بزرگ اور معمّر افراد- ایک انمول اثاثہ
(عابد حسین راتھر)
اکثر کہا جاتا ہے کہ زندگی کسی استاد سے کم نہیں ہے۔ زندگی کے تجربات ہمیں ایسے سبق سکھاتے ہیں جو نہ کسی درسگاہ میں اور نہ ہی کوئی استاد ہمیں سکھا سکتا ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے علم وعقل میں بھی پختگی پیدا ہوجاتی ہے اور انسان کو زندگی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ اکثر معاملات میں ہمارے بزرگوں کے فیصلے عموماً صیح ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ماضی کے تجربات سے اپنے حال کے حالات واقعات کا صیح تجزیہ کرکے ہی کوئی فیصلہ لیتے ہیں۔ اسی حقیقت کے باعث ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ہمارے قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہے جن کی قدر کرنا ہم سب کا بنیادی فرض ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ لیکن آج کے دور میں ہم اپنی زندگی کی مصروفیات میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ ہم اپنے بزرگوں کی طرف بہت کم دھیان دیتے ہیں اور ہمارے بزرگوں کو آج کل اُتنی عزت نہیں ملتی ہے اور نہ ہی ان کا اُتنا احترام کیا جاتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس کے برعکس ہم اپنے بزرگوں کی اہمیت وافادیت کو نظرانداز کر کے ان کا خیال رکھنے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم سب کا سماجی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ہمارے بزرگ سماج میں عزت اور احترام کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ انسان کی عمر جتنی بڑھتی ہے اتنا ہی وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کو اتنے ہی جسمانی، ذہنی اور جذباتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا قدرتی طور پر ہمارے معاشرے کے معمّر اور بزرگ افراد کو بہت سارے جسمانی، ذہنی اور معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کو حل کرنے کیلئے انہیں نوجوان طبقے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو حل کرنے میں ہم اپنے بزرگوں کی مدد کریں تو ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے ان کے تمام مسائل کو جاننے کی کوشش کریں اور پھر ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ہمیں ان کی مدد کرنے میں آسانی ہوں۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرے کے بزرگ افراد کو درج ذیل مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جسمانی کمزوری:
عمر گزرنے کے ساتھ انسان جسمانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے لہذا اس کو چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے میں دشواری پیش آتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے روزمرہ کے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا ہے۔ ایسے حالات میں انسان اپنی بنیادی ضروریات جیسے کھانا، پینا، خود کو صاف ستھرا رکھنا وغیرہ کیلئے دوسروں پر منحصر رہتا ہے۔
طبعی مسائل:
بزرگی کے ایام میں انسان مختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ انسانی نظامِ مدافعت کمزور پڑ جاتا ہے لہذا وہ مختلف انفکشنوں کا شکار ہو سکتا ہے اور متعدد بیماریاں اس پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔ معمر افراد اکثر جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہے لہذا انہیں زیادہ چوٹ لگنے اور گرنےکا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
تنہائی اور اکیلاپن:
معمّر اور بزرگ افراد اکثر تنہائی اور اکیلاپن محسوس کرتے ہیں۔ گھر کے باقی افراد اپنی مصروفیات کی وجہ سے اپنے بزرگوں کے ساتھ بہت کم وقت گزارتے ہیں اور اپنے بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے انہیں بوریت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ افراد پرانے خیالات کے ہونے کی وجہ سے غیر دلچسپ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ اپنا خالی وقت سوشل میڈیا، دوستوں اور باقی مشغلوں کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں تو نتیجتاً ہمارے بزرگ اکیلاپن محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کئی ذہنی بیماریوں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔
ذہنی کمزوری اور کمزور یاداشت:
جب انسان جوانی کے مرحلے سے گزر کر بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے تو وہ دوبارہ ذہنی طور پر کمزور ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کی یاداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ لہذا اس کو چیزوں کو سمجھنے میں اور انہیں یاد کرنے میں وقت لگتا ہے۔ اس بات کا دھیان رکھ کر ہمیں ہمیشہ بزرگوں کے ساتھ معاملہ آرائی میں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔
سرکاری دفاتر پر امداد کی ضرورت:
آج کے جدید دور میں اکثر دفاتر، بنکوں، ہسپتالوں اور باقی اداروں میں کمپیوٹروں کے ذریعے جدید طرز عمل پر کام ہوتا ہے جس سے ہمارے معاشرے کے اکثر بزرگ افراد لاعلم ہوتے ہیں۔ لہذا وہ جب بھی کسی کام کی وجہ سے کسی دفتر، بنک یا اسپتال کا دورہ کرتے ہیں تو انہیں وہاں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ تذبذب کا شکار ہوکر متحبّر محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح انہیں دفاتر کے ملازمین کی بات سننے اور سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ ایسے مواقع پر انہیں سخت مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
چلنے پھرنے میں مشکلات:
جسمانی ناتوانی کی وجہ سے بزرگ حضرات کو چلنے پھرنے میں اکثر دشواریاں پیش آتی ہے۔ انہیں سفر کرنے، سیڑھیاں چڑنے، سڑک پار کرنے اور ایسے ہی کئی مواقع پر بہت سارے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار انہیں کھڑا ہونے یا بیٹھنے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے ایسے مواقع پر انہیں آمدورفت کے ذرائع اور کئی دوسری طرح کے امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
بزرگ اور معمّر افراد کی مندرجہ بالا ضروریات کو جاننے اور سمجھنے کے بعد معاشرے کے ہر ذِی حس فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ ہرطرح سے ان کی مدد کرے، ان کی عزت کرے، ان کے ساتھ وقت گزارے اور ان کی قدر کرے تاکہ وہ خود کو سماج میں منحرف اور الگ تھلگ نہ سمجھے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ہم مختلف اوقات میں کس طرح سے اپنے بزرگوں کی مدد اور عزت کر سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
معاشی امداد:
بڑھتی عمر کے ساتھ انسان کے معاشی معاملات پیچیدہ ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی معاشی حالت کمزور ہو جاتی ہیں۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں معاشی معاملات منظم کرنے میں ان کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی مدد کرے اور انہیں مختلف اقسام کے گھوٹالوں سے خبردار کریں۔ باقی لوگوں کی طرح بزرگوں کی بھی کچھ بنیادی ضروریات ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنے میں ہمیں ان کی معاشی امداد کرنی چاہیے۔
محفوظ اور قابلِ رسائی رہائش:
اکثر بزرگوں کے لئے ان کے رہائشی حالات کو محفوظیت اور دسترس پذیری کے لئے ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سیڑھیوں کے ساتھ جنگلا لگانا، ڈھلوان کے لئے ریمپس کی فراہمی، باتھ روم میں حفاظتی تدابیر وغیرہ۔ ان کے کمروں اور مکانات کی باقاعدہ طور پر جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ ان چیزوں سے ان کی روزمرہ زندگی آسان اور حادثات سے محفوظ رہے گی۔ آج کل کے معاشروں میں بزرگوں کو اکثر بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انہیں گھر سے بے گھر کیا جاتا ہے۔ ان معاملات پر سختی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ان چیزوں کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بزرگ بے گھر ہونے سے محفوظ رہے۔
جذبۂ احساس اور ہمدردی:
بڑھاپے میں انسان عام طور پر تنہائی اور علیحدگی جیسے چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنا، بات چیت کرنا، اور ہمدردی کرنا ان کے ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے اور انہیں احساس دلا سکتا ہے کہ وہ ہمارے لیے انمول ہے۔ آج کل اکثر لوگ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ ہم وہ وقت اپنے بزرگوں کے ساتھ گزارے تاکہ وہ اکیلا پن محسوس نہ کرے اور خاندان کے باقی افراد کے ساتھ خود کو متحدہ اور یکجا محسوس کرے۔
تکنیکی امداد:
ہمارے بزرگ حضرات جدید ٹیکنالوجی اور جدید آلات کو استعمال کرنے سے ناواقف ہوتے ہیں جبکہ اکثر سرکاری دفاتر اور بنکوں میں آج کل جدید طرز پر کام کاج کیا جاتا ہے اور جدید آلات جیسے کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بزرگوں کو ان چیزوں سے واقف کرائے اور جدید آلات جیسے اسمارٹ فون اور کمپیوٹر چلانے میں ان کی مدد کرے۔ انہیں سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے واقف کرانا چاہئے تاکہ وہ بھی اپنے دوستوں، رشتہ داروں سے جڑے رہے۔
انہیں غور سے سنے:
اپنے بزرگوں کی عزت اور احترام کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کی کہانیوں، تجربات، اور مشوروں کو غور سے سنیں۔ ان سے بات چیت کرتے وقت انہیں توجہ سے سنیں، کیونکہ بزرگ افراد کو زندگی کا تجربہ ہوتا ہے اور ان کے مشوروں سے ہم اپنی زندگی کے مشکلات دور کرسکتے ہیں۔ انہیں غور سے سننے اور انہیں توجہ دینے سے وہ عزت واحترام محسوس کرے گے اور ہمیں بھی زندگی گزارنے کا تجربہ حاصل ہوگا۔
ان کی طبیعت اور حفاظتی انتظامات کا خیال رکھے:
بزرگ افراد کو اکثر طبیعت ناساز رہنے کی شکایت رہتی ہے لہذا ان کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور ان کا روزانہ طبی معائنہ کروانا چاہئے اور ان کے لئے ضروری ادویات فراہم رکھنی چاہئے۔ جسمانی ورزش اور متوازن غذا ان کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے لہذا ان کی صحت کیلئے ان چیزوں پر دھیان دینا ضروری ہے۔
امداد اور اعانت کی پیشکش:
اپنے روزمرہ کے کام کاج میں بزرگ افراد کو ہمیشہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چاہے بازار سے سامان لانا ہو یا طبعی معائنے کیلئے ہسپتال جانا ہو یا وہاں سے دوائی لانی ہو، ان تمام کاموں میں مدد کی پیشکش کرنے سے بزرگ افراد عدم تحفظ سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان مواقع پر ان کی مروّت کرنے سے وہ پر یقین رہتے ہیں کہ ہم ان کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔
ان کی آزادی اور رائے کا احترام کرے:
بزرگ افراد کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آزادی کا خیال رکھنا اور ان کے فیصلے اور رائے کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا اہم ہے کہ ہماری وجہ سے ان کی آزادی میں کوئی مداخلت نہ ہو اور وہ اپنے حساب سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہرایک معاملے میں ان کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ہر وقت ان کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے وہ بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ مختلف معاملات میں بزرگ افراد کا نقطہ نظر ہم سے الگ ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں ان کے نظرئے کی قدر کرنی چاہئے اور ان کے نظرئےکو قطعی طور پر مسترد کرنے کے بجائے ان کے ساتھ احتراماً ایک معنی خیز مباحثہ کرکے ان کو سمجھا کر باہمی طور پر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔
انہیں مختلف سرگرمیوں میں مشغول رکھے:
بڑھاپے میں تنہائی، اکیلا پن اور علیحدگی کا احساس ایک پیچیدہ مسلہ ہوتا ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بزرگ افراد کو مختلف مشاغل اور سرگرمیوں میں مشغول رکھے۔ انہیں شادیوں، خاندانی دعوتوں اور سماجی اجتماعات میں مدعو کرے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی تعطیلات ان کے ساتھ گزارے اور انہیں مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کروائے تاکہ انہیں تنہائی اور علیحدگی کا احساس نہ ہو اور ایسے روابط سے انہیں ہماری رفاقت کا احساس ہوگا۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بزرگ افراد کو کھانے پینے کے علاوہ ہمارے دھیان اور ہمارے وقت کی اہم ضرورت ہوتی ہے۔
مضمون کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہے کہ بزرگوں کی عزت و احترام سے ہی ہم ایک ہمدردانہ، عزت دار، ترقی یافتہ اور جامع معاشرے کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے معاشرے کی تہذیب وتمدن کی تعمیر وتشکیل اور ترقی میں ایک اہم رول ادا کیا ہے لہذا ہمارا فرض ہے کہ بزرگی کے ایام میں ہم ان کی عزت و احترام کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔ مندرجہ بالا ہدایات پر عمل کرنے سے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ایک باعزت اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور بدلے میں ان کی حکمت اور ان کے تجربے ہمیں ان گنت طریقوں سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور ایک مضبوط معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر ہمیشہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہمارے بزرگوں کی عزت و احترام اور قدر کی جاتی ہے۔
رابطہ :
عابد حسین راتھر
ای میل: rather1294@gmail.com
موبائیل نمبر : 7006569430
0 تبصرے