Ticker

6/recent/ticker-posts

Huzoor Mujahid e Millat Alama Shah Habeeb Ur Rahman Hayat Wo Khidmat

حضور مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمٰن علیہ الرحمہ : حیات و خدمات کے تناظرمیں

Huzoor Mujahid E Millat Alama Shah Habeeb Ur Rahman Hayat wo Khidmat
از قلم۔محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔ مجلسِ علمائے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پورزونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔

9007124164

اللہ ربّ العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ"
سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی غم"۔(پ،11،سورہ یونس) اور مزید اولیاے کرام کے تعلق سے کسی نے فارسی میں بڑے ہی اچھوتے انداز میں لکھا ہے کہ؀

یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہترازصد سالہ طاعت بے ریا
اولیاء را ہست قدرت از الہ
تیر جستہ باز گر دانند زراہ

ولی کا معنیٰ

ولی کی جمع اولیاء ہے اور ولی کا معنیٰ قرب و نزدیکی ہے۔محبت کرنے والے ، دوست،فرمانبردار،مددگاراور نگہبان کے بھی آتے ہیں۔
ملت اسلامیہ! وہ لوگ انتہائی خوش نصیب ہیں،جنکے دلوں میں اولیاء کرام کی محبت موجزن ہے،اس لیے کہ اولیاء اللہ کی محبت رضاے الہی کے لئے ہے اور ان سے محبت کیوں کرنی چاہیے اور کیسے کرنی چاہیے اور اسکے پیچھے انکی زندگی کو اپنانے کے لئے آخر کار راز کیاہے اور انکی زندگی کو کیسے ہم ہمیشہ کے لیے محفوظ کرسکتے ہیں جو آنے نسلوں کی لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوسکے تو یقینا آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلاف کی حیات و خدمات، کردارو عمل اور ان کی یادوں کے بجھتے ہوئے چراغوں کی لو کو تیز کرنا ہر مومن کی دینی ملی اور اخلاقی فریضے میں داخل ہے۔ اس لئے کہ بد عقیدگی، بد عملی اور بے راہ روی کے ماحول میں ان کی حیات کے تابندہ نقوش دم توڑتے جذبوں ،ٹوٹتے حوصلوں اور منتشر خیالوں کو یقین و اعتماد کی منزل عطا کرتےہیں۔ تاریخ پر جن لوگوں کی گہری نظر ہے وہ اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ جب جب تاریکی کے سائے گہرے ہوئے ہیں، آزاد خیالی کا طوفان اٹھا ہے اور آوارگی کے مہلک جراثیم نے صالح نظریات کو متاثر کرنے کی کوششیں کی ہیں تو حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ جیسی علم پرور، پاکباز، دین پرست اور تقوی شعار شخصیت کے پاکیزہ کارناموں سے پھسلتے قدموں کی استقامت کی دولت، یقین کا نور اور امید کا سویرا ملا ہے۔

آپکی ولادت باسعادت

حضور مجاہد ملت کی ولادت 8/ محرم الحرام 1322ھ بمطابق 22/مارچ 1904ء میں ہوئی۔اور وصال مبارک 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/مارچ 1981ء میں ہوا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی سے 28/سالہ زندگی سے 28 سال تعلیم و تربیت کے لیے نکال دیۓ جائیں تو 50/سال بچ جاتے ہیں۔یعنی آپ پورے پچاس سال تک پورے ہوش وحواس کے ساتھ مذہب و مسلک اور قوم وملت کی خدمات انجام دیتے رہے۔جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک وملت کے لئے خود کو پیش کیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی  خدمات کے جذبے سے خالی ہو۔ بعض صوفیاء کا فرمان ہے کہ جو سانس ذکر الہی سے خالی ہو کافر ہے۔ آپ کی حیات کا مطالعہ اس خیال کو اعتبار عطا کرتا ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ذکر و فکر سے خالی نہ تھا۔ آپ کے دینی ملی اور جماعتی درد کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے آپ جس شہر میں جاتے تھے قیام کے لیے کسی مسجد کا انتخاب فرماتے۔ عقیدتمندوں کی جماعت یہ چاہتی کہ حضور کسی کے گھر پرقیام کریں ۔ عقیدتمندوں کو آپ جواب دیتے کہ  گھر کے دروازے عموماً  دس بجے رات میں بند ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے گھر کے دروازہ ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت قوم کو نہ جانے کس وقت پیش آجائے۔گھر میں قیام کرنے سے صاحب خانہ کو ہمارے لئے پوری پوری رات بیدار رہنا ہوگا اوریہ دقت طلب کام ہے۔ مسجد میں نہ آنے کی پابندی ،نہ جانے کی پابندی ۔مصلحین امت کی تاریخ میں ایسی مثال بہت کم ملے گی آپ کی اس طرزِ زندگی پر جس قدر غور کیجئے حیرانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اپنی دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات سے پورے عہد کو متاثر کیا۔اوروآج جو بھی آپکی حیات کا مطالعہ کرتا ہے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔عہد حاضر کے مصلحین امت کے لیے آپکی زندگی کا ہر سانس مشعل راہ ہے۔

آپ کی ذات بابرکات

حضور مجاہد ملت علم و عمل،عشق وعرفان اور ایمان و یقین کی اس منزل پر فائز تھے جہاں پہنچنے کی فکر میں بڑے بڑے صاحب فضل و کمال کے شاہین کے بال وپر  جلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں،عشق وعرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں،جرات وہمت کی کوئی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔اگر آپکی حیات کے سنہرے اوراق الٹے جائیں،تاریخ کے دفاتر کھنگالے جائیں اور زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ‌آپ کے نقوش یکجا کیے جائیں تو حکمت ودانائی کے درجنوں ابواب مرتب ہوسکتے ہیں۔ آپکی کتاب حیات کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف وشفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے۔حضورمجاہد ملت یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر تھے۔حوادث سے الجھتے ہوے مقاصد تک پہنچنا انکی فطرت تھی۔انکی ذات معمار سنیت بھی تھی اور شعار سنیت بھی۔ زمین پر بیٹھ کر افلاک کی وسعتوں میں ٹہلناآپ کے معمولات میں داخل تھا۔ آپ کی ذات جماعت اہلسنت کے لیے انعام الہی بھی تھی اوراسرار الہی بھی۔آپ کو آپکے عہد نے نہیں سمجھا۔آپکو آپکا عہد سمجھ لیتا تو بر صغیر میں آج مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی۔ جس طرح ماضی میں آپ کے نقوش پا مینارہ نور تھے،اسی طرح آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک مینارہ نور بنے رہیں گے۔آج کی قیادت آپکے نقوش حیات کو رہنما بناکر جماعتی مسائل کی بہت ساری پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتی ہے۔آپکی زندگی کے تمام تر نقوش روشن ہیں لیکن ان نقوش کو اپنی حیات کا حصّہ بنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آپکی ذات تاحیات فانوس عشق وعرفان کی صورت میں روشن رہی۔ آپ نے جماعت اہلسنت کو وقار و اعتبار بخشا ہے اسکی کوئی دوسری مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے ۔ باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے آپ سخت مخالف تھے۔ آپکی زندگی کا ہر تیور یقیناً اس شعر کا آئینہ دار تھا کہ؀


یقین  محکم  عمل  پیہم  محبت  فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں

ماخوذ:حیات وخدمات اور اعتراف

 مجاہد ملت کی بیشمار خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مسند درس و تدریس پر بیٹھ کر نہایت قیمتی اور باصلاحیت علماء کی جماعت تیار کی۔ فرقہ باطلہ اور دوسرے مذاہب کے درمیان دین اسلام کی شوکتوں کو اجاگر کیا۔آپقی زندگی کا بیشتر لمحات حمایت حق اور اماتت باطل میں گزرے۔آپ نے  قدم قدم پر قوم وملت کو بالغ شعور کا اجالا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ہنر عطاکیا۔آپکی ذات میں درد ملت کو مجسم دیکھا جاسکتا ہے۔

آپکی عاجزی و انکساری

ایک روز حضور مجاہد ملت قدس سرہ  نے فرمایا کہ ہم لوگ اس بارگاہ کے فقیر ہیں۔ہم لوگوں کو باہر کھڑکی کے سامنے لائن میں لگ کر تبرک لینا چاہیے۔ چنانچہ ہم لوگ کاسہ گدائی لے کر لائن میں کھڑے ہوئے۔بعض کو یہ بات ناگوار ہوئی لیکن حضور مجاہد ملت کے روبرو کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔ جب باورچی جلال نے حضرت کو دیکھا، کہا آپ کیوں تکلیف کر رہے ہیں؟ آپ برتن ہر روز کی طرح بھیج دیں میں شور دے دونگا ۔حضور مجاہد ملت قدس سرہ نے فرمایا : نہیں اس وقت میں یہیں سے لوں گا۔لائن میں لگے ہوئے لوگوں میں سے کئی شخص شوربا لے کر چلے گئے۔ لیکن ایک لڑکا حضور کے آگے تھا جلال نے اس لڑکے سے کہاکہ پیچھے ہٹ جائے اور شیخ کو پہلے لینے دے۔لیکن حضور مجاہد ملت نے انکار کر دیا اور فرمایا: نہیں! وہ میرے آگے ہے،پہلے وہ لےگا پھر میں لونگا ۔ہم سب اس بارگاہ کے فقیر ہیں۔ اسی طرح ہم لوگ کئی روز کاسہ گدائی لے کر تبرک شوربا لینے کے لئے اس مردوں والی کھڑکی کے سامنے لائن میں لگے رہے۔(مرد سوزاں مجاہد ملت ص 410/ 411)

حضور مجاہد ملت قدس سرہ کی پوری زندگی مذہبی درد سے عبارت تھی۔ بلکہ اگر کوئی مذہبی درد کو مجسم دیکھنا چاہے تو حضور مجاہد ملت کو دیکھ سکتا ہے اپنے مذہبی قدروں کے فروغ میں جو قربانیاں پیش کی ہیں، اس کے بیان کے لئے واقعی لغات میں الفاظ نہیں ملتے۔ گود سے گور تک کا کوئی لمحہ آپکا خدمت دین متین  سے خالی نہیں ملتا۔آپکی زندگی کی ہر سانس سے اتباع شریعت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔جبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں؀

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کوارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

اللہ ربّ العزت ہم سارے مسلمانوں کو حضور مجاہد ملت علامہ شاہ محمد حبیب الرحمٰن صاحب علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ان بزرگان دین کے صدقے طفیل دارین کی نعمتوں سے مالا مال فرماے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے