Ticker

6/recent/ticker-posts

والدین دیسی، اولاد پردیسی

والدین دیسی، اولاد پردیسی

موجودہ مادی دنیا کے لالچ میں پھنس کر انسان اس کا ایسا غلام ہوا ہے کہ تمام انسانی رشتوں کو پیچھے چھوڑ پردیس جاکر دولت کمانا اس کا ایک مشن بن گیا ہے۔ پردیس میں ایک چیز "دولت" تو حاصل ہوجاتی ہے لیکن لگ بھگ تمام انسانی رشتے اور اقدار پیچھے چھوٹ جاتے ہیں یہاں تک کہ والدین کی خدمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ خدمت تو دور اکثر فوت شدہ والدین کی مٹی بھی نصیب نہیں ہوتی ہے۔ پردیس میں چاہے جیسی بھی زندگی گزارنی پڑے، انبوہ دولت کے حصول نے بیشتر گھروں کو برباد کر دیا ہے۔ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ ان دنوں کس طرح اولاد پر کنٹرول ختم، بیوی کو غیر اخلاقی آزادی حاصل اور والدین حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔

الا ماشاءاللہ بیشک ساری دھرتی اللہ کی ہے اور سبھی کو حق ہے کہ وہ جہاں چاہے جائے اور رہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر جب پردیس آباد ہوتا ہے تو دیس ویران ضرور ہو جاتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے ’’دُور کے ڈھول سُہانے ہوتے ہیں‘‘۔ یہ محاورہ ان پردیسیوں کے لئے ہی خاص ہے جو اپنا سب کچھ گنوا کر غیر ممالک صرف اس لئے جاتے ہیں کہ ان کے گھر والوں کو کوئی پریشانی نہ اٹھانا پڑےاور ان کا مستقبل بھی روشن اور خوبصورت ہوجائے۔ پہلے لوگ روزی روٹی کمانے کے لئے پردیس جاتے تھے لیکن اب اکثر لوگ بوٹی( عیش و عشرت کا سامان) کمانے کے لئے جاتے ہیں۔ حالانکہ قناعت کے ساتھ صبر وشکر کا جذبہ ہو تو وطن میں ہی کھٹی میٹھی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ان حالات میں پردیس جانے والوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

خوشحال طبقہ:-

پہلی نظر میں یہ ہوتا ہے کہ اکثر اونچے عہدے والے لوگ پردیس میں جاکر ہمیشہ کے لئے بس جاتے ہیں۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ بھی خوب سمجھتے ہیں کہ دولت تو مل جاتی ہے لیکن سب کچھ چھوٹ جاتا ہے۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو والدین سمیت پوری فیملی کو پردیسی بنا کر بلا لیتے ہیں۔ بیٹے تو عام طور پر والدین کو چھوڑ دیتے ہیں ساتھ میں بیٹیوں کو بھی والدین سے دور رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ والدین اولاد کی خوشی کی خاطر وہاں جاکر فلیٹ میں گمنام زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر والدین وطن سے محبت کرنے والے ہوئے تو اپنے دیس میں اکیلے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ ایسے والدین یہاں خوبصورت سے مکان اور برینڈیڈ فرنیچر کا چہرہ نہارتے ہوئے موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ دوسرا معاملہ ایسے لوگوں کا ہے کہ شادی کے بعد بیگم کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اب تو رشتہ کے لئے پردیسی بابو ہی ملتے ہیں لہذا لڑکی کے والدین مجبور ہو کر ان سے ہی اپنی بیٹی کا نکاح کرنا پسند کرنے لگے ہیں۔ اس طرح بیٹیاں بھی والدین سے دور ہو جاتی ہیں۔ ایسے لوگ والدین کی زندگی تک تو وطن صرف مہمان بن کر آتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے وطن ہی چھوڑ دیتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔

درمیانہ طبقہ:-

سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یہ طبقہ اپنے ملک میں اچھا کام نہیں ملنے کی وجہ سے مجبوری میں پردیس جاتا ہے۔ ایسے لوگ عموماً اکیلے ہی جاتے ہیں اور اپنے گھر کو اس امید میں خوشحال بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پھر یہیں لوٹ کر آنا ہے۔ وہ اپنی فیملی کے لئے ATM مشین بن کر محنت کی کمائی بھیجتا ہے تاکہ بچوں کو اچھی تعلیم دی جاسکے، لیکن اکثر مایوسی ہوتی ہے۔ والد کی غیر موجودگی میں بچوں کی بہتر رہنمائی نہیں ہو پاتی ہے۔ بچے منفی جذبات کے ساتھ بڑے ہوجاتے ہیں اور پھر باپ بھی احساس ندامت کے تحت بچوں سے دور ہوجاتا ہے۔

بیگم اگر ذمہ دار رہی تو گھر سنبھل جاتا ہے ورنہ وہ پیسے کا غلط استعمال کرکے اپنے گھر کو ہی تباہ کر دیتی ہے۔ ایسی مثال بھی ملتی ہے کہ اگر عورت دین دار نہ ہو تو شوہر کے غائبانہ میں غلط راہ بھی اختیار کر لیتی ہے۔ شوہر بھی پردیس میں ائیر کنڈیشن کمرے کی کاٹ کھانے والے اکیلے پن اور نفس پر جبر کرتے ہوئے مایوس در و دیوار کو نہارتے ہوئے وقت گنتا رہتا ہے۔ کئی عورتوں پر اس کا اثر بھی دکھائی نہیں دیتا ہے، انہیں تو بس آزادی اور پیسہ چاہیے۔ اس طبقہ کے بدنصیب لوگ اپنے بچوں کی پرورش ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں اور جب تربیت کے بغیر بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس دوران ویڈیو کال ہی واحد سہارا بن جاتا ہے جس سے غیر فطری محبت پیدا کرکے سکون حاصل کرنا پڑتا ہے۔

اس طبقہ کے ایک باپ نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ جب والد پردیس میں ہو، تو بچّوں سے اس کا جذباتی رشتہ نہیں بن پاتا بلکہ صرف ایک طرح کا مادّی رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ ’’بابا چاکلیٹ بھیج دیں، گڑیا بھیج دیں…‘‘ توکیا فائدہ ایسی دولت کا، جب آپ بچّوں ہی سے قریب نہ ہوں۔ ‘‘

سرفراز عالم

کمزور طبقہ:-

دونوں طبقوں کی نقل میں اس طبقہ کے لوگ بھی کسی نہ کسی کام میں پردیس جاتے ہیں اور خود کو خوشحال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے بگڑے ہوئے نوجوانوں کی حالت بے شک بہتر ہو جاتی ہے۔ بری عادتوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلانا شروع کر دیتے ہیں۔ سماجی معیار بلند ہو جاتا ہے۔ اچھا مکان، عمدہ فرنیچر اور مہنگی شادیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اوپر کے دونوں طبقوں نے ان کے ذہن و دل پر دولت کا ایسا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ وہ بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ پیسے کی فراوانی کے بعد یہ طبقہ بھی سماج میں خود کی پہچان بنا لینا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی خوشحال ہوکر بقیہ دونوں طبقوں کی طرح سماج الگ تھلگ ہوکر رہ جاتا ہے۔ ان دنوں کچھ ناخوشگوار واقعات بھی ہورہے ہیں۔ 8 اکتوبر 23 کے پندار میں دوسرے صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی کہ اسی طبقے کا ایک فرد سعودی عرب میں برسرروزگار تھا اور اپنی فیملی کا خرچ چلا رہا تھا۔ کسی وجہ سے اس کی تنخواہ میں کمی کردی گئی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر اس نے خودکشی کرلی۔ اس کی نعش پھلواری شریف پٹنہ پہنچنے پرگھر اور آس پاس کہرام مچ گیا۔

آخر میں نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ 90 کی دہائی کے بعد سے اب تک بیرون ممالک جانے کا سلسلہ جاری ہے جس کے ظاہری فائدے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ وجہ چاہے جو بھی ہو پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ Drain of Brain کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا۔ اوپر کے دوسرے اور تیسرے طبقے کے اندر معاشی خوشحالی تو آئی مگر اخلاقی اور روحانی تنزلی بھی اب عام بات ہوگئی۔ دولت کی ریل پیل سے انسانی رشتوں کے درمیان دوریاں قائم ہو گئی ہیں۔ رشتوں کی ذمہ داریاں نبھانے کا مزاج تو لگ بھگ ختم ہوچکا ہے، الا ماشاءاللہ۔ انسانی خیرخواہی کی تعریف بدل گئی ہے۔ آرام و آرائش کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ Luxurious Celebrations کے ذریعہ دین کو مذہب بنا دیا گیا۔ High Standard of living کو زندگی میں سب سے اونچا مقام مل گیا ہے۔ اسلامی اصول کے مطابق کم میں زندگی گزارنا اب کتابی بات ہو گئی ہے، وغیرہ۔ یاد رہے کہ دین میں ضرورت سے زیادہ دولت کبھی پسندیدہ نہیں رہا ہے۔ اگر ہمارے اسلاف میں کچھ لوگ دولتمند رہے تو رضا الٰہی میں دل کھول کر خرچ کیا۔ جب سے انسان دولت کو سینت سینت کر رکھنے لگا، اللہ تعالیٰ نے جیسے برکت ہی چھین لی ہے۔ ایسے بیشتر گھروں میں آسائش کی تمام چیزیں ملیں گی لیکن بہت کم گھروں میں دینی شعور کی بیداری کے لئے کتاب کی ایک الماری بھی نظر آئے گی، الا ماشاءاللہ۔ ان تمام کمزوریوں کے پیدا ہونے میں والدین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے بچوں اور خواتین کی خواہشات کے آگے جھک کر اپنی آخرت خراب کرلی ہے۔ ایسے بیشتر والدین شاید اکیلے میں ان غلطیوں کا احساس ضرور کرتے ہونگے۔ دشمن اسلام نے بے شمار مواقع کے ذریعہ ایسی بساط بچھائی ہے کہ اسلامی تہذیب کا جیسے جنازہ ہی اٹھ گیا ہے۔

 اللہ سے دعا ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی رہیں اپنے دین، تہذیب و ثقافت سے جڑے رہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دلوں میں در آئی تمام خرابیوں سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین !

 سرفراز عالم
 عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے