میں ایک ائینہ : ہماری ادھوری کہانی
کتنی اکیلی اور تنہا ہوں میں! کیونکہ زندگی میں جب میں نے خوش ہونا چاہا خوش نہ ہو سکی ۔کبھی کھل کر ہنسنا چاہا۔لیکن ہنس نہ سکی ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیا ہوا ہے میرے ساتھ ۔ لیکن حادثات کا مجموعہ ہے اور ہر حادثے سے ایک کہانی جڑی ہوتی ہے اور ہر کہانی میں ایک مرکزی کردار ہوتا ہے جس سے کہیں نہ کہیں ہم جڑ جاتے ہیں ۔اور پھر وہی حادثہ وہی کہانی اور کہانی کا وہی کردار ہمارا آئینہ بن جاتا ہے کیونکہ ہر انسان دوسرے انسان کا آئینہ ہوتا ہے ۔
Story On Women's Life In Urdu
Difficulties Of Woman's Life
میں ایک آئینہ
کتنی اکیلی اور تنہا ہوں میں! کیونکہ زندگی میں جب میں نے خوش ہونا چاہا خوش نہ ہو سکی ۔کبھی کھل کر ہنسنا چاہا۔لیکن ہنس نہ سکی ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیا ہوا ہے میرے ساتھ ۔ لیکن حادثات کا مجموعہ ہے اور ہر حادثے سے ایک کہانی جڑی ہوتی ہے اور ہر کہانی میں ایک مرکزی کردار ہوتا ہے جس سے کہیں نہ کہیں ہم جڑ جاتے ہیں ۔اور پھر وہی حادثہ وہی کہانی اور کہانی کا وہی کردار ہمارا آئینہ بن جاتا ہے کیونکہ ہر انسان دوسرے انسان کا آئینہ ہوتا ہے ۔
میں چاہتی ہوں کہ میں آپ کا آئینہ بنوں اور آپ دیکھیں کہ کہیں آپ میں کوئی خامی تو نہیں ۔دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو دوسروں کو مثال بنا کر زندگی گزرتے ہیں اور دوسرے وہ جو خود مثال بن جاتے ہیں ۔
میں کھلی آنکھ سے خواب دیکھنے والی لڑکی تھی کیونکہ میرے خواب مجھے سونے نہیں دیتے تھے اور میں ان خوابوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور انہی خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے مجھے اچھے برے کی سمجھ ہی نہیں رہی ۔
میرا نام تہذیب ہے اور میرا ایک ہی خواب تھا۔ماڈل بننا اور شو بز کی دنیا میں اپنا نام سر فہرست دیکھنا ۔
یہ واقعہ تب کا ہے جب میں بی اے کے تیسرے سال کے امتحان دے رہی تھی ۔اس روز آخری پیپر تھا۔ہمارا پارٹی کا پلان تھا۔ہم سب نے لنچ باہر کرنے کا پلان بنایا ۔ لنچ کے دوران روحینہ نے مجھسے کہا۔"تہذیب مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے جسے سن کر تم خوشی سے پاگل ہو جاؤگی ۔" میں نے کہا " میں تو خوشی سے اب بھی پاگل ہو رہی ہوں کیونکہ آج امتحانات ختم ہو گئے۔" ارے یہ تو تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی خوشخبری ہے پتہ ہے میرے لندن والے انکل ایک فلم بنا رہے ہیں اور اس میں وہ تمہیں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔" روحینہ نے جوش سے بتایا۔"کیا! واقعی تم سچ کہ رہی ہو ؟انہوں نے مجھے کہاں دیکھا ؟ میں تو جانتی بھی نہیں انھیں؟"مجھے تو جیسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی یہ کوئی معجزہ ہے ۔
"ارے ارے سانس تو لو یاد ہے تمہیں یونیورسٹی کے سالانہ جلسے میں تم نے شیکسپیر کی کہانی کے ایک کردار کا رول ادا کیا تھا ۔جس کے لئے تمہیں انعام بھی ملا تھا۔بس اسی پروگرام کی ویڈیو میں نے انکل کو دکھایی اور وہ تو جیسے تم سے ملنے کے لئے بے چین ہیں ۔وہ تو میں نے ہی ان سے کہا کہ امتحان ہو جایئں پھر بات کرتے ہیں۔" روحینہ نے تفصیل سے پوری بات بتائی ۔میرا حال تو ایسا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوشی میں کیا کروں۔میں نے روحینہ سے کہا " روحینہ تم کل ہی اپنے انکل کو میرے گھر ڈنر پر لے آؤ ۔
نہیں یار انکل نے تمہیں اپنے گھر بلایا ہے " روحینہ نے کہا " لیکن میں اکیلی کیسے جاونگی۔"مجھے فکر ہوئی۔"ارے تم اکیلی کیوں میں ساتھ ہوں نا تم کل شام 6 بجے تیار رہنا ۔ میں تمہیں پک کر لوں گی۔"روحینہ نے کہا۔
اگلے دن میں بدی جوش سے تیار ہوئی اور گھر میں بھی جھوٹ کہا کہ ہم سب دوست مال جا رہے ہیں۔امی نے دو چار سوالات تو کئے لیکن وہ جانتی تھیں کہ میں اپنے دل کی کرتی تھی۔
گھر سے نکلی ہی تھی کہ روحینہ کی کال آیی ۔اس نے کہا کہ وہ نہیں آ سکتی ۔اس کے دور کے رشتےدار کا انتقال ہو گیا ۔ اس کا جانا ضروری ہے اور کہا کہ میں اکیلے چلی جاؤں کیونکہ انکل انتظار کر رہے ہیں۔
میں گھر سے نکل ہی چکی تھی اور جب ہم اپنی خواہشوں کے پیچھے اندھا دھند دوڑتے ہیں تب ہماری سوچنے سمجھنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے ۔میں بھی اپنی خواہش کے آگے کچھ سمجھ نہیں پایی اور چل پڑی اس ایک ایسے راستے پر جہاں سے واپسی کے سارے راستے بند تھے ۔کچھ دیر بعد میں ایک بلڈنگ کے فلیٹ کے باہر موجود تھی۔ کچھ ہی دیر میں تقیریبا چالیس سال کے ایک آدمی نے دروازہ کھولا ۔وہ روحینہ کے انکل تھے ۔انہونے مجھے اندر آنے کے لئے کہا۔میں اندر آیی تو وہاں پہلے سے دو تین لوگ اور موجود تھے ۔ مجھے کچھ عجیب تو لگا۔لیکن وہی دماغ کچھ اور کہہ رہا تھا اور دل کچھ اور سمجھا رہا تھا۔تھوڑی دیر تک انہوں نے فلم کے متعلق بات کی ۔اس کے بعد میرے لئے شربت لے آئے۔
جب میری آنکھ کھلی تو میں کسی کمرے میں بند تھی ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور یہاں کیسے اور کب پہنچی۔
اتنے میں کچھ سمجھ پاتی تبھی ایک آواز ہوئی۔کوئی کمرے میں آیا ۔یہ شخص ان ہی میں سے ایک تھا۔جو وہاں اس فلیٹ پر موجود تھے ۔
میں پاگلوں کی طرح چلا کر بولی۔
"میں یہاں کیسے آ گئی۔تم لوگ کیوں لاۓ مجھے یہاں۔یہ کونسی جگہ ہے ۔آخر تم لوگ چاہتے کیا ہو"۔ مجھے چلاتے دیکھ کر اس نے مجھے ایک تھپڑ مارا۔ اور بتایا کہ وہ ایک بڑی ارگنائزیشن کے ممبر ہیں۔جہاں اسی طرح کے غلط کام کیے جاتے ہیں۔ مجھے لندن لے جایا جا رہا تھا اور میں وہاں دو دن سے موجود تھی۔
یہ سب سن کر میرے آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا۔میں سمجھ چکی تھی کہ اب کوئی راستہ نہیں ہے ۔وہ مجھے بیہوشی کا انجکشن دے رہا تھا تبھی میں نے اس سے کہا کہ مجھے انجکشن مت لگاؤ۔ میں کچھ نہیں کروں گی اور ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں۔لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور کچھ دیر میں پھر سے بے ہوش ہو گئی ۔رات کا جانے کون سا پہر تھا جب مجھے ہوش آیا۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ میں نے ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا اور آگے کیا ہونے والا یہ سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی۔ میں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا ۔کوئی کھڑکی بھی موجود نہیں تھی ۔بس کافی اوپر ایک بڑا روشندان تھا جسے کسی چیز سے بند کیا ہوا تھا ۔نائٹ بلب کی ہلکی روشنی میں کچھ سامان دکھائی دے رہا تھا ۔وہ کوئی گودام تھا ۔بہت سی سامان کی بوریاں وہاں موجود تھی ۔انجکشن کی ہیوی ڈوز کی وجہ سے میرے ہاتھ پیر بے جان سے تھے۔لیکن اگر مجھے خود کو بچانا تھا تو یہ ہمت کرنی تھی۔ میں مشکل سے اٹھی اور وہاں رکھے سامان کی مدد سے روشندان تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگی۔ میں دو بار گری ۔درد ہوا چوٹ لگی لیکن جو آگے ہونے والا تھا اس سب کے سامنے یہ درد کچھ نہیں تھا۔ میں پھر سے اٹھی اور پھر سے کوشش کی ۔اس بار میں روشندان تک پہنچ گئی۔ شاید میں نے کبھی کوئی نیکی کی ہوگی جو اللّه نے میرا ساتھ دیا اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ روشندان صرف کسی چیز سے بند تھا لیکن وہاں سے میں باہر نکل سکتی تھی۔ جب میں باہر کی طرف جھانکا تو دیکھا کہ وہ روشندان کافی اونچا تھا۔ اگر میں وہاں سے کودتی تو میری ہڈی بھی ٹوٹ سکتی تھی ۔لیکن اس وقت مجھے اپنی پرواہ نہیں تھی اور میں نے باہر کی طرف چھلانگ لگا دی۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔میرے ہاتھ پر چوٹ لگی ۔لیکن مجھے وہاں سے نکلنا تھا ۔میں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ اس جگہ سے کافی دور آنے کے بعد میں رکی ۔صبح ہونے والی تھی ۔میں سڑک کی تلاش میں آگے بڑھنے لگِو۔ جیسے ہی میں آگے بڑھی ۔مجھے سڑک نذر آیی اور وہاں سے جاتے ہوئے لوگوں سے میں نے مدد مانگی۔ایک خاتون کار سے اتری اور مجھے سہارا دے کر ہسپتال لے آیی۔میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور بہت سے زخم تھے جنہیں ٹھیک ہونے میں ہفتہ لگ گیا۔اس خاتون نے میری ہر طرح سے مدد کی۔وہ انھیں سب بتا چکی تھی ۔وہ مجھے چھوڑنے میرے گھر لے کر آیی ۔لیکن میرے گھر والوں نے میری شکل تک دیکھنے سے انکار کر دیا۔ اس رات انہونے روحینہ کو فون کیا اور روحینہ نے بتایا کہ میں اکیلے کسی سے ملنے گئی ہوں اور ہمارا مال جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سب گھر والوں کا یقین مجھ سے اٹھ چکا تھا اور وہ سہی تھے ۔غلط تو میں تھی ۔آج جب کہ اس بات کو بیس سال گزر چکے ہیں ۔میں حسن تہذیب ایک کامیاب عورت ہوں۔میں ایک ایسا ادارہ چلاتی ہوں جہاں لڑکیوں کو ہر ہنر سکھایا جاتا ہے اور ساتھ ہی انھیں زندگی جینے کا سہی طریقہ سکھایا جاتا ہے تاکہ پھر کوئی تہذیب اپنی تہذیب نہ بھولے اور گمراہ نہ ہو ۔مجھے تو میرے اللّه نے نہ صرف بچایا بلکہ مجھے ایک ایسی خاتون سے ملایا جنہوں نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔وہ کہتے ہیں نہ کہ اللّه ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے اور ہماری نادانیوں اور غلطیوں کو معاف کر کے ہمیں عزت عطاء کرتا ہے۔مجھے نہیں پتہ میری دوست روحینہ اس میں شامل تھی بس میں یہ جانتی ہوں کہ میرے اللّه نے مجھے بچایا اور مجھسے نیک کام لیا۔بس ایک ٹیس دل میں اٹھتی ہے کہ میں اپنے گھر والوں سے ہمیشہ کے لئے دور ہو گئی ۔
گل گلشن انصاری
نالہ سوپارہ۔ممبئی
0 تبصرے