Ticker

6/recent/ticker-posts

حادثہ : اردو نظم — عطیہ نور | Hadsa Urdu Nazm Atiya Noor

حادثہ : اردو نظم — عطیہ نور

نظم

حادثہ
۔۔۔۔۔
قتل جب اک حادثہ کہلاۓ گا
تخت پر قاتل بٹھایا جائے گا
اُسکے ظلموں کے نشاں کو جب کبھی
چند سکّوں سے مٹایا جائے گا

خوں سے رنگے ہاتھ میں جب بھی کبھی
مُلک کا پرچم تھمایا جائے گا
آگ بستی میں لگائیں جو انہیں
پھول کا گجرا پنہایا جائے گا

مفلسوں کے جِسم پر جب بھی کبھی
یہ سیاست رقص فرمانے لگے
اور عزت لوٹنے والوں کی جب
خود ہی حاکم سیج سجوانے لگے

جیل میں بیٹھے ہوئے قاتل کو جب
عیش و عشرت کے سبھی ساماں ملیں
اور با عزت ہر اِک شہری کو جب
بے وجہ ہر موڑ پر طوفاں ملیں

نفرتوں کی بھیڑ چوراہوں پہ جب
تھام لے قانون اپنے ہاتھ میں
اور ڈرے ۔سہمے ہوئے مظلوم جب
مانگتے اِنصاف ہوں ہر بات میں
مندر و مسجد کا جھگڑا عام ہو
اورحکومت کو نہ کوئی کام ہو

بھوک سے مرتے ہوئے اِنسان ہوں
ڈگ مگا تے اُنکے بھی ایمان ہوں
نو جواں جب کام مانگیں ،ہاتھ میں
اُنکے شمشیریں تھمائی جائیں اور
کھیت میں فصلیں نہ پیدا ہو سکیں
اُن میں بندوقیں اگائی جائیں جب

مان لو تہذیب پر حملا ہوا
مُلک کی تقدیر پر حملا ہوا
مذہبوں کے نام پر سازش ہے یہ
مُلک پر چھائی ہوئی گردش ہے یہ

اُٹھو تہذیبیں بچانی ہیں ہمیں
اپنی جاگیریں بچانی ہیں ہمیں
مُلک کی عظمت لگی ہے داؤں پر
مُلک کی عظمت بچانی ہے ہمیں

اب حفاظت سارے ایوانوں کی ہو
بے گنہ سارے ہی انسانوں کی ہو
ظالموں کی حُکم رانی ختم ہو
ظُلم کی ساری کہانی ختم ہو
عطیہ نور
الہ آباد
اُتَر پردیش

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے