والدین: شریعت کی نظر میں
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
اسلام نے اللہ، رسول اور اولو الامر کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ والدین کی سمع وطاعت اور خدمت پر زور دیا ہے۔بلکہ قرآن کریم کی آیتوں میں غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جن تین چیزوں کو اللہ نے ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں اطیعو االلہ واطیعوا الرسول، اقیموا الصلوٰۃ واٰتو الزکوٰۃ اور ان اشکرلی ولوادیک ہے، یعنی اللہ اوررسول کی اطاعت کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، تین الگ الگ آیتوں میں ان تین چیزوں کا ایک ساتھ ذکر اس کی اہمیت بتانے کے لیے کافی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
قرآن کریم میں والدین کے تعلق سے آیت
قرآن کریم کی سورۃ نبی اسرائیل (23-24) میں والدین کے تعلق سے ایک طویل آیت ہے، جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ حکم دے چکا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایک یادونوں ان میں سے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف (ہوں، ہاں) تک نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے بات ادب سے کرو، عاجزی رحمت ومحبت اور تواضع کے ساتھ ان کے سامنے اپنے بازو جھکائے رکھو اور اللہ تعالیٰ سے کہو کہ میرے رب ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کر، جیسا رحم کے ساتھ انہوں نے مجھے پالا، بچپن میں۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک
ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا، شرک سے منع کیا اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی۔ (النساء: 36)اس کے لیے کہیں حسن اور کہیں احسان کا لفظ قرآن میں آیا ہے، ایک حدیث مشہور ہے، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم اور تمہارامال سب تمہارے باپ کا ہے، (انت ومالک لابیک) حسن سلوک اور احسان کے طریقے بھی بتائے، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، شفقت ومحبت سے پیش آیا جائے، ان کی رضا مندی اور خوشنودی کا خیال رکھا جائے، قرآن کریم میں ”اُف“ کا لفظ اسی لیے استعمال ہوا کہ تکلیف پہونچانے کا یہ سب سے چھوٹا عمل ہے،اگر ناراضگی کے لیے اس سے بھی کوئی چھوٹا عمل ہوتا تو اس کا بھی ذکر کیا جاتا، اقل قلیل کا ذکر کرکے انسانوں کو یہ بتایا گیا کہ اس سے اوپر کے بھی سارے معاملے اللہ کی ناراضگی کا سبب بنیں گے، ایک حدیث میں یہاں تک آیا ہے کہ والدین کی نا فرمانی کرنے والا چاہے جو عمل کر لے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
والدین کی خدمت جہاد سے افضل
یہی وہ اہمیت ہے جس کی و جہ سے والدین کی خدمت کو جہاد سے افضل قرار دیا گیا، روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں، جو اب ملا کہ ہاں،ا رشادفرمایا: انہیں کی خدمت کرو، یہی جہاد ہے، حضرت اویس قرنی اپنی ماں کی خدمت کی وجہ سے ہی دربار رسالت میں حاضر نہیں ہو سکے، ان کی ماں انتقال کر گئیں تب انہوں نے مدینہ کی طرف کوچ کیا، تب تک آپ دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے، اس قسم کے واقعات کتابوں میں کثرت سے مذکور ہیں۔
والدہ کی خدمت
میں نے اپنے دور میں بھی محمد طلحہ صاحب مرحوم سبل پور پٹنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت کے لیے(جو بستر پربرسوں سے تھیں) کہیں آنا جانا چھوڑ دیا تھا، بہت ضروری ہوتا تو اپنے کسی لڑکے کو ان کے سرہانے بیٹھا کر اور ماں سے اجازت لیکر گھر سے نکلتے، جب انہوں نے ان کو دفن کر دیا تب ان کے معمول میں تبدیلی آئی، لیکن ماں کی جدائی کا غم اس قدر تھا کہ زیادہ دن جی نہیں سکے اور جلد ہی دنیا سے گذر گیے۔ میں نے دربھنگہ کے ایک پروفیسر کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے والد کے مرض وفات کے موقع سے طویل فرصت بلا تنخواہ لی اور جب تک والد زندہ رہے ان کے سرہانے بیٹھے رہے، قرون اولیٰ کے واقعات اور قصے ہم نے کتابوں میں پڑھے ہیں، لیکن یہ واقعات عصر حاضر کے ہیں اور میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک اور فرماں برداری کے احکام اور فضائل
والدین کے ساتھ حسن سلوک اور فرماں برداری کے جو احکام اور فضائل ہیں، ان پر عمل کرنے والا نیک اور سعادت مند ہوتا ہے، اس کی عمر اور رزق میں وسعت ہوتی ہے۔ اسی طرح والدین کی نا فرمانی موجب شقاوت اور نحوست ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تین بڑے گناہ بتائے ہیں، ان میں ایک شرک دوسرا جھوٹ اور تیسرا والدین کی نا فرمانی کرنا ہے، اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ایسے آدمی کا ذکر کیا، جن کی طرف قیامت کے دن اللہ رب العزت نہیں دیکھیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، ان میں ایک والدین کا نا فرمان ہے، جو جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا، حالاں کہ جنت کی خوشبو صالحین کو پانچ سو سال کی مسافت سے ملنے لگتی ہے، بہت سارے گناہ وہ ہیں جن کی سزا آخرت تک مؤخر ہوجاتی ہے، لیکن والدین کی نا فرمانی کی سزا موت سے پہلے بھی مل جایا کرتی ہے۔
والدین کی نا فرمانی کا نتیجہ
والدین کی نا فرمانی سے موت کے وقت کلمہ بھی نصیب نہیں ہوتا، حضرت علقمہ ؓ صحابی رسول ہیں،ا ن کی ماں ان سے ناراض تھیں تو موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہیں ہو رہا تھا، حالاں کہ ان کی والدہ نے خفگی کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتا تھا، روزے رکھتا تھا، اور صدقہ بھی خوب کیا کرتا تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے احوال جان کر ارشاد فرمایا کہ علقمہ نہ تو اپنی نماز سے نفع اٹھا سکتا ہے ا ور نہ ہی اپنے روزے اور صدقے سے، جب تک اس کی ماں ناراض ہے، یہ سن کر ان کی والدہ نے انہیں معاف کر دیا، تب زبان پر کلمہ جاری ہوا اور اسی دن ان کی موت ہوئی۔
میں نے ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھاہے جو اپنے والد کو ڈنڈے برساتا تھا، میرے والد مرحوم ماسٹر محمد نور الہدیٰ ؒ کی عادت تھی کہ جب گاؤں اور قرب وجوار کے کسی آدمی کے بارے میں ان کو خبر ہوتی کہ وہ نزع کی تکلیف میں ہے تو کلمہ کی تلقین اور سورۃ یٰسین کی تلاوت کے لیے اس کے گھر جاتے، کبھی کبھی ان کے ساتھ میرا بھی جانا ہوتا تھا، ایک صاحب کے یہاں والد صاحب گئے تو سعی بسیار کے باوجود اس کی زبان پر کلمہ شہادت جاری نہیں ہو پا رہا تھا، اس کے والد کو بلایا گیا، بڑی منت سماجت کے بعد وہ اسے معاف کرنے پر راضی ہوئے، بیٹے نے تکلیف بہت پہونچائی تھی اور وہ سب عکس کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا، جیسے ہی انہوں نے معاف کیا ان کی زبان پر کلمہ جاری ہو گیا، حدیث میں اس قسم کے بہت سے واقعات مذکورہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ والدہ معاف کرنے کو تیار نہیں تھی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے لکڑی منگوائی آگ روشن کیا اور کہا کہ اس کو اٹھا کر اس آگ میں ڈال دو، ماں نے کہا کہ مت ڈالیے بتایا گیا کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ سخت ہے، اگر تم نے معاف نہیں کیا تو یہ جہنم میں ڈالا جائے گا، تب جا کر اس کا دل پسیجا اور وہ معاف کرنے کو تیار ہوئی۔
عوام بن حوشب ؒ کے حوالہ سے امام اصبہانی نے لکھا ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا، اس کی ماں روکتی تو کہتا کیا گدہے کی طرح رینگتی رہتی ہے، عصر کے بعد اس شخص کی موت ہوئی تو قبر اس کی پھٹ جاتی اور تین بار گدہے کی آواز نکالتااور پھر قبر اس پر بند ہوجاتی، ابو بکر ابن مریم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ توریت میں والدین کو مارنے والے پر رجم کی سزا مذکور ہے۔
عذاب کے مسلسل نازل ہونے کے جو اسباب احادیث میں آئے ہیں، ان میں سے ادنی صدیقۃ واقصی ٰ اباہ، دوست قریب ہوجائیں گے اور والدین دور ہوجائیں گے او ر آدمی اپنی بیوی کا فرماں بردار ہوگا، اس کی اطاعت کرنے لگے گا، آج صورت حال یہی ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ رات رات بھر لہو ولعب میں مبتلا رہتا ہے، والدین کراہ رہے ہیں، انہیں دوا کی ضرورت ہے، تیمارداری کی ضرورت ہے، لیکن بچوں کے پاس والدین کی خدمت کے لیے وقت نہیں ہے، مسئلہ صرف وقت کا نہیں، وہ ان سے نفرت بھی کرنے لگتا ہے، معاملہ دل کا نہیں، زبان اور تحریر میں بھی برملا اس کا اظہار کررہتا ہے۔وہ بیوی کا اس قدر فرمان بردار ہو جاتا ہے کہ والدین کی سنتا ہی نہیں ہے، اسے بوڑھے والدین کی آواز مینڈک کی ٹرٹراہٹ محسوس ہوتی ہے، وہ والدین کو اپنی سر گرمیوں میں رکاوٹ سمجھتاہے، اسی لیے اب ہمارے ملک میں بھی اولڈ ایج ہوم(بیت الضعفاء) نے رواج پالیا ہے، بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا تو اولڈ ایج ہوم ان کے لیے رحمت ثابت ہوتا ہے وہ ان کی راحت رسانی میں لگتا ہے، لیکن ظاہر ہے اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، یہ ایمانی، انسانی تقاضہ اور شرعی مطالبہ ہے کہ ہم والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں اور ان کی فرماں برداری کریں۔
فرماں برداری کا مطلب
فرماں برداری کا مطلب قطعاً یہ نہ لیا جائے کہ ان کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے، بالکل نہیں، ایسے تمام احکام جو منکرات کے درجہ کے ہیں اور قرآن واحادیث میں اس کی مخالفت آئی ہے، اس میں اطاعت وفرماں برداری نہیں کرنی ہے، مشہور اصول ہے۔ لا طاعۃ فی معصیت اللہ۔ اللہ کی نا فرمانی میں کبھی کسی کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ سورۃ لقمان میں ایسے والدین کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جومشرک ہیں، ان کے کفر وشرک میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی، لیکن دستور کے موافق ان کے ساتھ بھلائی کے عمل کو جاری رکھا جائے گا۔
ایک اور بیماری ان دنوں نو جوانوں کے اندر پیدا ہو گئی ہے کہ جہاں والدین کے حقوق، ان کی اطاعت اور فرماں برداری پر بات شروع کیجئے، فورا ان کو اپنے حقوق کا خیال آجاتا ہے، یعنی وہ کاؤنٹر کرتے ہیں کہ بچوں کے بھی تو حقوق ہیں، یقینا ہیں،ا ن کا ذکر بھی ہوتا ہے، لیکن اسے خلط مبحث نہیں کرنا چاہیے، تھوڑی دیر کے لیے مان لیجئے کہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں والدین سے کوتاہی ہوئی، اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں تو کیا قرآن واحادیث میں والدین کے جو حقوق ذکر کیے گیے ہیں اور جو حکم دیا گیا ہے، اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے، ایسا بالکل نہیں ہے۔
اور پڑھیں 👇
●
0 تبصرے