Ticker

6/recent/ticker-posts

مشاعرے کی محفل کی نظامت کے لئے شاعری - Mushaira Ki Mehfil Ki Nizamat Ke Liye Shayari in Urdu

Mushaira Ki Mehfil Ki Nizamat Ke Liye Shayari Urdu

آج کی تحریر میں ہم منتخب متفرق اشعار پیش کرنے جا رہے ہیں جو مشاعرے اور محفلوں کی نظامت اور نقابت میں بےحد مددگار ثابت ہوں گے۔

°°°°

مشاعرے کی محفل کی نظامت کے لئے شاعری

رحمت و نور کی برسات یہیں ہونی ہے
آج شب بھر یہیں آ کر کے گذارا جائے

°°°°

لبوں کو کھول دو گل کی شگفتگی کے لیے
ترس رہا ہے گلستاں بس اک ہنسی کے لیے

°°°°

یوں مسکرائے جان سی کلیوں پہ پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

°°°°

گنگناتا ہوا یہ کون چمن سے گذرا
ہر کلی مائلِ گفتار نظر آتی ہے

°°°°

کتنی پیاری مدھ بھری آواز ہے
دل کو جو اپنا بنا لے وہ حسیں انداز ہے

°°°°

آپ گل ہیں مہک ہیں شفق ہیں چمک ہیں
ان لفظوں میں پوشیدہ ہے تصویر آپ کی

°°°°

آنکھیں رہیں گی شام و سحر منتظر تری
آنکھوں کو سونپ دیں گے ترا انتظار ہم

°°°°

یہ کون تھا کس نے بکھیری تھیں مستیاں
ہر ذرّہ صحن باغ کا ساغر بدوش ہے

°°°°

چمن میں پھول کا کھلنا تو کوئی بات نہیں
یہ ہے وہ پھول جو گلشن بنائے صحرا کو

°°°°

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی

°°°°

آنکھیں رہیں گی شام و سحر منتظر تری
آنکھوں کو سونپ دیں گے ترا انتظار ہم

°°°°

Nizamat Ki Shayari Urdu


کچھ ایسی بے خودی ہے ترے انتظار میں
تصویر بن چکا ہوں میں تصویر دیکھ کر

°°°°

تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی ترے دریا سے میں پیاسا نکلا

°°°°

دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

°°°°

اے وقت ٹھہر جا کہ ذرا اور بھی سُن لیں
لمحے یہ بار بار میسر نہیں ہوتے

°°°°

تمہاری دید ہی مقصد رہاجس کی بصارت کا
وہ چشمِ منتظر پتھرا گئی کیا تم نہ آؤ گے؟

°°°°

Mehfil Ki Nizamat Ke Ashar in Urdu


چمن کے ہر شگفتہ گل سے جیسے پیار ہے سب کو
سرِ محفل صدارت آپ کی تسلیم ہے سب کو

°°°°

اہلِ محفل منتظر ہیں دیر سے عالی وقار
آپ کے پَند و نصائح کا انھیں ہے انتظار

°°°°

مجھ کو ترے اندازِ سخن پر ہی ناز ہے
تو آگیا تو ساری ہی محفل پہ چھا گیا

°°°°

کشتی کا پاسبان فقط ناخدا نہیں
کشتی میں بیٹھنے کا سلیقہ بھی چاہیے

°°°°

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

°°°°

مجھ کو اس سے کیا غرض صبح ہے یا شام ہے
خدمتِ اہلِ چمن ہر وقت میرا کام ہے

°°°°

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہے یہ مَردوں کی شمشیریں

°°°°

یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی

°°°°

تو اِرادے کا ہمالہ، ہے عمل کا آب شار
ایسا سورج ہے جسے لگتا نہیں ہرگز گہن

°°°°

غیرت کی نگاہوں میں یہ آنسو نہیں خوں ہیں
گر پردۂ غفلت پہ ٹپک جائے تو جل جائے

°°°°

حالات کی گردش نے چلایا ہے جو مجھ پر
اے کاش و ہ نشتر ترے احساس پہ چل جائے

°°°°

ہو گرمیِ تقریر کہ ہو شوخیِ تحریر
فرسودہ ہے یہ آرٹ بھی اب لوحِ جہاں پر

°°°°

اب سادہ زبانوں کو تو کر دل سے ہم آہنگ
ہیں گوش بر آواز سبھی تیری اذاں پر

°°°°

روش روش نغمۂ طرب ہے
چمن چمن جشنِ رنگ و بو ہے
طیور شاخوں پہ ہیں غزل خواں
کلی کلی گنگنا رہی ہے

°°°°

دیوانگیِ شوق میں وہ نغمہ کر بلند
اک روح دوڑ جائے رگِ کائنات میں

لے کر حریمِ حُسن میں آ وہ جنونِ شوق
سر تا قدم جو غرق ہو نورِ حیات میں

°°°°

نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
نقش ہے سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

°°°°

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

°°°°

آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

°°°°

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہیں نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف

°°°°

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں

°°°°

ساقی، شراب، جام و سبو، مطرب و بہار
سب آ گئے بس آپ کے آنے کی دیر ہے

°°°°

آ چکے لوگ دیوانہ ابھی باقی ہے
افتتاح درِ مَے خانہ ابھی باقی ہے

°°°°

خطابت کی دنیا پہ ہے حکمرانی
دلوں کو جگاتی ہے سحر البیانی
فدا ان کی تقریر پر ہے یقیناً
گلوں کا تبسم کلی کی جوانی

°°°°

عزائم میں سمو لو اپنے دریاؤں کی طغیانی
اٹھو اور بخش دو ذرّوں کو تاروں کی درخشانی

°°°°

ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

°°°°

موجِ دریا سے یہ کہتا ہے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

°°°°

کس نے اپنے دل کے لہو سے لالہ و گل میں رنگ بھرا
جن کو دعوا ہو گلشن پر ہم سے آنکھیں چار کریں

ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہم رکاب جوشِ جنوں بھی چاہیے

°°°°


اللہ رے موصوف کی رنگین بیانی
ہر لفظ ہے گل دستۂ گل زارِ معانی

ٹھہرے ہوئے لہجے میں ہے گنگا کی روانی
الفاظ کی بندش میں ہے جمنا کی جوانی

°°°°

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں

°°°°

سیر کی پھول چنے خرم و دل شاد رہے
باغباں ! ہم تو چلے گلشن ترا آباد رہے

°°°°

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

°°°°

مشاعرے کی محفل کی نجامت کے لیے شاعری

زمیں کا چاند بھی وہ مشک بھی گلاب بھی وہ
جو برف ہو یہ لہو شہرِ آفتاب بھی وہ

اسی کے رنگ مری حسرتوں کے قالب میں
بدن رُتوں میں مہکتا خطاب بھی ہو

اردو پریم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے