب اصل متاثر سامنے نہ آئے تو مقدمہ ایسے ہی کمزور ہوجاتا ہے۔
دھیرے دھیرے یہ معاملہ سرد پڑجائے گا، لیکن اس عورت کی اس ذلیل حرکت کی وجہ سے یہ بچہ تا زندگی ایک خاص نفسیات میں مبتلا رہے گا، وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگی گذارے گا، اور جن بچوں سے اس عورت نے اسے پٹوایا وہ پوری زندگی مسلمانوں کو لقمۂ تر سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتے رہیں گے اور پھر نفرت کی یہ کاشت امربیل کی طرح پھیلتی چلی جائے گی، جس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جو اب نام کی حد تک ہی باقی ہے؛ بالکلیہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔
اس واقعہ سے ہندوستان کی جو شبیہ خراب ہوئی تھی اسے کم کرنے اور مسلم سماج کے غصے کو کم کرنے کے لیے کٹھوا جموں کشمیر میں مبینہ طورپر ایک مسلم استاذ کے خلاف افواہ پھیلائی گئی کہ اس نے بلیک بورڈ پر جے شری رام لکھنے والے بچے کی پٹائی کی اور آئندہ ایسا کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی اور اس میں وزن پیدا کرنے کے لیے ایک خاص مذہب کے لوگوں کے ذریعہ سڑک پر احتجاج کرایا گیا اورپوری کوشش کی گئی کہ اس کو بنیاد بنا کر مظفر نگر کے واقعہ کو ہلکا کیا جائے، لیکن ایسانہیں ہو سکا، البتہ کٹھوا کے واقعہ پر باضابطہ ایف آئی آردرج ہوا، اور جانچ شروع ہو گئی، مظفر نگر کے واقعہ پر مسلمانوں نے احتجاج نہیں درج کرایا اور نہ متاثر طالب علم کے والد نے کوئی ایف آئی آر درج کرائی، واقعتا ہم لوگ اس قدر پُر امن ہیں کہ ہر حال میں شانت رہتے ہیں، ایسا قانون کے احترام اور خوف کی نفسیات کی وجہ سے ہوتا رہا ہے، اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
0 تبصرے